• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالات حاضرہ سے جڑےایک اہم موضوع کے بارے میں اظہار خیال کا ارادہ کرچکا تھااور اس کے بارے میں ضروری معلومات و مواد بھی اکٹھا کرلیا تھا مگر پھر اچانک مجھے پروفیسر زبیر بن عمر صدیقی کی ای میل وصول ہوئی جس نے مجھے اپنا ارادہ بدل لینے پر مجبور کردیا۔ پروفیسر صدیقی انتہائی عالم و فاضل شخصیت ہیں۔ آپ نے ایم اے انگریزی زبان و ادب میں کیا ہے۔ پہلے لندن میں انگریزوں کو انگریزی پڑھاتے رہے پھر عربوں کو انگریزی پڑھانے کے لئے مکۃ المکرمہ آگئے۔ وہ انگریزی کے علاوہ اردو ادب اور دینی لٹریچر کے بھی شناور ہیں۔ آج کل امریکی ریاست کیلیفورنیا میں مقیم ہیں۔ شب و روز مطالعے میں مگن رہتے ہیں اور ای میل کے ذریعے پاکستانی ادب و سیاست اور صحافت پر اظہار خیال فرماتے رہتے ہیں۔ پروفیسر موصوف نے ان دنوں ہائی کورٹ کے2018میں سی ایس ایس کا امتحان اردو میں لینے کے حوالے سے لکھا ہے کہ اصل چیلنج انگریزی نہیں اردو ہے کہ بہت کم لوگوں کو درست عبارت اور سلاست کے ساتھ قومی زبان لکھنا اور صحیح تلفظ کے ساتھ ا پنا مافی الضمیرادا کرنے پر قدرت حاصل ہے۔ ہم پروفیسر موصوف سے باادب اختلاف کریں گے کہ معاملہ کسی زبان کو درست لکھنے یا بولنے کا نہیں وہ تو ایک الگ ا لمیہ یا مسئلہ ہے۔ اردو کیا پاکستان میں کتنے لوگوں کو درست انگریزی لکھنی یا بولنی آتی ہے؟ ان کی تعداد تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ ہوگی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے حکمرانی کا راز یہ سمجھا ہے کہ انگریزی جاننے والی اکثر و بیشتر بیوروکریسی سے خوب بنا کے رکھو ،خود بھی کھائو موج اڑائو اور انہیں بھی کھلائو اور عوام کی آنکھوں میں بزبان انگریزی دھول جھونکنے اور فائل کا پیٹ بھرنے کے معاملے کو بیوروکریسی پر چھوڑ دو کیونکہ وہ دھوکہ دہی کے اس آرٹ میں یدطولیٰ رکھتی ہے بلکہ اس کی سپیشیلٹی یہی ہے ، اس لئے جونہی عدالت عظمیٰ یا پارلیمنٹ وغیرہ کی طرف سے کوئی ایسا حکم آتا ہے کہ عوام سے عوام کی زبان میں بات کرو، ان کی زبان میں دفتری و عدالتی نظام چلائو۔ایسے احکامات کو ٹالنے اور پس پشت ڈالنے کا گر بھی بیوروکریسی بتاتی اور معاوضے کے طور پر حکومت سے بھاری مراعات حاصل کرتی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو حکم جاری کیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے2015میں جاری ہونے والے حکم کی روشنی میں سی ایس ایس کا امتحان2018سے صرف اردو میں لیا جائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ حکمران جو دیسی لب و لہجے میں لکھی ہوئی انگریزی بمشکل تمام پڑھتے ہیں اور سامعین کو ہنسنے کا موقع دیتے ہیں وہ بھی اپنے ملک میں اردو کو اس لئے سرکاری زبان کا درجہ دینے پر آمادہ نہیں ہوتے کیونکہ وہ حکمرانی کے دائو پیچ اورفریب کاری عوام کی رسائی سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ہمارے حکمران ہر ہفتے چین اور ترکی جاتے یا وہاں سے آنے والوں سے ہمکلام رہتے ہیں، ذرا ان سے پوچھیں کہ کیا ان کے سرکاری دفاتر میں ،ان کی عدالتوں میں،ان کی یونیورسٹیوں میں اور ان کے ایوانوں میں کون سی زبان بولی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کی اپنی زبان بولی جاتی ہے۔ حکمرانوں کے گلے میں جب کسی ناگوار فیصلے کی کوئی ہڈی اٹک جاتی ہے تو وہ بیوروکریسی کے کل پرزوں سے بعض فرمائشی مضامین بھی اخبارات میں لکھواتے ہیں جن میں لایعنی اور بے معنی باتیں لکھی ہوتی ہیں اور کوئی دلیل ہوتی ہے نہ کوئی منطق۔ ایک ایسے ہی مضمون میں کہا گیا کہ جاپان کی ترقی کا راز اس کی زبان نہیں بلکہ دوسری زبانوںمیں کی گئی تحقیق کے تراجم ہیں۔ آج کل بین الاقوامی طور پر تبادلہ معلومات کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔ ایک ممتاز چینی ماہر اقتصادیات کینچی اوماہے نے لکھا ہے کہ دنیا پوچھتی ہے کہ جاپان کی ترقی کا راز کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری ترقی کا راز ہماری زبان اور ہمارا نظام تعلیم ہے۔ وہ اپناسارا کاروبار زندگی اپنی زبان میں چلاتے اور اپنی زبان میں تعلیم دیتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جب کسی طرف سے پاکستان کے معاملات کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے تو عوام کی گردنوں پر سوار اشرافیہ کے ہاں کھلبلی مچ جاتی ہے کہ اب کیا ہوگا۔غالباً 1978میں حکم جاری کیا گیا تھا کہ اب تمام شعبہ ہائے زندگی میں اردو رائج ہوگی اور 1979سے اسکولوں میں اردو ذریعہ تعلیم ہوگا اور 1989 میں میٹرک کا امتحان صرف اور صرف اردو میں ہوگا۔ ان دنوں ایچی سن کالج کے پرنسپل عبدالرحمن قریشی سے ہماری ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے بھی یہی بتایا تھاکہ ہم انگریزی کو اردو ذریعہ تعلیم میں بدلنے کے انتظامات کررہے ہیں۔ پھر وہی کچھ ہوا جس کی ایسے مواقع پر امید کی جاتی ہے۔ بعض سیاستدان، جرنیل اور بیورو کریسی کے کل پرزے اپنی طبقاتی برتری قائم رکھنے کے لئے اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو زیر دام لے آئے اور انہوں نے اجازت دے دی کہ اگر کوئی کچھ بچوں کی ضرورت کے مطابق انگلش میڈیم اسکول کھولنا چاہے تو اس کی ا جازت ہوگی۔ پھر کیا تھا رنگ برنگے تعلیمی نظاموں کا ایک سیلاب پاکستان میں آگیا جو ہماری قومی یکجہتی کو بہا کر لے گیا۔ ایک اور خلط مبحث یہ پیدا کردیا جاتا ہےکہ نفاذ اردو کا مطالبہ کرنے والے آج کی علمی اور بین ا لاقوامی زبان کو پس پشت ڈال رہے ہیں، ایسا ہرگز نہیں جس طرح امریکہ میں انگریزی کے بعد دوسری زبان اسپانوی ہے اسی طرح پاکستان میں اردو کے بعد دوسری زبان انگریزی ہوگی۔طبقاتی تعلیم کے اعتبار سے آج پاکستان غالباًپہلے نمبر پر ہوگا۔ بیچارے بچوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ بڑے بڑے اسکولوں کے سلیبس پڑھانے کی اکیڈیمیاں کھلی ہوئی ہیں کیونکہ غیروں کی زبان میں غیروں کا سلیبس سمجھنا اکثر بچوں کے بس کی بات نہیں۔ انگریزی زبان کی بالادستی کے لئے اس نظام میں بعض نئے طبقات بھی اپ گریڈ ہو کر شامل ہوگئے ہیں یہ اصحاب ادب و صحافت جو دو نسلوں سے اردو میڈیم ٹاٹ اسکولوں میں پڑھتے آئے ہیں مگر اب وسا ئل کی ریل پیل کی بناء پر اپنے بچوں ،پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں بھیجنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ حضرات نہیں سوچتے کہ آ ج میڈیا میں جو بھاری معاوضے وہ وصول کررہے ہیں وہ انہی ٹاٹ اسکولوں کی برکت اور اردو میڈیم کے اساتذہ کے فیضان نظر کا ثمر ہے۔ پاکستان کی اکثر جماعتوں کے منشور میں اردو کا نفاذ اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ خاص طور پر ہمیں حیرت ہے جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام(ف)پر۔ کسی زمانے میں جماعت اسلامی کی ہر عوامی مہم میں اسلامی نظام کے بعد دوسرا نقطہ نفاذ اردو ہوا کرتا تھا۔ اب لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ جماعت اسلامی سے وابستہ بعض سرکردہ لوگوں نے انگریزی تعلیمی ا دارے قائم کرلئے ہیں اس لئے جماعت اسلامی نہیں چاہتی کہ ان لوگوں کے مفاد کو کوئی زک پہنچے اس لئے جماعت نے بیچاری اردو کو لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ اسی طرح جب مولانا فضل الرحمٰن کے والد گرامی مولانا مفتی محمود وزیر اعلیٰ سرحد تھے تو انہوں نے اپنے صوبے میں اردو کو بطور سرکاری زبان نافذ کردیا تھا ،مگر آج مولانا فضل الرحمٰن طبقاتی نظام سے وابستہ ہو کر اردو کو بھول گئے ہیں۔ ساری قوم کو تحریک نفاذ اردو کے ذمہ داروں کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ وہ فرض کفایہ ادا کررہے ہیں۔
اردو کے نفاذ میں صرف اور صرف ایک رکاوٹ ہے اور وہ ہماری سیاسی و عسکری اشرافیہ اور بیوروکریسی ہے، اگر آج حکمرانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان سے روگردانی کرتے ہوئے،1973کے آئینی تقاضےکو نظر انداز کرتےہوئےاور عدالتی فرمان کی نافرمانی کرتے ہوئے اردو کو سرکاری اداروں میں نافذ نہ کیا اور 2018میں سی ایس ایس کا امتحان صرف اور صرف اردو میں نہ لیا تو یہ قوم کی آرزوئوں کو ملیا میٹ کرنے کے مترادف ہوگا۔ پاکستان کے18کروڑ عوام کی زبان انگریزی نہیں اردو ہے۔

.
تازہ ترین