• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں زبردست کمی کے تناظر میں پاک، چین اقتصادی را ہداری پروجیکٹ عارضی طور پر گیم چینجر تو ہو سکتا ہے مگر حقیقی معنوں میں فیٹ چینجر (قسمت بدلنے والا) صرف اس وقت ہو گا جب پاکستان خود بھی کچھ مؤثر و فیصلہ کن اقدامات اٹھائے وگرنہ سال بہ سال جو خرابیاں معیشت میں آتی چلی جا رہی ہیں ان کا حجم ان دونوں عوامل سے آنے والی بہتری کے حجم سے کہیں زیادہ ہو گا۔ چند اہم حقائق نذر قارئین ہیں۔
(1)پاکستان میں اسمگل کی جانے والی اشیاء کے حجم کا تخمینہ 20؍ارب ڈالر سالانہ ہے جس سے ڈیوٹی کی مد میں قومی خزانے کو 400؍ارب روپے سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ حکومت کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ اس غیر قانونی کاروبار سے کمائی ہوئی دولت کا ایک حصّہ ملک میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔ اسمگلنگ روکنے کی ذمہ داری پاکستان کسٹم، رینجرز، کوسٹ گارڈز، فرنٹیئر کور اور پاکستان میری ٹائم ایجنسی کو سونپی گئی ہے مگر ان اداروں کی کارکردگی مایوس کن ہے۔
(2)ایکسچینج کمپنیز کے نمائندے نے اسٹیٹ بینک کو بتایا ہے کہ اگرچہ ملک میں ہنڈی اور حوالے کے غیر قانونی کاروبار کا حجم 15؍ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گیا ہے لیکن یہ حجم 30؍ارب ڈالر سالانہ تک ہو سکتا ہے۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کیلئے ہنڈی اور حوالےکے کاروبار کو کم کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک نے مؤثر اقدامات نہیں اٹھائے۔
(3)ملکی درآمدات میں انڈر انوائسنگ کے حجم کا تخمینہ 7؍ارب ڈالر سالانہ ہے۔
(4)ڈی جی رینجرز سندھ نے دعویٰ کیا ہے کہ کراچی میں منشیات، منی لانڈرنگ اور بھتہ خوری سے 230؍ارب روپے سالانہ کی رقوم اینٹھی جاتی ہیں اور اس رقم کا ایک حصّہ دہشت گردی اور دوسرے جرائم میں استعمال ہوتا ہے۔
(5)پاکستان میں بینکوں میں اربوں روپے بے نام کھاتوں میں جمع ہیں۔ اسٹیٹ بینک نے دہشت گردی کی مالی معاونت میں استعمال ہونے والے ایک ارب 35؍لاکھ روپے کے 129کھاتے منجمد کر دیئے ہیں۔
(6)طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کیلئے کوئی بھی حکومت ہر قسم کی آمدنی پر مؤثر طور سے ٹیکس عائد کرنے اور معیشت کو دستاویزی بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ پاکستان میں ٹیکسوں کی مد میں استعداد سے 5؍ہزار ارب روپے سالانہ کم وصول ہو رہے ہیں۔
(7)انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4)کے تحت غیر قانونی دولت کو قانونی تحفظ مل جاتا ہے۔ اس شق کی وجہ سے بھی بیرونی ممالک سے آنے والی ترسیلات کا حجم تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ 2016ء میں پاکستان آنے والی ترسیلات کا حجم 20؍ارب ڈالر کی تاریخی سطح تک پہنچ جائے گا جبکہ دس برس قبل یہ حجم صرف 5؍ارب ڈالر تھا۔ ترسیلات کا تقریباً 50%فیصد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے آتا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے تنازع کے تناظر میں خارجہ پالیسی وضع کرتے وقت یہ عنصر بھی اہم ہو گا۔ پاکستان کو دنیا کے ان چند ممالک میں شامل کیا گیا ہے جہاں منی لانڈرنگ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ منی لانڈرنگ روکنے کی آڑ میں پاکستان آنے والی ترسیلات کے حجم میں اچانک کمی کرائی جا سکتی ہے۔ پاکستانی معیشت اس دھچکے کو سنبھالنے کی سکت نہیں رکھتی۔ جاری حسابات کے خسارے کو کم کرنے کیلئے ان ترسیلات پر انحصار کرتے چلے جانا اور ان رقوم کو سرمایہ کاری میں منتقل نہ کرنا تباہ کن ہے۔
