• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دن بھر کی مصروفیات سے فارغ ہو کر رات گئے جب گھر پہنچا تو نیند نے فوراً اپنی آغوش میں لے لیا۔ ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ موبائل فون پر کسی کی کال آئی جس میں کالر نے بتایا کہ ’’میں اسلام آباد ماڈل کالج کی ماسٹر کی طالبہ ہوں، مجھے ملکی معیشت کے حوالے سے اسائنمنٹ ملا ہے اور اس بارے میں آپ سے کچھ سوالات پوچھنا چاہتی ہوں، میں نے یہ سوالات جنگ کی ای میل پر بھی بھیجے تھے مگر ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا، کل اسائمنٹ جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے، آپ فون پر ہی میرے سوالات کا جواب بتادیں۔‘‘ آدھی رات کو نیند کی غنودگی کے باعث کچھ دیر تک تو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کالر کو کیا جواب دوں مگر اسائنمنٹ جمع کرانے کی آخری تاریخ کی وجہ سے طالبہ کی پریشانی دیکھ کر میں نے ان سے سوالات بتانے کا کہا اور تقریباً آدھے گھنٹے میں 12سوالات کے جوابات ملنے کے بعد طالبہ کی خوشی اور اطمینان دیکھ کر احساس ہوا کہ ملکی معیشت پر لکھے گئے کالم ہماری یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات کیلئے کتنی اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ مجھے اس کا اندازہ پیر کے روز کالم کی اشاعت کے بعد دنیا بھر سے بھیجی جانے والی ای میلز اور واٹس ایپ سے بھی ہوتا ہے جس میں کالم پڑھنے والے زیادہ تر افراد اعداد و شمار کے ذرائع اور ان کی تصدیق چاہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں وزیر مملکت اور وزیراعظم کے مشیر برائے معاشی امور و ریونیو ہارون اختر نے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کی ہدایت پر چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد ارشاد اور ممبر پالیسی رحمت اللہ وزیر کے ہمراہ فیڈریشن ہائوس کراچی میں بزنس کمیونٹی کے لیڈرز سے اہم میٹنگ کی جس میں یونائیٹڈ بزنس گروپ (UBG) کے چیئرمین افتخار علی ملک، FPCCIکے صدر زبیر طفیل، نائب صدور، چیمبرز، ایسوسی ایشنز اور میڈیا کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی جبکہ فیڈریشن کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے بینکنگ اینڈ فنانس کے چیئرمین کی حیثیت سے مجھے بھی اس اہم میٹنگ میں مدعو کیا گیا تھا۔ وزیراعظم کے مشیر ہارون اختر اور ان کے بھائی ہمایوں اختر ممتاز جو بزنس مین ہیں جن سے میرے نہایت پرانے تعلقات ہیں۔ ہارون اختر جون 2015ء میں ایف بی آر میں تعیناتی کے بعد سے ایف بی آر اور بزنس کمیونٹی کے مابین فعال طریقے سے پل کا کردار ادا کر رہے ہیں جس میں انہیں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا بھرپور اعتماد حاصل ہے جبکہ کئی اہم حکومتی پالیسیوں میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور ان سے بزنس کمیونٹی کی طویل مشاورت بھی رہی ہے جس میں ٹریڈرز اور رئیل اسٹیٹ ایمنسٹی اسکیموں میں فیڈریشن اور ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (ABAD)سے طویل مشاورت بھی شامل ہے۔ اس مشاورت کا مقصد ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانا تھا مگر ہارون اختر کے بقول ٹریڈرز کی رضا کارانہ ایمنسٹی اسکیم مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی اور انتہائی کم ٹریڈرز نے اس اسکیم کے تحت انکم ٹیکس رجسٹریشن کرائی۔ وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ ٹریڈرز کے تقریباً تمام مطالبات جس میں 31جنوری 2016ء تک گزشتہ 4سالوں کی آمدنی کے ذرائع کا نہ پوچھنا اور آئندہ 3سال2016 ء سے 2018ء کیلئے انکم ٹیکس آڈٹ سے مستثنیٰ قرار دینا بھی شامل تھے، ماننے کے باوجود متوقع 10لاکھ ٹریڈرز کے مقابلے میں انتہائی کم ٹریڈرز نے انکم ٹیکس رجسٹریشن کرائی۔ مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ رئیل اسٹیٹ کیلئے اعلان کردہ ایمنسٹی اسکیم سے اب مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں اور لوگ 3فیصد اضافی ٹیکس کی ادائیگی کرکے حکومت کے اعلان کردہ ویلیو ایشن ٹیبل کے مطابق اپنی پراپرٹیز کی خرید و فروخت کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستانیوں کے غیر ظاہر شدہ بیرون ملک اثاثوں جن کی مالیت تقریباً 150ارب ڈالر ہے جس میں ایک اندازے کے مطابق 115ارب ڈالر بزنس مینوں اور 35ارب ڈالر کے اثاثے بدعنوانیوں اور کرپشن سے حاصل کئے گئے ہیں، کو ڈکلیئر کرکے قانونی شکل دینے کیلئے حکومت ایک ایمنسٹی اسکیم کیلئے بزنس کمیونٹی اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر رہی ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس نے وزیراعظم اور وزیر خزانہ سے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ملاقات میں بیرون ملک اثاثوں کیلئے ایمنسٹی اسکیم کی بھرپور حمایت کی تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بزنس کمیونٹی اپنے اثاثے قانونی بنانا چاہتی ہے۔ قیام پاکستان کے 70سالوں کے دوران مختلف حکومتوں کی غیر تسلسل پالیسیوں سے بزنس مینوں کا اعتماد مجروح ہوا ہے۔ ذوالفقار بھٹو کے دور حکومت میں نجی اداروں کو نجکاری کے ذریعے سرکاری تحویل میں لینا، نواز شریف دور حکومت میں فارن کرنسی اکائونٹس منجمد کرنا، کراچی میں امن و امان کی ناقص ترین صورتحال اور انرجی بحران کے باعث جان و مال اور سرمائے کے تحفظ کیلئے صنعتکاروں و سرمایہ کاروں کا اپنی صنعتیں اور سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنا وہ حقیقی عوامل تھے جو بیرون ملک پاکستانی سرمایہ کاری کی منتقلی کا سبب بنے۔ حکومت کو چاہئے کہ ملک میں سرمایہ کاری کی فضا بہتر بناکر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرے تاکہ وہ بیرون ملک کمائی گئی اپنی دولت دوبارہ وطن واپس لاسکیں۔
پاناما لیکس، آف شور کمپنیوں کی تحقیقات اور منی لانڈرنگ کے نئے سخت قوانین کے باعث اب ان اثاثوں کو بیرون ملک رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے ان اثاثوں کے مالکان انہیں کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے بھارت نے حال ہی میں بیرونی اثاثوں اور انکم کیلئے ایک ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا ہے جس کے تحت بھارت میں بیرون ملک رکھے گئے ان اثاثوں کو اضافی ٹیکس ادا کرکے قانونی بنایا جاسکتا ہے۔ بھارت میں بڑے نوٹوں کی منسوخی اور غیر قانونی دولت پر کریک ڈائون کی وجہ سے بے شمار بھارتیوں نے نئی ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھایا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر ہارون اختر نے بتایا کہ پاکستان سمیت 104ممالک کے OECDمعاہدے کے تحت 2018ء سے رکن ممالک ٹیکس چوری کی روک تھام کے سلسلے میں بینکنگ معلومات شیئر کرنے کے پابند ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت پاکستان نے متحدہ عرب امارات سے 1995ء میں جو ڈبل ٹیکسیشن ٹریٹی کی تھی، اس کے تحت پاکستانیوں کی دبئی میں اربوں روپے کی پراپرٹیوں کی تفصیلات مانگی ہیں اور امید ہے کہ اگست 2016ء کے OECDمعاہدے کے تحت حکومت پاکستان کو پاکستانیوں کے اثاثوں کی معلومات حاصل ہو جائیں گی۔ وزیراعظم کے مشیر ہارون اختر نے بتایا کہ قومی اسمبلی میں بے نامی ٹرانزیکشن کو روکنے کیلئے قانون پاس ہوگیا ہے جس کے تحت وکالت نامے کے ذریعے پراپرٹی کو بے نامی رکھنا اب مشکل ہوجائے گا۔ ان تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے مدنظر گزشتہ دنوں فیڈریشن میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار اور وزیراعظم کے مشیر ہارون اختر سے حالیہ ملاقات میں فیڈریشن کے صدر زبیر طفیل نے ملک و بیرون ملک غیر ظاہر شدہ اثاثے ظاہر کرنے کیلئے 5فیصد اضافی ٹیکس ادا کرکے اثاثوں کو قانونی بنانے کی بھرپور حمایت کی ہے جبکہ بزنس مینوں کی درخواست ہے کہ اضافی ٹیکس کی شرح 2سے 3فیصد رکھی جائے۔ میرے خیال میں نئی ایمنسٹی اسکیم کے تحت پہلے مرحلے میں ان اثاثوں کی پاکستان منتقلی کے بجائے انہیں انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کرنا حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ دنیا میں منی لانڈرنگ کے سخت عالمی قوانین کے پیش نظر میری پاکستانی بھائیوں کو تجویز ہے کہ وہ ملکی اور غیر ملکی غیر ظاہر شدہ اثاثوں کو نئی ایمنسٹی اسکیم کے تحت قانونی بنانے کے موقع کو ضائع نہ کریں۔ موجودہ عالمی حالات میں ان کے اثاثے اور سرمایہ کاری پاکستان میں زیادہ محفوظ اور منافع بخش ثابت ہوگی۔



.
تازہ ترین