• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب فرنگی ہندوستان پر قابض ہوا، تو ہر طرف وہ ہر طرح کے مزوں سے لطف اندوز تھا لیکن خیبر میں 18برس پولیٹکل ایجنٹ رہنے والے البرٹ وربرٹن اپنی کتاب "Eighteen years in Kbyber"میں یوں بد مزہ ہوتے ہیں۔ ’’ 25سال سے پورے ہندوستان پر ’پرامن‘ قبضہ جمائی برطانیہ کی عظیم طاقت کے لئے نیم وحشی قوم پٹھان درد سر ہے، ان کا اہم شہر پشاور ایک ہیبت کدہ ،جہاں شہر سے دو میل دور بھی انگریز کی جان کی ضمانت نہیں‘‘ لارڈ لٹن اپنی کتاب "Frontrier"میں اقرار کرتے ہیں۔ ’’ربع صدی کے قبضے کے بعد بھی ہم نہ پٹھانوں کے جسم پر قبضہ کرسکے نہ دلوں پر‘‘ میجر جیمز اپنی کتاب  ’’وحشی قوم‘‘ میں چِلا اُٹھتے ہیں ’’پٹھان اور خون آشامی ہم معنی الفاظ ہیں‘‘ چنانچہ سر الفریڈ دوٹوک فیصلہ سناتے ہیں ’’پٹھان قوم کے کردار پر نگاہ ڈالتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ ان پر تشدد سے حکومت کی جائے کیونکہ جنگلی گھوڑے کو ریشم کی لگام نہیں دی جاسکتی....‘‘ یوں پختونوں کی وحدت کو تقسیم اور ایف سی آر جیسے کالے قوانین بروئے کار لائے گئے....مانا یہ انگریز کی ضرورت و مجبوری تھی کیونکہ پختون حریت پسندوں نے اس نام نہاد تہذیب یافتہ قوم کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج پاکستانی حکمرانوں کو بھی خدانخواستہ ایسی ہی کسی صورت حال کا سامنا ہے کہ انہوں نے انگریز کا وہی کالا قانون ایف سی آر نافذ کر رکھا ہے؟
یہ وطن سب کا ہے، اب جب سب کہہ رہے ہیں کہ فاٹا کو پختونخوا میں شامل کیا جائے تو آخر حکومت کیوں اپنا مذاق اُڑانے پر بضد ہوچلی ہے۔ اگلے روز سابق صدر آصف زرداری کا اظہارِ حق، حُبِ وطن کی کیا قابلِ توجہ داستاں عیاں کرگیا،آپ کا کہنا تھا ’’ فاٹا کے عوام کو کالونی بنا کر انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے، آئین پاکستان ایک جانب تو فاٹا کو پاکستان کا حصہ بتاتا ہے اور دوسری جانب فاٹا کے عوام کے بنیادی حقوق سلب کرتا ہے۔ یہ صورتحال ختم ہونی چاہئے۔ تاریخی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر فاٹا کو پختونخوا میں شامل کرنا ضروری ہے۔ آئین میں قبائلی علاقوں میں ریفرنڈم کی کوئی گنجائش نہیں۔ پھر ریفرنڈم سے ڈکٹیٹرزیاد آجاتے ہیں۔
انہوں نےانضمام مخالف سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں سے اپیل کی کہ وہ اپنے موقف پر نظرثانی کریں اور تاریخ میں قبائلی عوام کو ایسے افراد (شاہ شجاع ، شاہ نواز)کی یاد نہ دلائیں جنہوں نے اپنے عوام کی آرزو کیخلاف کام کیا‘‘(اور آج اُن کا ایک نام لیو ابھی نہیں) زرداری صاحب نے گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا۔ریفرنڈم کے ذکر سے تو جیسے ضیا صاحب کی آمریت سامنے آئی تو وہاں حبیب جالب کا بہشتی پُرنورچہرہ بھی سرِبام نظرآیا۔
شہر میں ہو کا عالم تھا
جِن تھا یا ریفرنڈم تھا
قید تھے دیواروں میں لوگ
باہر شور بہت کم تھا
کچھ با ریش سے چہرے تھے
اور ایمان کا ماتم تھا
دوسری طرف آپ دیکھیں کہ کس طرح ایک جمہوری ملک میں بعض سیاستدان اور’ مَلک‘ انگریز کےاُس کالے قانون ایف سی آر کی حمایت میں تلواریں اُٹھائے ہوئے ہیں جس کی رو سے فاٹا اور شمالی علاقہ جات پر کسی بھی صوبائی و وفاقی حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کا کوئی بھی دائرہ اختیار متعین نہیں۔ فرنٹیئر کرائم ریگولیشن (FCR)پہلی مرتبہ1848ء میں برطانوی راج نے نافذ کیا تھا۔ یہ قانون خصوصاً شمالی علاقہ جات میں پختون اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے مسلط کیا گیا تھا۔ پھر 1873،1876اور1901میں اس میں مزید ترامیم ہوئیں۔ قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ1947میں حکومت پاکستان نے اس قانون کو ختم کرنے کی بجائے اس میں ایک ایسی ظالمانہ ترمیم بھی شامل کر دی جس کی رو سے فاٹا کے کسی شہری کو اس کا جرم بتائے بغیر گرفتار کیا جا سکتا تھا،یوں قبائل وکیل، دلیل اور اپیل جیسے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کردئیے گئے۔
