ہم بھی کیا عجیب لوگ ہیں جو وقت پڑے تو اپنے بچے ہی کھاجائیں ، جو اپنے پاؤبھر گوشت کیلئے اگلے کا پورا بکرا ذبح کر ڈالیں ، جو اچھے وقتوں میں جسے سر آنکھوں پربٹھائیں ،برے وقتوں میںاسی کے نیچے سے زمین کھینچ لیں ،جو ربیع الاول اور شبِ معراج مناکر نیو ائیر اور ویلنٹائن ڈے پر بھی لڈیاں ڈالیں،جو جس تھالی میںکھائیں اُسی میں چھید کریں اورجن کے کھانے پینے،سوچنے دیکھنے ،مذہب، عبادت ،سیاست صحافت ،دعا ،وفا اور اداہر شے میں ایسی دونمبری کہ بظاہر لگے کہ ہمارا سب کچھ ہی دو نمبر مگر اصل بات یہ کہ ہم تو دو نمبر بھی اصلی نہیں ۔لیکن ہم کلمہ گو آج سے ایسے نہیں ،ہم تو شروع سے ہی ایسے کہ اِدھر نبی ؐ نے دنیا سے رحلت فرمائی اور اُدھر کلمہ گوؤں نے پہلے عمرؓ ،عثمان ؓ اور علی ؓ کو شہید کیا پھر نبیؐ کے جانے کے صرف 42سال بعد انکے نواسے امام حسنؓ کو زہر دلوادیا گیااور10سال بعد امام حسین ؓ کو اہل وعیال کے ہمراہ کربلا میں شہید کر ڈالا ، یہی نہیں پھر مسلمان سالہا سال بنوامیہ اور بنو عباس کے دھڑوں میں بٹ کر آپس میں ایسے لڑے کہ جیسے کل تک ایران اور عراق لڑ رہے تھےیا جیسے آج شام اور یمن میں لڑ رہے ہیںاور اگر درمیان میںخلیفہ صالح حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ آئے تو دو ڈھائی سال بعد ہی انہیں بھی ایک ہزار اشرفیوں کے لالچ میں اس نوکر سے زہردلوادیا جو روزانہ انکے ساتھ تہجد پڑھا کرتا تھا ۔ آگے سنئےامام ابو حنیفہ ؒ کو خلیفہ منصور انکے معتقدین کے سامنے کوڑے مرواتا مگر کوئی ایک شخص بھی آگے نہ بڑھتا لیکن جب کوڑوں کے زخموں اور زہر خورانی سے یہ وفات پا گئے تو نہ صرف نمازِ جنازہ پڑھنے خلیفہ منصور بھی آگیا بلکہ ٹڈیوں کی طرح امام ؒ کے ٹڈی دل عقیدت مند یوں نکلے کہ 20دن تک جنازہ پڑھایا جاتا رہا ، پھر وہ امام مالک ؒ جن کےسامنے صرف حدیث وفقہ کے 160علماء ہاتھ باندھے کھڑے رہتے اُسی امام مالک کو جبری بیعت اور زبردستی طلاق کیخلاف فتوی دینے پر مدینہ کے گورنر جعفر نے کوڑے مروا مروا کر لہو لہان کر دیا مگر اس کڑے وقت میں علماء سمیت انکے سب چاہنے والے دائیں بائیں ہو گئے اور پھر امام شافعی ؒ نے جب فتیان بن ابی السمح کو مناظرے میں شکست دی تو پورا شہر انکے ہاتھ چوم رہا تھا لیکن چند روز بعد جب شکست خوردہ فتیان اور کوتوال شہر کی سا ز بازسے ہوئے قاتلانہ حملے میں امام ؒ شدیدزخمی ہوئے تو کسی نے مڑ کر انکی خبر تک نہ لی اور اسی طرح امام احمد بن حنبل ؒ سے ناراض خلیفہ معتصم ہاتھ پاؤں بندھوا کر جب انکو سرِ عام کوڑے مرواتاتو عوام کے ساتھ امام ؒ کے سینکڑوں شاگرد بھی یہ تماشا دیکھتے مگر صرف تماشا ہی دیکھتے ۔
