• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تازہ بہ تازہ چارسدہ ، تنگی کچہری خود کش حملے کی زد میں۔ دہشت گردی کی حالیہ وارداتیںنیا ابال ضرور، الحمدللہ ہمارے عسکری ادارے کچلنے کی اہلیت سے پوری طرح مالامال ہیں۔ کمی، سیاسی عزم و استعداد کی ہے۔ ایسی وارداتیں امریکہ، یورپ یا بھارت میں ہوتیں، تو شک کا فائدہ اٹھاتے، قیامت ڈھا جاتے۔ ہمارا مقدمہ کون لڑے گا؟ وطن عزیز، سیکورٹی خطرات میں گھرا، خطرات دائمی۔ دہشت گردی کی موجودہ لہر، قوم تو سہہ گئی، قومی قیادت حواس باختہ کیوں؟ باعث تکلیف و ندامت ہی۔ خواجہ آصف کا بین الاقوامی سیکورٹی کانفرنس میں حافظ سعید بارے بیان،‘‘ حافظ سعید ہمارے اپنے لیے خطرے کا باعث ہیں۔ شیڈول چار میں ڈال رکھا ہے‘‘، حواس ِخمسہ کا فقدان ہی، ایسے اقبالی بیان کا موجب ہے۔ خواجہ صاحب، اس ’’ہم‘‘ میں ن لیگ کے علاوہ اور کون، شامل ہیں؟ اعلامیہ! میرے سمیت، معاشرے کی کثیر تعداد’’ہم‘‘ سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ خواجہ آصف کے اقبالی بیان کو ہم مسترد کرتے ہیں۔ قومی قیادت ٹھہری چوری کھانے والی مجنوں، حافظ سعید کے وطنی جنون کا تعین، نظریاتی ادراک کا احاطہ، قومی قیادت کی بساط سے باہر ہے۔ خواجہ آصف کی عامیانہ، غیر متاثر کن تقریر نے تاثر بٹھایا بھی تو بھارتی میڈیا پر۔ اقبالی بیان پر بھارتی میڈیا نے خوب شادیانے ڈنکے بجا رکھے ہیں۔ کیا خواجہ آصف نے حافظ سعید بارے اپنی اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے دیکھ، پڑھ رکھے ہیں؟ حافظ سعید، ہماری قومی قیادت سے زیادہ پاکستانی آئین و قانون کا پاسدار اور وفادار ہے۔ عدالتوں نے ہی تو بے گناہی کی توثیق کی ہے۔ وطن عزیز کے طول وعرض میں حافظ سعید پر لاقانونیت، کرپشن، بدعنوانی، مفاد پرستی، دہشت گردی جیسا کوئی ایک الزام بھی نہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اور لاہور ہائی کورٹ نے بھارتی الزامات کو بے سروپا قرار دیا، مسترد کیا۔
امریکہ کی دلجوئی کا ساماں رکھنا، زیر بار رہنا، حافظ سعید کو نظر بند رکھنا، سمجھ میں آتا ہے۔ نیا شوشا بھارتی اطمینان کے لیے، سمجھ سے بالاتر۔ سچ کہ ماسوائے عسکری قیادت، شاید ہی کوئی جو وطنی ارضی اور جغرافیائی سیاست پر دسترس اور ادراک رکھتا ہو۔ باوجودیکہ، پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کا اندھا معتقد ہوں۔ وطن کے دفاعی اور خارجی معاملات کے انتظام ترتیب میں عسکری اداروں کے رول کو حتمی سمجھتا ہوں۔ کیا زرداری، نواز، عمران، اسفندیار، فضل الرحمان، الطاف حسین، اچکزئی وغیرہ پر دفاعی اور خارجہ معاملات چھوڑے جا سکتے ہیں؟ تالیف قلب اور ذہنی سکون رہے گا؟ ہرگز نہیں۔ جمعیت سیاستدان کے ماضی میں دیئے ملک اندر، باہر بیانات، انٹرویو، خیالات پر نظر ڈالیں۔ دو باتیں مسلم اور عیاں، قومی قیادت نالائقی بدنیتی، جہالت اور کنفیوژن سے بھری ہے۔ چند طالع آزما جرنیلوں کی غیر ضروری دخل اندازی نے ملکی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان ضرور پہنچایا۔ مت بھولیں کہ موجودہ پاکستان کا وجود، مضبوط افواج کی موجودگی کا مرہون منت ہے۔ فوج کے بروقت فیصلے، حساس اور دفاعی معاملات میں دخل درمعقولات ہی نے تو ایک وقت روس اور بعد ازاں امریکہ کا ترنوالہ بننے سے بچایا۔
