• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے بھی ایک دفعہ عرض کیا تھا، پھر دہرا رہا ہوں۔ پچھلے ہفتے جو دھماکے ملک بھر میں ہوئے اور جو آئندہ بھی ہو سکتے ہیں، کو دہشت گردی کی بجائے سبوتاژ کی کارروائیاں کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ چیزوں کو سمجھنے کیلئے الفاظ اور اصطلاحات کا استعمال بہت اہم ہوتا ہے لیکن ہم اس باب کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ چند روز پہلے عمر چیمہ اور پھر حامد میر نے ٹویٹر پر انگریزی جریدے اکانومسٹ کا ایک آرٹیکل شیئر کیا۔ عمر چیمہ نے کوئی رائے نہیں دی لیکن حامد میر نے اس سے جو نتیجہ اخذ کیا تھوڑا مختلف تھا۔ لیکن مجھے یہ سمجھ آئی کہ اس آرٹیکل میں اس بات پر بحث کی گئی تھی کہ ٹرمپ کے حقیقت سے برعکس دعووں کیلئے میڈیا میں ’جھوٹ‘ اور ’غلط بیانی‘ کی جو اصطلاحات استعمال ہو رہی ہیں، کیا وہ درست ہیں؟ کیا ٹرمپ کے دعوے اس کی ’فضول گوئی‘ اور ’نرگسیت‘ کی عادات کا شاخسانہ ہیں یا وہ واقعتاً ’جھوٹ‘ اور ’غلط بیانی‘ کے زمرے میں آتے ہیں؟ آرٹیکل کے آخر میں ٹرمپ کے دعوئوں کے بارے میں کئی ایک امکانی سوال اٹھائے گئے ہیں مثلا کچھ واضح مثالوں کے حوالے سے ٹرمپ کو ’جھوٹا‘ کہا جا سکتا ہے لیکن کچھ غیر واضح دعوئوں کے بارے میں کیا میڈیا کو ٹرمپ کیلئے ’جھوٹے‘ کی بجائے ’مغالطوں کا شکار‘ (deluded) کی اصطلاح نہیں استعمال کرنی چاہئے؟ اور کیا دعویٰ کرنے سے پہلے حقائق کی پروا نہ کرنے یا ان کی تصدیق کا تکلف نہ کرنے کی ٹرمپ کی عادت کیلئے میڈیا کو نئی اصطلاح تلاش نہیں کرنی چاہئے؟
حالات و واقعات کو درست پیرائے میں سمجھنے، سمجھانے اور بیان کرنے کیلئے موزوں اصطلاحات کا استعمال سنجیدہ میڈیا کیلئے از حد ضروری ہے۔ میری رائے میں دھماکوں اور حملوں کی حالیہ لہر کو بیان کرنے کیلئے درست اصطلاح تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ بدلے ہوئے حقائق کے مطابق ان دھماکوں کیلئے ’دہشت گردی‘ کی اصطلاح اب موزوں نہیں رہی۔ مجھ جیسا طالبعلم یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ مجھے موزوں اصطلاحات کے استعمال پر دسترس حاصل ہے لیکن اپنے تئیں ایک کوشش ضرور کر رہا ہوں کہ موجودہ لہر کیلئے دہشتگردی کی بجائے ’سبوتاژ‘ کی اصطلاح زیادہ موزوں ہے۔
دہشت گردی کی تعریف پر مکمل اتفاق نہیں پایا جاتا لیکن اس اصطلاح کا موجودہ استعمال امریکہ پر11 ستمبر کے حملوں کے بعد امریکی بیانیہ کا حصہ بنا اور میڈیا میں بہت زیادہ استعمال ہونے لگا۔ حالیہ استعمال کے مطابق کسی کارروائی کو ’دہشت گردانہ‘ قرار دینے کیلئے کئی ایک اجزا کا حامل ہونا چاہئے۔ مثلا کارروائی کسی غیر ریاستی تنظیم نے کی ہو، اس کارروائی کیلئے اسے کسی ریاست کی واضح سپورٹ حاصل نہ ہو، کارروائی کسی سیاسی، مذہبی یا نظریاتی مقصد کے حصول کیلئے کی گئی ہو، کارروائی کے ٹارگٹ کے انتخاب کیلئے عام نہتے شہریوں کو بخشنے کی کوئی کوشش نہ ہو، کارروائی کا مقصد عمومی طور پر دہشت اور خوف پھیلانا ہو۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا، پاکستان میں بم دھماکوں کی خبریں سنتے آئے ہیں لیکن ان کے لئے دہشت گردی کی اصطلاح استعمال نہیں ہوتی تھی۔ یہ اصطلاح ہمارے ہاں بھی امریکہ پر11 ستمبر کے حملوں کے بعد ہونے والی کارروائیوں کیلئے استعمال ہونا شروع ہوئی۔ پاکستان میں مذہبی جنگجوئوں کی کھیپ ضیاء دور میں تیار کی گئی تھی۔ زیادہ تر اس کھیپ کا تعلق برصغیر کے ایک مخصوص مکتب فکر سے تھا۔ اس مکتبہ فکر کے بنیادی سیاسی تصورات یہ ہیں کہ ریاست کو مذہبی ہونا چاہئے، اسے اپنے مذہب کے فروغ کیلئے تمام وسائل استعمال کرنے چاہئیں، دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے اپنے شہریوں کو برابر کے شہری والے حقوق کے بجائے صرف محدود حقوق دینے چاہئیں اور یہ کام بہتر طریقے سے انجام دینے کیلئے ریاست کا کنٹرول مذہبی لوگوں کے ہاتھ میں ہونا چاہئے۔ یہ مکتب فکر اپنا تاریخ تسلسل مغل بادشاہ اکبر کے ’صلح کُل‘ کے سیاسی ڈاکٹرائن کیخلاف مزاحمت سے جوڑتا ہے۔ ضیاء دور میں جب ریاست نے خود اس مکتبہ فکر کے ہزاروں جنگجوئوں کو فوجی تربیت دے کر اس کے ہاتھ میں اسلحہ پکڑا دیا تو اس کے اندر ایک تحریک پیدا ہوئی کہ مغل بادشاہ اکبر کے زمانے سے مذہبی رہنمائوں کے زیر انتظام ریاست کا جو خواب تشنہ تکمیل تھا، اسے پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔11ستمبر کے بعد جب ریاست پاکستان نے افغان طالبان کے خلاف امریکی جنگ کے وقت یو ٹرن لیا تو اس تحریک کو جواز مل گیا اور اس کے زیر اثر انتہاپسند تنظیموں نے ریاست پاکستان کے خلاف خانہ جنگی شروع کر دی۔ پہلے مرحلے میں دہشت گردانہ کارروائیوں سے ریاست کو کمزور کیا جانا تھا اور پھر پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے جنگجوئوں اورشہر شہر چھپائے ہوئے اسلحے کے زور پر مختلف علاقوں میں باقاعدہ اپنی حکومت قائم کرنا تھا۔ سو پورے ملک میں دہشت گردانہ کارروائیاں شروع کی گئیں اور قبائلی علاقوں سے متوازی حکومت کے قیام کا آغاز کیا گیا، وہاں سے جب اسے سوات اور اسلام آباد سے ملحقہ علاقوں تک پھیلایا گیا تو ریاست پاکستان نے ان کا صفایا کرنا شروع کیا۔ پہلے سوات کلیئر کرایا گیا، پھردیگر قبائلی علاقے، پھر جنوبی وزیرستان اور بالآخر ریاست پاکستان نے شمالی وزیرستان کو بھی کلیئر کرا لیا، نتیجتاً پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا، دہشت گردی کیخلاف جنگ ہم جیت گئے اور اس کا کریڈٹ تمام پاکستانیوں خصوصاً سیکورٹی اداروں اور افواجِ پاکستان کو جاتا ہے۔
تو پھر دھماکوں کی موجودہ لہر کیا ہے؟ میری ادنیٰ رائے میں یہ ’دہشت گردی‘ نہیں ہے بلکہ ’سبوتاژ‘ ہے جو بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ 11ستمبر 2001سے قبل ہی پاکستان میں بس اڈوں، بازاروں، ریلوے اسٹیشنز پر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بم رکھوا کر کرا رہی تھی۔ اُس وقت کی اور موجودہ سبوتاژ کی جنگ میں فرق یہ ہے کہ اب ’را‘ کو امریکہ اور افغانستان کی حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے اور مزید بدقسمتی یہ کہ پرانے زمانے کے ایجنٹوں پر انحصار کی بجائے ’را‘ کو اب پاکستان سے مفرور ہونے والے نظریاتی، تربیت یافتہ اور مسلح مذہبی جنگجوئوں کی قیادت اور بڑی کھیپ بھی دستیاب ہو گئی ہے۔ ’دہشت گردی‘ کی جنگ نہ صرف home grownتھی بلکہ اس کے پیچھے صرف اندرونی غیر ریاستی عناصر کارفرما تھے۔ اس تحریک سے جدید اور جمہوری ریاست کا وجود خطرے میں پڑ چکا تھا لیکن اس کی شکست کے بعد اب ’سبوتاژ‘ کی جو لہر ہے اس کے پیچھے دشمن ممالک ہیں اور اس کا مقصد قوم کا مورال کمزور کرنا اور ریاست پاکستان کو اندرونی محاذ پر مصروف کرکے افغانستان اور کشمیر میں خارجہ پالیسی کے مقاصد کا حصول اور امن عامہ کا مسئلہ کھڑا کرکے سی پیک اور معاشی بحالی کو ناکام بنانے کا ایجنڈا ہے۔ قصہ مختصر، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم جیت چکے ہیں جس کا جشن منانا چاہئے، لیکن ’سبوتاژ‘ کی شکل میں ایک نئی جنگ ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ اگر ہم درست اصطلاحات کا استعمال کرنا شروع کر دیں تو مایوسی اور حوصلہ شکنی کی بجائے ہم تازہ دم ہو کر نئی جنگ لڑ سکتے ہیں۔ اگر ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی کامیابیوں پر ناز کر سکیں تو ’سبوتاژ‘ کیخلاف یہ نئی جنگ بھی ہم آسانی سے جیت سکتے ہیں۔



.
تازہ ترین