• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اردو میری مادری زبان ہے نہ ہی سب سے پسندیدہ۔ماں کی گود سے فیصل آباد کے لہجے میں پنجابی سیکھی جس میں والد محترم کی طرف سے گورداسپور کے لہجے کا تڑکہ لگا۔دل سے پوچھوں تو سب سے زیادہ پیا ر مجھے پنجابی زبان سے ہے جو تیزی سے معدوم ہو رہی ہے او ر باوجود دلی خواہش کے میں اسکے احیا کی کوششوں سے دستبردار ہو چکا ہوں۔ دماغ سے سوچوں تو سب سے زیادہ پیا رمجھے انگریزی زبا ن سے ہے جس کو سیکھنے کے بعد میرے اوپر دنیا جہاں کے علوم کے دروازے وا ہو گئے ۔ آئن اسٹائن سے لیکر چانکیہ تک ، تورات سے لیکرگیتا تک،وادی سوان سے لیکر موہنجو داڑو تک، بلیک ہو ل سے لیکر چند روز پہلے دریافت ہونے والے زمین کے سائز کے سات سیاروں تک ، کنوفیوشس سے لیکر ڈنگ شیائو پنگ کی چینی تاریخ تک اور جانے کس کس موضوع پر شوق مطالعہ کی پیاس بجھاتا رہا ہوں۔
دوسری طرف اردو زبان کا یہ عالم ہے کہ کوئی ڈھنگ کی کتاب ڈھونڈنا ، کوئی ڈھنگ کا خیال کھوجناجوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اردو زبان میں جو تھوڑا بہت علمی سرمایہ موجود ہے وہ تقسیم ہند سے پہلے کے زمانے کا ہے یا پھر ان لوگوں کے قلم سے وجود میں آیا جو تقسیمِ ہند سے پہلے کی پود سے تعلق رکھتے تھے۔پاکستان میں پروان چڑھنے والی نسلیں اس معاملے میں بھی تہی دامن ہیں۔ اگر ہر پاکستانی کو انگریزی زبان فر فر سکھانے کا ممکنات کی دنیا سے کوئی تعلق ہے تویہ کوشش ہمارے ہاں ستر سال سے ہو رہی ہے لیکن نتیجہ صفریا پھر زیاد ہ سے زیادہ دو چار فیصدتک نکل سکا ہے۔لیکن اس پالیسی کے ناقابلِ تلافی نقصانات ہوئے ہیں۔اول، کروڑوں لوگوں کیلئے علم و دانش کے دروازے مکمل طور پر بند ہیں۔ دوم، ہم ایک قومی شناخت سے محروم قوم کے طور پر سامنے آئے ہیں اور اسکا ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ ہماری کوئی لسانی شناخت ہی نہیں ۔ سوم، انگریزی زبان حکمران اور محکوم طبقات کے درمیان نہ صرف فاصلے کا سبب بنی ہے بلکہ یہ اس فاصلے کو برقرار رکھنے کے ایک اہم حربے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔چہارم ، حکمران طبقے کی اہلیت کا معیار قابلیت، کسی شعبے میں مہارت، اپنے کام پر دسترس وغیرہ نہیں بلکہ صرف انگریزی زبا ن کاجاننا بن چکا ہے۔پنجم، انگریزی زبان پر اصرار اور اسے سکھانے کی صلاحیت سے محروم اساتذہ کی وجہ سے کروڑوں بچے بیچ راہ ہی تعلیم چھوڑ دیتے ہیںجسکی وجہ سے یہ زبان قوم کو تعلیم یافتہ بنانے کی بجائے اسے نا خواندہ رکھنے کا سبب بن رہی ہے۔
کوئی بھی قوم انگریزی کو ہماری طرح کھانے ، پینے ، اوڑھنے، بچھونے اور پہننے کی کوشش نہیں کرتی۔ چین کی پرانی نسل تو ’’ہیلو‘‘ سے زیادہ انگریزی نہیں جانتی لیکن اس نسل نے چین کو کس طریقے سے ایک سپر پاور کے طور پر کھڑا کیا ہے ، آپ جانتے ہیں۔اگرچہ نئی نسل انگریزی اور اسکے ساتھ ساتھ فرنچ ، روسی ، جاپانی و دیگر زبانیں بھی سیکھ رہی ہے لیکن آج بھی پورے چین میں (ماسوائے ہانگ کانگ کے)آپ کو مشکل سے کوئی سائن بورڈ انگریزی میں نظر آئے گا۔یورپ میں چالیس پچاس ملک ہیں۔ اور مغربی یورپ کے لوگوں کی اکثریت انگریزی جانتی ہے لیکن تمام کے تمام ممالک میں نظامِ تعلیم، دفتری و عدالتی امور، اورسماجی زندگی کے تمام امور صرف اور صرف انکی اپنی زبانوں میں انجام پاتے ہیں۔ مجھے ہالینڈ میں کچھ عرصہ گزارنے کا موقع ملا ، بڑی مشکل سے کوئی سائن بورڈانگریزی میں نظر آتا۔ راستہ یا کوئی بات پوچھنی پڑتی تو اکثر لوگوں کو انگریزی سے واقف پایالیکن وہ انگریزی کا استعمال صرف بوقت ضرورت کر تے ہیںنہ کہ ہماری طرح فیشن کے طور پر، خود کو برتر سمجھنے یا ثابت کرنے کیلئے یا پھر مرعوبیت کی بیماری کی تسکین کیلئے ۔
