• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کارل مارکس نے کہا تھا ،کرپشن قحبہ گری سے بھی بدتر ہے کیونکہ اس سے تو ایک فرد کی اخلاقی پوزیشن متاثر ہوتی ہے مگر کرپشن سے پورے ملک کی اجتماعی اخلاقیات کا جنازہ نکل جاتا ہے۔اگرچہ ہمارا پورا سماج ہی کرپشن میں لتھڑا ہوا ہے اور تاثر تو یہ ہے کہ سیاستدان سب سے زیادہ بدعنوان ہیں مگر میرا مشاہدہ یہ ہے اس ملک کو بھنبھوڑنے اور ہڈیاں تک چبا جانے میں افسر شاہی کا ہاتھ ہے اور بیوروکریسی نے لوٹ مار کا جو بازار گرم کر رکھا ہے ،عوام کو اس کی جھلک دکھا دی جائے تو ـ’’چند کلیوں پر قناعت‘‘ کرنے والے یہ بیچارے سیاستدان تو معصوم دکھائی دینے لگیں۔یقینا ہمارے ہاں ایماندار اور فرض شناس سول سرونٹس کی بھی بڑی تعداد موجود ہے مگر اکثریت ان بدعنوان اوربے ضمیر افسروں پر مشتمل ہے جو مال بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ان کی خواہش ہوتی ہے کہ نت نئے ادارے تشکیل پائیں ،نئے منصوبے شروع ہوں ،کمپنیاں ،بورڈز ،اتھارٹیز ،کونسلز ،کمیٹیاں اور سیل بنیں تاکہ لوٹ مار کے راستے کھلتے چلے جائیں۔اس کی زندہ مثال پنجاب کوآپریٹو بورڈ فار لکویڈیشن(پی سی بی ایل)ہے ۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ 80ء کی دہائی میں کوآپریٹو ڈیپارٹمنٹ کی وساطت سے کوآپریٹو بینک کھمبیوں کی طرح اگنے لگے اور ایک موقع پر جب یہ محسوس ہوا کہ بینکنگ کے نام پر بہت بڑے پیمانے پر فراڈ ہو رہا ہے ۔ان بنکوں میں صارفین نے جس قدر خطیر رقوم جمع کروا رکھی ہیں اس کے مقابلے میں بنکوں کے اثاثہ جات کم ہیں اور عین ممکن ہے کہ کسی موقع پر یہ بنک ڈیفالٹ کر جائیں ،مالکان رفوچکر ہو جائیں اور صارفین روتے پیٹتے رہ جائیں۔اس خدشے کے پیش نظر 6نومبر 1991ء کو پنجاب حکومت نے ان تمام کوآپریٹو بنکوں کو اپنی تحویل میں لے لیا ،ان کے تمام اثاثہ جات پر قبضہ کر لیا گیا تاکہ ان اِملاک اور اثاثہ جات کو فروخت کرکے متاثرین کو ادائیگیاں کی جا سکیں۔ ان پراپرٹیز کو چند ماہ میں فروخت کرکے کھاتہ داروں کو ان کی رقوم ادا کرنے کے لئے حکومت نے پنجاب کوآپریٹو بورڈ فار لکویڈیشن بنایا۔توقع تو یہ تھی کہ مخصوص مدت میں اپنا ٹاسک مکمل کرنے کے بعد یہ بورڈ تحلیل ہو جائے گا لیکن ایسا ہوا نہیں، اس بورڈ کو بتدریج ایک ادارے کی شکل دیدی گئی ،کھانچے کھل گئے اور آج 25سال بعد بھی یہ چھابہ بدستورقائم و دائم ہے ۔
پی سی بی ایل کی بہتی گنگا میں بہت سے بیوروکریٹس نے ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ جی بھر کر اشنان کیا مگر ایک افسرنے تو اس گنگا کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کا فیصلہ کرلیا ۔ایک سرکاری ریٹائرڈ افسر جنہیں دو سال کے لئے پی سی بی ایل کی ذمہ داریاں دی گئی تھیں،انہوں نے اپنی مدت ملازمت ختم ہونے سے چند روز قبل 19فروری 2016ء کو وزیراعلیٰ پنجاب کو دی گئی بریفنگ میں سبز باغ دکھایا کہ کھاتہ داروں کو تمام تر ادائیگیا ں کرنے کے بعد بھی اربوں روپے کی جائیداد بچ رہے گی اورپنجاب حکومت کو اس سے خطیر رقم حاصل ہو سکتی ہے مگر یہ کام ان کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا ۔