1947 سے آج تک، وطن عزیزکے ساتھ کیا سے کیا نہیں بیتی؟ 1947 سے بھارت نے افغانی حکمران اور مشرقی پاکستان کے ہندئووں کو زیر اثر رکھ کر پاکستان کے خلاف سازشوں کا بازارگرم رکھا۔ آزاد پختونستان اور بنگالی زبان و بنگلہ اقدار کا ڈھنڈورا پیٹا۔ روزِ اول سے سازشوں کا جال بُنا، بچھایا، پھیلایا۔ بالآخر وطن عزیز کو دو لخت ہوتے دیکھا جبکہ آزاد پختونستان اور بلوچستان کو علیحدہ کرنے کی لامتناہی کوششیں آج بھی جاری ہیں۔ آزاد پختونستان کے حوالے سے کیمونسٹ پختون دانشور جمعہ خان کی خود نوشت ’’فریب ناتمام‘‘ پڑھ لیں، رونگٹے کھڑے ہونگے۔ غیرت اور شرم سے عاری اشرافیہ اور سیاستدان، بھارت سے تجارتی پینگیں People to People رابطوں کو پروان چڑھانے میں مگن، بھارتی فلمیں چلانے میں پھرتیاں، حمیت اور غیرت سے محروم ہو چکے ہیں۔ہمارے حکمران، لبرلزم میں عافیت، آسودگی ڈھونڈ چکے ہیں۔ لبرلزم کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہر دائو پیچ آزما رہے ہیں۔ کئی بار بھارت نوازی کا عندیہ دے چکے ہیں۔ عمران خان کی بھارت کے لیے تڑپ، مودی سے ملاقات کے لیے دلجمعی اور ذوق شوق، اپنی مثال ہی۔ کرن تھاپرے کو دیئے گئے انٹرویوز دیکھیں، حافظ سعید کے خلاف ایکشن لینے کا وعدہ دے چکے ہیں۔ مزید بہت کچھ فرما چکے ہیں۔ باقی سب بھی فضل الرحمان، اچکزئی، اسفند یار، زرداری قبیلہ ایک سے بڑھ کر، کچھ فرق نہیں ان ساروں میں، سب کے حصے میں بہت کچھ۔ ہمارے سیاستدان، بھارت کواپنی کمزوری کیوں بنا چکے؟ کہنا پڑے گا کہ جماعت اسلامی واحد جماعت نہ صرف نظریاتی، شعور، ادراک اور آئیڈیلزم سے مالامال، ممیز نظر آتی ہے۔ افسوس اتنا کہ موثر سیاسی قوت نہیں رہی۔ ایسے کوتاہ نظر سیاستدانوں کی موجودگی کے باوجود 2018 میں اقتدار کی پُر امن سیاسی منتقلی کو پاکستان کے استحکام کی ضمانت اور اپنا ایمانی جزو سمجھتا ہوں۔ یقین، اگر سیاسی نظام سیاستدانوں کے پاس جبکہ سیکورٹی، دفاعی نظام عسکری قیادت کے زیر نگرانی، امریکہ کا اثر و رسوخ محدود رکھنا گمبھیر معامالات نبٹانا ہمیشہ آسان رہتا ہے۔ اگر افغانیوں پر کئی دفعہ کوہ غم ٹوٹا، تو پاکستان بے قصور،ان کی تکلیف میں برابر کے شریک ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کا جغرافیہ، باہمی منسلک و پیوست بین الاقوامی طاقتور ہاتھی چنگھاڑتے جب بھی ایک دوسرے کی طرف لپکتے ہیں، پاک افغان سرزمین، مقام جنگ بن جاتی ہے۔
80کی دہائی میں روس کو ہم نے دعوت نامہ جاری کیا نہ ہی موجودہ صدی کے آغاز میں امریکہ کو مدعو کیا۔ اگرچہ ہر دو موقعوں پر پاکستان ہی نشانہ رہا؟ دونوں موقعوں پر عسکری قیادت نے بے مثال کردار ادا کیا۔ ایسے نامساعد حالات میں، پاکستان کی حفاظت و دفاع جوئے شیر لانے سے کچھ کم نہ تھا۔ ہر دو موقعوں پر وطن عزیز بال بال بچا، سارا کریڈٹ عسکری قیادت کو۔ ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس(IB) آفتاب سلطان نے چند ماہ پہلے سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کو بیان دیا تو لفظ نہیں چبائے۔ کہ’’پاکستان کے خلاف اپنی کارروائیوں کیلئے بھارت افغانستان کو بطور اڈا استعمال کر رہا ہے‘‘۔
