• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایٹمی دھماکے کے بعد جہاں ہندوستان کی معیشت میں تو سیع ہوئی، پاکستان کی معیشت سکڑی ۔ عالمی مالیاتی اداروں نے امداد اور قرضے پر پابندی لگائی تو ہندوستان میں معمولی اور پاکستان میں بہت فرق پڑا۔ ہندوستان میں زرِ مبادلہ سال بہ سال بڑھتا گیا ہے۔ لیکن پاکستان میں زرِ مبادلہ تشویش ناک حد تک گر گیا۔ ہندوستان میں سرمایہ کاری بدستور رہی۔پاکستان میں سرمایہ کاری بھی نہ ہو سکی جس کے نتیجے میں ملکی معیشت مسلسل تنزلی کا شکار رہی ۔ جنوب مشرقی ایشیاکے بحران اور گرتی ہوئی عالمی معیشت نے اسے اور بھی متاثر کیا۔ کچھ عرصہ بعد عالمی اداروں نے پابندیوں میںنرمی کرنا شروع کی تو حکومت نے بھی حالات کو بہتر کرنے کے لئے اقدامات ۔ ان میں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی موُخر اور ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنا شامل ہے ۔ بہر حال ابھی ان اقدامات کے نتائج آنے نہ پائے تھے کہ کارگل چپقلش سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی جس سے پاکستان معیشت مزیددب گئی۔
شرح نمو
ان حالات کے تحت ، مالی معاشی کارکردگی خوش کن نہیں رہی۔ شرح نمو میں اضافہ ہوا جبکہ او لاًیہ شرح کم تھی۔ صنعتی پیداوار میں اضافہ رہا جو گزشتہ سالوں میں تھا۔ اقتصادی پابند یوں ، درآمدات میں کمی ، غیر یقینی حالات اور غیر ممالک میں اشیاء کی مانگ میں کمی کی وجہ سے صنعتی زرعی شعبے کی کارکردگی بہتر رہی۔ برآمدات کو بھی دھچکا لگا جو گزشتہ سالوں کم رہی۔موسمی حالات سے زرعی شعبے کی پیداواربھی متاثر ہوئی جس میں شرح نمو کم رہی۔یہ گزشتہ سالوں بڑھی تھی ۔قومی بچت مجموعی قومی پیداوار رہی جبکہ پچھلے سالوں یہ شرح کم تھی ۔ بیرونی سرمایہ کاری میںبھی کمی آئی۔ بیرونی سرمایہ کاری ملین ڈالر رہی جبکہ گزشتہ سا ل اِسی اثنامیں یہ سرمایہ کاری کم و بیش تھی ۔ صرف سروس سیکٹر میں ذرا سا اضافہ ہوا جو گزشتہ سال سے بڑھ کر زیادہ ہوا۔
مندرجہ بالا تنزلی صرف ایک ہی سال کی نہیں بلکہ یہ کئی سالوں کا مجموعہ ہے۔ معاشی عمل کا تعلق فقط ملکی ، سیاسی ، سماجی اور اقتصادی فضاسے ہوتا ہے۔ یہ فضا نہ صرف ملک کے اندر ، بلکہ بیرونِ ملک بھی عرصہ دراز سے ناسازگار ہے۔ ایٹمی دھماکوں ، اقتصادی پابندیوں اور ہندوپاک کے کشیدہ تعلقات کی وجہ سے سرمایہ کاری کوشیدید دھچکالگتا ہے۔لہٰذا کثیرالقومی کمپنیوں نے اپنے کاروبارمیں یاتو کمی کردی ہے۔ یا پھراسے ختم کردیا ۔ چند کمپنیا ں تو بند بھی ہو گئیں۔ مالی اداروں نے نہ صرف مزید قرضہ جات دینے بند کر دئیے بلکہ پرُ انے قرضوں کی ادائیگی کا بھی تقاضہ شروع کردیا ۔ لہــذا بیرونی سرمایہ کاری کے لئے کوئی بھی Incentiveیعنی رغبت نہ رہی ۔ نتیجتاً، ملک سے سرمائے اور انفرادی قوت کا انخلاشرو ع ہوا۔کم سے کم کچھ تاجر اور صنعتکاروں نے اپنے کاروبار کو بہتر محفوظ مقامات، یعنی امریکہ ، برطانیہ، کینیڈا اور مشرقِ و سطیٰ میں منتقل کرنا شروع کر دیا۔ جب یہ عمل پذیر ہوگا تو ملک میں معاشی عمل کیو نکر ہوگا !