ان کی یہ چال کامیاب رہی اور وزیراعلیٰ نے ایک سال کی توسیع دیدی ۔اس ایک سال میں مالی بے ضابطگیوں اور بدعنوانی کے نئے ریکارڈ قائم کئے گئے ۔وزیراعلیٰ کو ان معاملات کی تب بھنک پڑی جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔بہر حال گزشتہ ماہ وزیر اعلیٰ کے احکامات پر اینٹی کرپشن نے چھاپہ مار کر لکویڈیشن بورڈ کا تمام ریکارڈ قبضے میں لے لیا اور اس معاملے کی چھان بین شروع کر دی۔تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ گزشتہ برس توسیع حاصل کرنے کے لئے وزیر اعلیٰ کو جو بریفنگ دی گئی تھی اس میں بورڈ کی 177اِملاک ظاہر کی گئی تھیں جن کی مالیت کا تخمینہ 50ارب روپے (حالانکہ یہ پراپرٹیز کسی طور 100ارب روپے سے کم مالیت کی نہیں)لگایا گیا جبکہ اس کے علاوہ 108بیش قیمت پراپرٹیز ایسی ہیں جنہیں ریکارڈ پر ہی نہیں لایا گیا تاکہ انہیں اپنے من پسند افراد کو عنایت کرکے مال بنایا جا سکے۔چھپائی گئی ان پراپرٹیز کا تخمینہ 30ار ب روپے ہے۔ان میں راولپنڈی صدر کے علاقے میں 8کینال کا بیش قیمت کمرشل پلاٹ شامل ہے۔راولپنڈی میں ہی ایک ہائوسنگ سوسائٹی کی 1700کینال اراضی ہے ۔جنوبی پنجاب کے علاقے کوٹ ادد کی شہری زمین جو مارکیٹ ریٹ کے حساب سے 50لاکھ روپے مرلہ ہے ،وہاں موجود 600کینال کی پراپرٹی ریکارڈ سے غائب کرکے ہتھیانے کا منصوبہ تھا۔
اس افسر صاحب کے رشتہ دارپراپرٹی کا کام کرتے ہیں اور لاہورکے نواحی علاقے موضع جلیانہ میں 1500کینال سے زائد اراضی حال ہی میں انہیںالاٹ کی گئی ہے۔لاہور کے کمرشل زون رنگ محل میں پانی والا تالاب کے نزدیک لکویڈیشن بورڈ کے زیر انتظام ایک کمرشل پلازہ ہے جس میں 20فلیٹ اور 45دکانیں ہیں۔یہاں مارکیٹ میں چھوٹی سی دکان بھی 50000روپے ماہانہ کرائے سے کم میں نہیں ملتی اور لاکھوں روپے پگڑی یا سیکورٹی الگ سے دینا پڑتی ہے مگر بورڈ کی یہ دکانیں جس طرح الاٹ کی گئی ہیں اس پرکوڑیوں کے بھائو بیچنے کا محاورہ بھی شرماجائے۔دل تھام کر پڑھئے،ایک دکان 360روپے ماہانہ کرائے پر دی گئی ہے ،دوسری کاکرایہ 430روپے ہے،تیسری 540روپے میں دی گئی ہے اور چوتھی دکان 720روپے ماہانہ کرائے پر الاٹ کی گئی ہے۔
پی بی سی ایل میں کروڑوں نہیں اربوں روپے کی لوٹ مار ہوئی ہے ،لیکن اینٹی کرپشن کا ادارہ تب حرکت میں آیا جب وزیر اعلیٰ پنجاب نے ذاتی طور پر انکوائری کا حکم دیا ۔اس سے بھی کہیں زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ایک ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک متعلقہ افراد کو حراست میں نہیں لیا گیا۔خدشہ یہ ہے کہ اس قدر شور وغوغا ہونے کے بعد بھی شاید کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہوکیونکہ یہاں چوروں اور ٹھگوں نے ایکا کر رکھا ہے۔ اور آپ نے پنجابی کا وہ محاورہ تو سنا ہی ہو گا جس کا مفہوم یہ ہے کہ بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں۔اس لئے بھینس کے آگے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں۔مگر کیا کریں ہمارا تو کام ہی بین بجانا ہے ۔تو آئیں بین بجائیں۔

.
تازہ ترین