حجاج بن یوسف کے بھتیجے عماد الدین المعروف محمد بن قاسم کی فتوحات کی کہانیاں توہر کوئی سنائے مگر کوئی یہ نہ بتائے کہ یہی محمد بن قاسم خلیفہ سلیمان بن عبدالمالک کے حکم پر دمشق کے واسط نامی قید خانے میں 7ماہ تک سسک سسک کر مرا اور کسی نے حال تک نہ پوچھا ، سلطان محمود غزنوی کے 17حملوں کی داستانیں تو سب سنائیں مگر کوئی یہ نہ بتائے کہ یہی محمود غزنوی جب تپ دق میں مبتلا ہو کر غزنی میں بستر پر پڑا اکیلا کراہ رہاتھا تب اسکے تمام کمانڈر اور سارے جانثار نئے سلطان کے گھر دعوتیں اڑا رہے تھے ،ٹیپو سلطان کی بہادری کی تعریفیں اور میر جعفر اورمیر صادق کی غداری پر لعن طعن تو سب کی زبان پر مگر کاش کوئی یہ بھی بتاتا کہ زمانے نے جب آنکھیں پھیریں تو ٹیپو سلطان کے عزیزواقارب میر جعفر اور میر صادق کے ٹکڑوںکے ہی محتاج ہوگئے اور بہادر شاہ ظفر جب تک اقتدار میں تھے تب تک ظّلِ الہٰی تھے مگر جب 72ہزار پونڈ سے قائم ہوئی 125شیئر ہولڈز کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ظّلِ الٰہی کے بچوں کے سر قلم کئے تو کسی نے اُف تک نہ کی اور پھر جب 82سالہ ظّلِ الٰہی کو رنگون بھجوادیا گیا تو اس 4سالہ قید کے دوران ظّلِ الٰہی روزانہ نام لے لیکر اپنے چاہنے والوں کاپوچھا کرتے اور پھر ہر بے وفائی پر آہ بھر کر کہتے ’’ہائے زمانے کو کیا ہوگیا ‘‘ ۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب پرانی باتیں ہیں تو پھر حاضر ہیں چند تازہ مثالیں ! وہ محمد علی جناح جس نے ملک بنایا اور جو ہم سب کیلئے قائداعظم ؒ تھا وہی قائد اعظم اپنے ہی بنائے ہوئے ملک میں خراب ایمبولینس میں بے یارومددگار چل بسا ، وہ لیاقت علی خان جسے سب قائد ملت کہتے تھے اسی قائد کو ملت کے سامنے گولی مار دی گئی ،وہ فاطمہ جناح جو مادرِ ملت تھیں ،اُسی مادر کو ملت نے دھاندلی سے ہرا دیا اور وہ ذوالفقار بھٹو جو قائد ِعوام تھا اور جو اسٹیج پر جب کہا کرتا کہ میرے ساتھ مرو گے تو لاکھوں کہتے مریں گے ،وہ قائد تومر گیا مگر ساتھ مرنے والے عوام آج بھی زندہ وتابند ہ ، پھر محسن کشوں کے اس دیس میں محسن کشی ایسی کہ غلام محمد اسکندر مرزا کو لائے توا سکندر مرزا نے انہیں ہی فارغ کر دیا ،اسکندر مرزا ایوب کو لائے تو ایوب نے انہیں ہی چلتا کر دیا ،ایوب نے یحییٰ کو Promoteکیاتو یحییٰ نے ایوب کوہی Demoteکر دیا ،یحییٰ نے جن ہاتھوں سے بھٹو کو اقتدار پیش کیا ،بھٹو نے انہی ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنادیں ،بھٹو نے ضیاء کے سرپر ہاتھ رکھا تو ضیاء نے بھٹو کا ہی سر پھندے میں دیدیا،ضیاء جو نیجو کو لائے تو جونیجو نے ضیاء