• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ کوئی خبر، کوئی ذاتی تجربہ یا کوئی بھٹکی ہوئی سوچ آپ کو اپنے ملک کی صورتحال کو سمجھنے پر نہ اکساتی ہو۔ ایک کے بعد دوسرا سوال اپنا سر اٹھاتا ہے۔ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہم کہاں آ گئے؟ کیا ہماری سمت کہ جس کا تعین کوئی اور کرتا ہے، درست ہے؟ ایک سطح پر تو یہ بے چینی ہماری عادت بن گئی ہے۔ میڈیا ہمارے ذہنوں کو مفلوج کئے رکھتا ہے لیکن بہت سنجیدہ، بہت گھمبیر معاملات بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کچھ باتوں سے دل بھی بہلتا ہے، چپکے سے کوئی اچھی خبر بھی آ جاتی ہے، البتہ گزشتہ دو ہفتے دہشت گردی کے واقعات کی نئی لہر کی وجہ سے خاص طور پر بے چینی میں گزرے۔ خوف کی فضا میں افواہوں نے ڈیرہ ڈالا، کئی تقاریب منسوخ کر دی گئیں، بازاروں کی گہماگہمی میں کمی دکھائی دی۔ ایک طرف دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن نے شدّت پکڑی تو دوسری طرف دہشت گردی کے چھوٹے بڑے واقعات بھی جاری رہے۔ اس ہفتے کی ایک بڑی خبر یہ رہی کہ اب پنجاب میں بھی رینجرز کو تعینات کر دیا گیا ہے اور کئی علاقوں میں آپریشن شروع ہونے والا ہے لیکن اس سے بھی بڑی خبر یہ ہے کہ پاک فوج نے پورے ملک میں ایک آپریشن شروع کیا ہے جس کا عنوان ’’ردالفساد‘‘ ہے۔ یہ گویا ایک نئی حکمت عملی ہے۔
پہلے سے جاری تمام آپریشنز بھی ’’ردالفساد‘‘ کا حصّہ ہوں گے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ملک کو اسلحہ سے پاک کیا جائے گا۔ اس منصوبے کا ارادہ اس سے پہلے تو شاید کبھی نہیں کیا گیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ کٹھن کام کوئی کیسے کرے گا پھر نفرت اور تعصب بھی تو ایسے ہتھیار ہیں جن کو تاریک ذہنوں سے باہر نکالنا ہے۔ ’’ردالفساد‘‘ کی سرخیاں جمعرات کے اخبارات میں شائع ہوئیں اور جب دن چڑھا تو لاہور میں ڈیفنس کے علاقے میں ایک دھماکہ ہوا جس میں کئی جانیں ضائع ہوئیں اور یوں ہم الجھنوں میں گرفتار رہے۔
ویسے جس واقعہ نے مجھے خاص طور پر اپنے ملک کے بارے میں سوچنے کی ترغیب دی اس کا تعلق دہشت گردی سے نہیں ہے اور اس کا حوالہ اس ہفتے کی ایک گزری ہوئی تاریخ ہے۔ وہ تاریخ 21؍فروری ہے۔ اگر آپ کو یہ یاد آ جائے کہ 21؍فروری کو مادری زبان کا عالمی دن منایا جاتا ہے تو شاید آپ سمجھ لیں کہ اس تاریخ کا ہم سے کیا رشتہ ہے۔ یعنی یہ وہ تاریخ ہے جو ہم نے دنیا کو دی ہے۔ ویسے تو اس دن کو منانے کا آغاز 2000سے ہوا لیکن 21؍فروری کا دن اس لئے منتخب کیا گیا کہ اس دن 1952ء میں ڈھاکہ یعنی مشرقی پاکستان میں ان طالبعلموں پر فائرنگ کی گئی جو اپنی زبان کے حق میں مظاہرہ کر رہے تھے۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک خونین باب تھا اور زبان کے اس مسئلے کی علامت کہ جس کا تعلق پاکستان کے قیام کی تحریک سے تھا کہ جس میں اردو کی ایک خصوصی حیثیت تھی، اسی طرح بنگلہ دیش کے قیام کی ایک بنیاد زبان بھی تھی، ویسے مادری زبان کے عالمی دن کی ایک اہمیت یہ ہے کہ دنیا کی کتنی ہی چھوٹی چھوٹی زبانیں عالم گیریت اور ٹیکنالوجی کے سبب معدوم ہوتی جا رہی ہیں جبکہ ہر زبان انسان کے تجربے، محسوسات اور قوّت تخلیق کا ایک ایسا خزانہ ہے کہ جس کا کوئی بدل نہیں۔