عالمی اداروں کا کردار
پاکستان نے دیگر عالمی تنظیموں کے ساتھ ساتھ WTO ڈبلیو ٹی او کے معاہدے پر بھی دستخط کیے جس کے تحت پاکستان کے قوانین میں تبدیلی ہوئی ۔اس تبدیلی میں تجارتی پالیسی ، کسٹم ویلیویشن اور دیگر محصولات شامل ہیں ۔ اس کا اثر براہِ راست ملکی تجارت ، صنعت ، مالیات اور سروس جیسے شعبوں پر پڑا۔ اصل میں ان تبدیلیوں کا مقصد آزاد تجارت تھا جس کے لئے پاکستان ابھی تیار نہیں تھا۔ ملک میں وہ تمام اشیاء پیداہوسکتی ہیں جن کی ترقی یافتہ ممالک سے بلاروک ٹوک آزاد تجارت کی بات کی جاتی تھی۔ اس معاہدے کے پیشِ نظر آزاد تجارت کا نقطہ نظر یہ بھی تھا کہconcessionary Regime یعنی مراعاتی نظام کو ختم کر کے TARIFFیعنی محصولاتی نظام میں تبدیل کردیا جائے ۔ایسا کرنے میں مقامی تجارت اور صنعت و حرفت پر برُا اثر پڑتا۔لہٰذا اس نقطہ نظر پر انتہائی غوروخوض کی ضرورت تھی۔
ڈبلیو ٹی او کے معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے حکومت نے اس موضوع پر کوئی رائے لی اور نہ ہی اس پر اظہارِخیال کا کسی کو موقع دیا بیشتر ممالک میں اس قسم کے فیصلے پرائیویٹ سیکٹر کے مشورے سے کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں پرائیویٹ سیکٹر کو ایسے فیصلوں میں شامل کرنا تو درکنار ، اس قسم کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بارے میں بتایا بھی نہیں جاتا۔ اس پر طرہ یہ کہ پرائیویٹ سیکٹر اس دوران ڈبلیوٹی او کی زد میں آنے والی سرمایہ کاری کرتا رہا۔ نہ صرف یہ، بلکہ اس زد میں آنے والی صنعت میں پرائیویٹ سیکٹر پر مقامی طور پر انجینئرنگ اوربالخصوص آٹو موبائل اور دیگر پرُ زہِ جات بنانے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے دباؤ ڈالا جاتا رہا، تو اس مد میں کثیر سرمایہ کاری ہوگئی ۔اس سرمایہ کے فوائدبھی صرف اسی صورت میں حاصل کیے جا سکتے تھے کہ سرمایہ کاری کو مجوزہ مراعات بھی حاصل ہوں۔ تعجب ہے کہ وزارتِ صنعت ڈبلیو ٹی او کی حمایت میں موجودہ Localizationیعنی ملکی صنعت کاری کی پالیسی میں کوئی برملاوضاحت نہیں کر رہی تھی۔اگر یہ تبدیلی ہوئی تو ملکی صنعت اور تجارت پر دور رس منفی نتائج ہوں گے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ ممالک نے تو اپنے آپ کو ڈبلیوٹی او سے لا تعلق ہی کیا ہوا ہے۔جس کا مقصد اپنی مقامی صنعت کو تحفظ دینا ہے ۔ یہ تحفظ ایک یا دوسری شکل میں ہر ملک میں رائج ہے۔ ہمارے ہاں بہر حال اس وقت غیر یقینی کی کیفیت ہے ۔
اس کی وجہ سے سرمایہ کاری پر اُلٹا اثر رہا ہے اور صنعت و حرفت کو نقصان ہی نقصان ہے۔ امریکہ کے شہر سیٹل میں ہونے والا ڈبلیوٹی او کا اجلاس اس قسم کے اختلافات کی بھینٹ چڑھا تو پاکستان کو اس اختلاف سے مناسب استفادہ کرنا چاہئے تھا ! علاوہ ازیں، IMF۔آئی ایم ایف کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے اچانک استعفیٰ سے ایک لمحہ فکر یہ پیدا ہوا۔ یعنی کہ آئی ایم ایف کارول کیا ہے۔ جارج شُلرز، ویلیم سائن اور والٹر اسٹن جیسے مفکر ین نے آئی ایم ایف کو ختم کرنے کے بھی مطالبے کیے ہیں۔تنقید یہ بھی ہے کہ عالمی تجارت کے لئے ایک ٹھوس عالمی نظام کی ضرورت ہے۔لہٰذا آئی ایم ایف کے ممبران ممالک کو چاہئے تھا کہ اس رول پر غور کریں ۔ صریحاً اس کی تشکیل ِ نو کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر اور بالعموم ترقی یافتہ ممالک کی خاطر نظام کو بہتر کیا جانا چاہئے ۔ تنقید یہ بھی ہے کہ ڈیویلیویشن جیسے عوامل جو آئی ایم ایف کا ایک پسند یدہ عمل رہا ہے، مالی طور پر مناسب ہے نہ سیاسی طور پرِا سے جائزقراردیا جا سکتا ہے۔
دنیا بھر میں ڈبلیوٹی او کے موضوع پر بحث جاری رہتی ہے۔ اینڈی راول جیسے محققین کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ صرف دنیا میں0.01فیصد بڑی کارپوریشنوں اور اہم شخصیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ گزشتہ دہائی میں جہاں دنیا کے بیس امیر ترین ممالک کی دولت میں اضافہ ہوا، وہاں دنیا کے غریب ترین ممالک کی دولت میں کمی ہوئی۔ عالمی بنک کے صدر جیمرڈی و لفنس نے یہ تک کہا ہے کہ آئی ایم ایف اور ڈبلیوٹی او جیسے اداروں کا یہی کردار رہا تو ــ’’دنیا مایوسی اور نااُمیدی کا شکار ہو جائے گی‘‘۔
بہر حال آئی ایم ایف اور ڈبلیو ٹی او اور دیگر ایسے ادارے Prudent یعنی محتاط ادارے ہیں جن کے سربراہان بھی Prudent یعنی محتاط ہیں۔ لیکن دوسری طرف اتنی ہی محتاط تنظیمیں اور ادارے برعکس نظریات رکھتے ہیں۔ لہٰذا Prudentعالمی معیشت کے لئے بالعموم اور ترقی پذیر ممالک کے مفاد کے لئے با لخصوص اس نظام میں بظاہر تبدیلی کی ضرورت ہے۔پاکستان کو بھی اس تحریک میں پیش پیش ہونا چاہئے۔

.
تازہ ترین