کل بھوشن یادیو ہمارے قبضے میں، سابق بھارتی آرمی چیف جنرل بکرام سنگھ اور اجیت دوول کی تحریریں، تقریریں سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکیں، خواجہ آصف نے اپنی تقریر کا حصہ کیوں نہیں بنایا؟ افغانستان میں کٹھ پتلی حکومت، امریکہ کی مرہون منت، امریکی اور بھارتی اشاروں پر ہی ناچنے کی پابند ہے۔ جبکہ آئے دن امریکہ افغانستان میں نئی سے نئی مصیبت سے دوچار ہے۔ روس خم ٹھونک کر ، طالبان کے سرپر ہاتھ رکھ چکا ہے۔ امریکی جنرل جان نکلسن نے اپنی قیادت کو فکر و فاقہ کی یہی کیفیت بیان کی۔ چین اور روس کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اثر و رسوخ، امریکی تزویراتی پلان درہم برہم ہو چکا ہے۔ امریکی تدبیریں الٹی پڑ رہی ہیں۔ دورائے نہیں کہ خطے میں امریکی اثرورسوخ چراغ سحری ہی۔ چین، روس، پاکستان، ایران، ترکی درمیان باہمی اعتماد، مفاہمت، ادراک غیر رسمی طورپر بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ بہت کچھ طے کر چکے ہیں۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان پچھلے25 سال سے طے شدہ کئی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ دفاعی، تجارتی، مواصلاتی معاہدے ہیچ نظر آ رہے ہیں۔
بھارت کے اندر بھی عام تاثر کہ’’بھارت تنہائی کا شکار ہے‘‘۔ پچھلے سال جب بھارت دو دفعہ فرد واحد مسعود اظہر کو دہشت گرد کا درجہ دینے، سیکورٹی کونسل پہنچا۔ چین نے دونوں موقعوں پر ویٹو کیا جبکہ روس نے ووٹ کے استعمال سے احتراز کیا۔ بھارت تب سے دونوں ملکوں پر سیخ پا ہے۔ غلط فہمی نہیں، آج کی دہشت گردی کی ساری وارداتیں پاک چین اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہیں۔ چین کو معلوم، آسمان کو چھونے کی پرواز کا ٹیک آف پاکستان ہی تو ہے۔ روس چین ملاپ سیسہ پلائی دیوار بننے کو، ناقابل تسخیر ہونے کے قریب تر ہیں۔ امریکہ بذریعہ صدر ٹرمپ، روس چین درمیان دراڑیں ڈالنے کا عزم کر چکا ہے۔ ٹرمپ کارڈ، روس کو تجارت اور مادی لالچ دے گا۔ توقع رکھے گا کہ روس علیحدہ ہو، تاکہ چین کو تنہا کیا جا سکے۔ امریکہ سب کچھ، بہت کچھ کرنے کو تیار، ون بیلٹ ون روڈ) (OBOR کی تکمیل وتشکیل سے پہلے۔ پاکستان کی ترقی وکامیابی ناگریز کہ مضبوط اور خوشحال پاکستان چین کی طاقت کی ضمانت بن چکا۔ خواجہ آصف نے جو کچھ فرمایا، وہی کچھ ڈان لیکس کے اسکینڈل میں من وعن موجود تھا۔ سمجھ لیا جائے کہ سب کچھ بدنیتی یا سیاسی قیادت کی بساط واستطاعت سے محرومی کا نتیجہ تھا۔ دفاع اور خارجہ امور، وطنی سیکورٹی سے منسلک ہیں، ایسے اختیارات عسکری قیادت کو اپنے پاس رکھنے ہوں گے۔ دنیا کروٹ لے چکی، پاکستان بدلنے کو۔ احتیاط لازم، وطن عزیز فقط بہترین فیصلوں اور بساط کا متمنی۔



.
تازہ ترین