اس دن کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ ابتدائی تعلیم ہر بچّے کی مادری اور ماحول کی زبان ہی میں دی جانی چاہئے اور اب یہ بھی مانا جاتا ہے کہ افراد کو ایک سے زائد یا کئی زبانوں سے واقف ہونا چاہئے۔ ہر سال اس دن کیلئے ایک موضوع چنا جاتا ہے۔ اس سال کا موضوع کچھ یہ تھا کہ ’’ملٹی لنگول‘‘ یعنی کئی زبانوں کی تعلیم کے ذریعے ایک خوشحال مستقبل کا حصول، اس طرح ہم زبانوں کی اہمیت کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سال مادری زبان کا عالمی دن پاکستان میں کچھ زیادہ توجّہ کے ساتھ منایا گیا۔ ہو سکتا ہے اس لئے بھی کہ یہ پاکستان کا 70واں سال ہے اور ہمارے لئے ایک ترغیب کہ ہم اپنے ملک اور اپنی آزادی کے بارے میں کچھ سوچ بچار کریں۔
بدھ کے دن کراچی میں حکومت سندھ کے تعلیم کے محکمے کے ایک شعبے میں اس سلسلے میں ایک تقریب منعقد کی گئی اور اس میں مجھے بھی اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ مشکل یہ ہے کہ جب تعلیم کی بات کرتے ہیں تو ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ ہمارے سرکاری اسکولوں کی حالت ہی کچھ ایسی ہے اور پورا نظام اتنا بگڑ چکا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ اسے کون، کس طرح سنوارے گا پھر بھی اس نظام کی تباہ حالی کا ذکر کرتے رہنا بھی ایک مثبت قدم ہے۔ اس طرح سدھار کی جستجو تو زندہ رہتی ہے۔
زبان کا مسئلہ تعلیم کی روح ہے اور علاقائی قومی زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو اور انگریزی کی حیثیت کے بارے میں بھی ہم کئی الجھنوں کا شکار ہیں۔ یہ میرا مستقل موضوع بلکہ دکھ ہے کہ انگریزی کس طرح ہماری اجتماعی ترقی اور فکری آزادی کی راہ میں ایک رکاوٹ بن گئی ہے۔ اردو کے بارے میں بھی یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ ابتداء میں مسلم لیگ مسلمان عوام سے زیادہ جنوبی ایشیاء کی مسلمان اشرافیہ کی جماعت تھی اور یہ اشرافیہ علی گڑھ اور اردو کی ڈوری سے بندھی تھی لیکن اگر ہم موجودہ حالات کا تجزیہ کریں تو زبان اور تعلیم کے مسائل سے نمٹنے کیلئے ہمیں نئے تصوّرات اور نئی سچّائیوں کو نظر میں رکھنا ہو گا۔ اس سلسلے میں کئی فیصلے کئے جا چکے ہیں جن پر عمل نہیں ہوتا۔ کئی فیصلے ہوتے ہوتے رہ جاتے ہیں۔ حکمران طبقے کے مفادات ایک ایسی دیوار بن گئے ہیں جن سے ٹکرا کر غریب اور محروم عوام کے خواب چکناچور ہوتے رہے ہیں۔
اب یہ دیوار ستم کون گرائے گا، سمجھ میں نہیں آتا۔ معاشی ترقی کی نوید بننے والی راہ داریوں سے اور پناما لیکس کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے شاید اس دیوار کی مضبوطی میں کوئی کمی نہ آئے۔ دل یوں بھی بہت دکھتا ہے کہ چند فیصلے واضح ہیں اور بہ ظاہر آسان ہیں۔ مثال کے طور پر خواندگی یعنی سب بچّوں کو یا پوری آبادی کو ان پڑھ بالغوں سمیت لکھنا اور پڑھنا سکھا دیا جائے اور یہ اسی زبان میں ممکن ہے جو وہ جانتے ہیں۔ اس طرح گویا بنجر زمینیں آباد ہو جائیں گی۔ ایک امکان پیدا ہو جائے گا بند دریچوں کے کھل جانے کا، بعد کی باتیں بعد میں دیکھی جائیں گی۔ ہاں اگر سب کیلئے نظام تعلیم ایک ہی ہو تو انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ زبان کوئی بھی ہو، سبق ایک ہی ہو۔ ویسے بھی پانچ سال سے سولہ سال تک کے بچّوں کی مفت تعلیم کی آئینی ذمہ داری حکومت کی ہے، اگر حکومت بھی آئین پڑھنا سیکھ لے۔

.
تازہ ترین