• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے استحکام اور معاشی ترقی کے خلاف اسرائیل اور بھارت کی مشترکہ سازش کی حکمت عملی کے تحت پچھلے ہفتے چاروں صوبوں میں دہشت گردی کے افسوسناک واقعات ہوئے جس سے ریاست کے تمام اداروں اور قومی سطح پر ہر ایک کے لئے پریشانی اور فکر بڑھ گئی کہ آخر پاکستان نےچین کے ساتھCPECکا معاہدہ کیا کیا کہ امریکہ، بھارت، اسرائیل اور اب افغانستان سب ایک ہی حکمت عملی کے تحت پاکستان کی سلامتی کے خلاف ڈٹ گئے ہیں۔ دوسری طرف خاموش مگر موثر انداز میں جاپان اور کئی یورپی ممالک کے سفارتکار بھی پاک چین اقتصادی تعاون کے نئے اقدامات سے مطمئن نظر نہیں آرہے جس میں سب سے زیادہ پیش پیش بھارت ہے۔ یہ صورتحال سیاسی حکومت اور فوجی قیادت کے لئے ایک مشکل ترین چیلنج سے کم نہیں ہے جس سے نپٹنے کی ذمہ داری بظاہر دونوں کی برابر کی ہے مگر سیاسی لیڈر شپ کی ذمہ داری اس لحاظ سے زیادہ ہے کہ ملک کو چلانے کے لئے جمہوری حکومت کا رول کلیدی ہوتا ہے۔ اس وقت بظاہر تو ایسے لگ رہا ہے کہ سیاسی حکومت اور فوجی قیادت ایک ہی سمت میں اس دوبارہ ابھرتے ہوئے دہشت گردی کے ناسور سے نپٹنے کے لئے سوچ رہے ہیں لیکن اگر یہ سلسلہ عملی اقدامات سے نہ روکا گیا تو پھر سیاسی حکومت کے لئے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ا فغانستان کے ساتھ تعلقات میں عدم اعتماد دور کرنے کے لئے سیاسی حکومت اور خاص کر وزیر اعظم کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت سے تعلقات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ اس لئے کہ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھارت، افغانستان گٹھ جو ڑکو توڑنا از حد ضروری ہے، ورنہ ہماری کمزور خارجہ پالیسی کی وجہ سے آنے والے سالوں میں بھارت کی چالبازیوں سے جنوبی ایشیاکے تمام ممالک سری لنکا، نیپال، مالدیپ سے بھی وہ صورتحال پیدا ہوجائے گی جو اس وقت افغانستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی ہے۔ پاکستان میں خدانخواستہ دہشت گردی کی صورتحال پر اگر مکمل قابو نہ پایا گیا تو پھر اس سے حکومت کی اقتصادی اصلاحات سب سے زیادہ متاثر ہوں گی جس کے پروپیگنڈا پر مختلف بین الاقوامی اداروں کے توسط سے کروڑوں روپے کے فنڈز خرچ کرکے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ماشاءاللہ پاکستان عالمی سطح پر ابھرتی ہوئی معیشت والے ممالک کی صف میں شامل ہوچکا ہے۔ اب یہاں کوئی غریب نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ اپنےحالات کی وجہ سے مررہے ہیں۔ اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ حکومت ان اقتصادی اصلاحات پر فخر کرے جس سے پاکستان کے عوام کی اکثریت کو فائدہ پہنچ رہا ہے جبکہ اب تک تو اقلیت ہی کو سب فوائد ملتے نظر آرہے ہیںجن کا نہ تو کوئی ووٹ بینک ہوتا ہے اور نہ ہی پاکستان میں رہنے میں انہیں کوئی ز یادہ دلچسپی ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ چین کے ساتھ معاشی تعلقات میں توازن قائم کرنے کے لئے بزنس مینوں (خاص کر کراچی، پشاوراور کوئٹہ) کی تشویش دور کرنے کے لئے اقدامات کرناہوں گے۔ تجارتی حلقوں کا کہنا ہے کہCPECمیں چین کے سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو جو مراعات دی جاری ہیں، پاکستان کے بزنس مین ان سے محروم ہیں، اس سلسلے میں رعاتیں اور ترغیبات دینے میں توازن قائم کرنا ضروری ہے۔ انہی چیزوں سے بھارت اور پاکستان دشمن دوسرے عناصر فائدہ اٹھارہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ چین پاکستان کے معاشی شعبے پر اپنی اجارہ داری قائم کرکے خطہ میں معاشی طاقت کا توازن خراب کررہا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے حکمرانوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ صرف چین اور ترکی ان کے پیارے نہیں ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک اور جاپان وغیرہ کی سرمایہ کاروں کی شرح ہر لحاظ سے پاکستان میں زیادہ ہے اس لئے متوازن معاشی حکمت عملی بنانے پر غور کرکے معاملات کو صحیح سمت ہی چلایا جانا چاہئے۔



.
تازہ ترین