اگست 2011تک کسی بھی سیاسی جماعت کو ان علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں تھی۔اسی سال صدر زرداری نے ایف سی آر کے ترمیمی قانون پر دستخط کر دئیے مگر ان ترامیم میںچند اصطلاحات کے ماسوا کچھ نہیں ہے۔ تاہم زرداری حکومت نے تاریخ میں پہلی مرتبہ عام قبائیلیوں کوووٹ کا جمہوری حق دیا،قبل ازیں مَلک سسٹم کے تحت انتخابات ہوتے تھے،ووٹ کا اختیار عام باشندے کی بجائے مخصوص ومتعین مَلکوں کا تھاجو اپنے میں سے مَلک کو ایوان میں بھیجتے تھے،یعنی ایک کروڑ باشندوں کا اختیار چند سو مَلکوں کے پاس تھا، چنانچہ انتخابات کے انعقاد سے قبل ان مَلکوں نے واویلا مچایاکہ بالغ رائے دہی کے تحت انتخابات سے فاٹا میں افراتفری اور کشت و خون ہو گا، مگر فاٹا میں انتخابات بندوبستی علاقوں سے بھی زیادہ پرامن طریقے سے انجام پاگئے ۔
آج جب ایک کروڑ سے زائد قبائل کے تمام منتخب نمائندے فاٹا کے پختونخوا میں شمولیت کیلئے کمر بستہ ہوچکے ہیں، تو پھر یہی چند سو مَلک غوغا گیر ہیں۔الغرض ایف سی آر نے فاٹا کے لوگوں کو پورے ملک کے سیاسی نظام سے الگ تھلگ کر کے رکھ دیا ہے۔ اس قانون کے تحت انگریزپولیٹکل ایجنٹ فاٹا کے کسی باشندے کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ اس کے بوڑھے رشتہ داروں اور بچوں سمیت اس کے اہل خانہ کو بھی پابند سلاسل کر سکتا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ مجرم کا گھر بھی مسمار کیا جا سکتا تھا۔آج بھی فاٹا میں اس پر عمل ہورہا ہے۔اس کا برہنہ ثبوت 11فروری کوباڑہ میں ہونے والا جرگہ ہے ، اخباری اطلاعات کے مطابق جس میں مَلکوں نے علاقے کے منتخب رکن قومی اسمبلی ناصر خان کو فاٹا کو پختونخوا میں شامل کرنے کی تحریک میں شامل ہونے کے’’ جرم ‘‘کی پاداش میں دس لاکھ جرمانہ کیا ، نیز جرگے نے ایف سی آرکو برقرار رکھنے اور کالا باغ ڈیم بنانے کا بھی مطالبہ کیا ۔یہ ایک جرگہ ایسے تمام جرگوں کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے جو اس مملکت میں ہورہے ہیںجس کے متعلق دعویٰ ہے کہ یہ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور جمہوریت کا مسکن اور اسلام کا قلعہ ہے۔ مزید یہ کہ اس جرگے میں کالا باغ ڈیم کی بے محل و بے موقع حمایت سے وہ لوگ بھی بے نقاب ہوگئے ہیں جو مَلکوں کے جرگوں کی آڑ میں قبائل کےپختونخوا میں انضمام کے اصل مخالف ہیں۔
اس موقع پر آپ کی توجہ اس جانب بھی چاہیں گے کہ اِس اسلامی جمہوریہ میں اختیارات کےنشے میں اگر کوئی رکن اسمبلی ٹریفک سگنل توڑتا
ہے اور کوئی بیچارا ٹریفک اہلکار حرکت میں آجاتا ہے تو اس سے اس رکن اسمبلی کا استحقاق ایسا مجروح ہوجاتاہے کہ پوری اسمبلی سراپا احتجاج بن جاتی ہے یہاں تک کہ ٹریفک اہلکار کی آئندہ نسلیں بھی قانون کی پاسداری سے توبہ تائب ہوجاتی ہیں۔اب جرگے نے جسے جرمانہ کیا ہے وہ مقننہ کا ستارہ یعنی رکن قومی اسمبلی ہے۔نہ جانے جرگے کے اس غیرجمہوری وغیر اسلامی جرمانے سے رکن قومی اسمبلی کا استحقاق مجروح ہواہے یا نہیں؟اگر ہوا ہے توپانامہ کے لشکاروں تا،ایان علی کے نظاروںپر ہر دم جواں ایوانِ زیریں کی زریں تلاطم موجیں ساکت کیوں ہیں!کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستانی نام نہاد جمہوریت سے یہ جرگہ زیادہ معتبر ہے.....!



.
تازہ ترین