(8)ملک میں کالے دھن کے حجم کا تخمینہ تقریباً 15000؍ارب روپے ہے جبکہ تخمینہ ہے کہ کالے دھن میں ہر سال 750؍ارب روپے کا اضافہ ہوتاہے۔ حکومت نے کالے دھن میں ہونے والے اضافے کو روکنے کیلئے قانون سازی کرنے اور اقدامات اٹھانے کے بجائے طاقتور طبقوں کو نوازنے کیلئے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجراء کرنے کا فیصلہ کیا ہے چنانچہ یہ اسکیم قومی خزانے کیلئے خسارے کا سودا اور اپنے مقاصد کے حصول میں اسی طرح ناکام رہے گی جیسے گزشتہ 8 ایمنسٹی اسکیمیں رہی ہیں۔
(9)ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے اعلان سے چند روز قبل وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ 2018ء میں ٹیکس، جی ڈی پی کے تناسب کے ہدف کو 15؍فیصد سے کم کر کے 13؍فیصد کر دیا گیا ہے یعنی 2018ء تک ٹیکسوں کی وصولی کے مجموعی ہدف میں تقریباً 2100؍ارب روپے کی کمی کر دی گئی ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت، میڈیا اور سول سوسائٹی نے اس پر ہلکا سا بھی ردّعمل ظاہر نہیں کیا۔ واضح رہے کہ 1995-96ء میں یہ تناسب 14.4فیصد تھا۔
مندرجہ بالا حقائق اقتصادی دہشت گردی اور عملاً دہشت گردی کی معاونت کے زمرے میں آتے ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ جیتنے کیلئے طاقت کے استعمال سے زیادہ اقتصادی دہشت گردی پر قابو پانا ضروری ہے۔ حکومت اور بیوروکریسی بہرحال اس ضمن میں مؤثر اقدامات اٹھانے سے گریزاں رہے ہیں کیونکہ ان سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ یہ ازحد ضروری ہے کہ ان 9؍نکات میں دی گئی خرابیوں کو دور کرنے کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کو نیشنل ایکشن پلان کا حصّہ بنایا جائے۔ پاک چین اقتصادی را ہداری کے منصوبے کو ایک حکمت عملی کے تحت متنازع بنا دیا گیا ہے کیونکہ مسئلہ صرف صوبوں کے حقوق کا نہیں۔ صوبوں کو زیادہ خودمختار بنانے کیلئے آئین میں 18ویں ترمیم کی گئی مگر صوبوں نے اس سے استفادے کی مؤثر کوششیں کی ہی نہیں۔ اسی طرح ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت وفاق سے صوبوں کو زیادہ رقوم ملنی تھیں لیکن صوبوں نے ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کر کے وفاق سے گٹھ جوڑ کیا اور 23؍ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں صرف مالی سال 2014ء میں 149؍ارب روپے فاضل دکھلا کر اپنے حقوق پامال کئے۔
را ہداری منصوبے سے حقیقی معنوں میں ثمرات حاصل کرنے کیلئے پاکستان کو مختلف شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کیلئے وفاق اور چاروں صوبوں کو ہر قسم کی آمدنی پر مؤثر طور سے ٹیکس عائد کرنا، اقتصادی دہشت گردی پر قابو پانا اور مالی و انٹلیکچوئل کرپشن کو ممکنہ حد تک کم کرنا ہو گا۔
بدعنوانی کے کچھ بڑے واقعات کا آج کل میڈیا میں بڑا چرچا ہے۔ مگر ان میں سے بیش تر جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے منطقی انجام تک پہنچتے نظر نہیں آتے۔ پاکستان سے لوٹ کر مغربی ممالک میں منتقل کی گئی رقوم کو قومی خزانے میں واپس لانے کے دعوے گزشتہ 20برسوں سے کئے جا رہے ہیں لیکن ناجائز آمدنی سے بنائے ہوئے ملک کے اندر موجود اثاثوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے ان کو وقتاً فوقتاً ایمنسٹی کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ ستمبر 2000ء سے اب تک نیب میں 7؍چیئرمین تعینات ہوئے مگر ان سب نے لوٹی ہوئی دولت کی وصولی کے غلط اعداد و شمار پیش کئے۔ موجودہ چیئرمین کے دور میں نیب کے ایگزیکٹو بورڈ سے منظورشدہ 2014ء کی سالانہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نیب نے گزشتہ 14برسوں میں بینکوں کے پھنسے ہوئے قرضوں کی مد میں 121.7؍ارب روپے کی وصولی کی ہے حالانکہ اصل وصولی اس کی ایک تہائی بھی نہیں۔ اسٹیٹ بینک بھی اس طویل مدت میں بوجوہ خاموش رہا۔ کیا اس ضمن میں احتساب کے تقاضے پورے کئے جائیں گے؟
تازہ ترین