زبان کے حوالے سے ہم ایک بہت بڑے بحران کا شکار ہیں ۔ اس سے نکلنے کا ایک واحد راستہ اردوزبان ہے جو نہ صرف مقامی طور پر وجود میں آئی ہے بلکہ جو ہمارے ڈی این اے کا بھی حصہ ہے ۔ اس زبان میں ہماری علاقائی زبانوں اور خطے کی دیگر زبانوں کی آمیزش ہے ۔ اردو وہ واحد زبان ہے جسے پاکستان کی غالب اکثریت نہ صرف بول اورسمجھ سکتی ہے بلکہ پڑھ اور لکھ بھی سکتی ہے۔ سماجی طور پر اردو پہلے ہی ناگزیر ہو چکی ہے(دو بڑے انگریزی ٹی وی چینلز کا ناکام ہونا اس بات کا ثبوت ہے)لیکن دفتری اور عدالتی زبان کے طور پر نافذ کرنے میں ہمارے حکمران طبقے خصوصا سول و ملٹری بیوروکریسی اور عدلیہ کے شعبے سے منسلک اشرافیہ مزاحم ہے۔ انکی مزاحمت کی ایک وجہ یہ دلیل ہے کہ انگریزی ترقی کی علامت ہے لیکن اس مزاحمت کے پیچھے ایک لاشعوری وجہ یہ ہے کہ اردو زبان نافذ ہونے سے انکی مصنوعی برتری کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ آپ سوچیں کہ اگر سی ایس ایس اور آئی ایس ایس بی کے امتحانات اردو زبان میں ہونگے تو مڈل کلاس، غریب اور انتہائی غریب طبقات کے لاکھوں قابل بچے یک لخت حکمران طبقے کے بچوں کا مقابلہ کر نے کے قابل ہو جائیں گے۔کیونکہ علم و قابلیت کے امتحان میں تو امیر غریب ہونے کی کوئی تخصیص نہیں ہے ، جو قابل ہو گا اور جو محنت کرے گا ، کامیاب ہو جائے گا۔مقابلے کے امتحان کا معیار علم و قابلیت سے زیادہ اگرانگریزی زبان میں مہارت ہو گا جو کہ اس وقت ہے اور جو سراسر غلط اور نقصان دہ ہے، تو لاکھوں قابل بچے نااہل ہو جائیں گے کہ انکو انگریزی سیکھنے کے مواقع نہ ریاست نے فراہم کئے اور نہ ہی کم وسائل کی وجہ سے و ہ خود پیدا کر سکے۔اسی طرح عدلیہ سے انگریزی کو مکمل طور پر دیس نکالا ملنا چاہئے۔ تمام عدالتی فیصلے اردو زبان میں لکھے جائیں اور تمام قوانین اردو زبان میں موجود ہوں تو تمام پاکستانی عدلیہ کے ساتھ خود کو منسلک پائیں گے۔ اس وقت یہ صورتحال ہے کہ انگریزی کی رکاوٹ کی وجہ سے اشرافیہ کا نسل در نسل عدالتی نظام پر قبضہ ہے اور ہر چیز انگریزی میں ہونے کی وجہ سے عوام کو اسکی کوئی سمجھ نہیں۔
اردو کو دفتری اور عدالتی زبان بنانے کا چیلنج بہت بڑا تھا لیکن اس پر پیش رفت اب شروع ہو چکی ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس دوست محمد کے کئی فیصلے اردو میں لکھے گئے ہیں جنہیں پڑھ کر میں خوشی سے پھولا نہ سماتا۔ اسی طرح لاہور ہائیکورٹ نے اگلا سی ایس ایس کا امتحان اردو میں کرانے کا حکم دے دیا ہے۔ سی ایس ایس افسروں میںاس فیصلے کو زیادہ پسند نہیں کیا جا رہا۔لاہور ہائیکورٹ نے یہ تاریخی فیصلہ دیا ہےجس پر اگلے سال ضرور عمل ہونا چاہئے۔لیکن اصل چیلنج ابھی بھی موجود ہے یعنی علم و دانش کے سمندر در سمندر جو انگریزی زبان میں موجود ہیں ان تک کروڑوں پاکستانیوں کی رسائی کیسے ہو۔ اسکا حل بڑا سادہ ہے جو دنیا کا ہر ملک پہلے ہی کر رہا ہے یعنی ترجمہ۔ جتنی کوشش، توانائی اور وسائل ہم انگریزی کو ٹھونسنے پر لگا رہے ہیں اگر اردو میں تراجم پر خرچ کئے جائیں تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ اگر ہم پالیسی بدل لیںتوجلد ہی وہ وقت بھی آئے گا کہ ہم یا ہمارے بچے گنگنایا کریں گے:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

.
تازہ ترین