کو ہی گھر بھجوانے کی تیاری کر لی ، بے نظیر بھٹو نے اپنے منہ بولے بھائی فاروق لغاری کو صدر بنایا تو بھائی نے بہن سے ہی وزارتِ عظمیٰ چھین لی ،نواز شریف مشرف کو لائے تو مشرف نے نواز شریف کا ہی دھڑن تختہ کر دیا اورپھر جب مشرف نے اپنی اسٹک جنرل کیانی کو پکڑائی تو جنرل کیانی نے یہ اسٹک ایسی گھمائی کہ مشرف آج تک ان گھمن گھیریوں میں۔ مگر وہاں کیا فائدہ ان باتوں کا کہ جہاں ایک طرف 20کروڑ افراد کے مسائل ایسے کہ حل ہونے کانام ہی نہیں لے رہے جبکہ دوسری طرف سکون ایسا کہ تلور کے شکار پر لارجر بنچ بننے کی باتیں ، ایک طرف عام آدمی چند لاکھ کا قرضہ لے کر پھر عمربھر اس قرض کا سود بھی نہ اتار پائے جبکہ دوسری طرف 45منٹ میں اسٹیٹ بینک نے حکمرانوں کے ایک بینک کو زیرو فیصد سود پر اربوں روپے دیدیئے ،جہاں ایک طرف غربت ایسی کہ کروڑوں لوگ بچوں کی فیس تک ادا کرنے سے قاصر جبکہ دوسری طرف اتنا پیسہ کہ ہمارے بڑے امریکی صدارتی انتخابات میں فنڈنگ کرتے ہوئے اور یہ تو وہ ملک کہ جہاں ایک وزیراعظم کی بیوی ایک گھنٹے کے جوئے میں 4کروڑ ہار جائے ، جہاں ایک وزیراعظم کا بیٹا آدھے گھنٹے میں 5کروڑ اُڑا دے ،جہاں ایک صدر کی بہن کی 9ملکوں میں رہائش گاہیں ، جہاں ہر وقت بلوچستان کی پسماندگی پر تڑپتے بلوچستان کے ایک رہنما کی جائیداد بلوچستان کے سرکاری بجٹ سے بھی ڈبل اور پھر یہ تو وہ ملک کہ جہاں ابھی چند ماہ پہلے 13سور وپے میں بینک فروخت ہوا اور جہاں ابھی تک مودی کی لاہور یاترا پر بھنگڑے جاری ، ذرا سوچیں اگر نواز شریف یہ کہتے کہ ’’مجھے فخر ہے کہ میں نے بھارت توڑنے میں عملی طور پر حصہ لیا‘‘ اور پھر یہ کہنے کے ایک ماہ بعد نواز شریف مودی کو فون کرتے کہ’’ میںکابل سے واپسی پر چائے آپکے ساتھ پینا چاہتا ہوں ‘‘ تو کیا مودی بھی اسی طرح نواز شریف کا استقبال کرتا جیسے نواز شریف نے مودی کا استقبال کیا اورکیا بھارتی میڈیا اور عوام کا رویہ بھی یہی ہوتا جو ہمارا تھا لیکن پھر وہی بات کہ کیا فائدہ ایسی باتوں کا کیونکہ ہم تو وہ عجیب وغریب لوگ کہ جو وقت پڑے تو اپنے بچے ہی کھاجائیں ، جو اپنے پاؤبھر گوشت کیلئے اگلے کا پورا بکرا ذبح کر ڈالیں ، جو اچھے وقتوں میں جسے سر آنکھوں پربٹھائیں برے وقتوں میںاسی کے نیچے سے زمین کھینچ لیں،جو ربیع الاول اور شبِ معراج مناکر نیو ائیر اور ویلنٹائن ڈے پر بھی لڈیاں ڈالیں،جو جس تھالی میںکھائیں اُسی میں چھید کریں اورجن کے کھانے پینے،سوچنے دیکھنے،مذہب، عبادت ،سیاست صحافت،دعا ،وفا اور اداہر شے میں ایسی دونمبری کہ بظاہر لگے کہ سب کچھ ہی دو نمبر مگر اصل بات یہ کہ ہم تو دو نمبر بھی اصلی نہیں ۔