• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے لوگ اس وقت غیریقینی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ مگر کچھ لوگ ایسے ضرور ہیں جویقین میں زندہ ہیں اور کامیاب ہیں۔ لو گ مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں کہ آپ کا رزق کہاں سے آتا ہے؟ تو میرا جواب ہوتا ہے کہ میرے رزق کی ذمہ داری میرے پالن ہار اللہ پر ہے اور مجھے یقین کامل ہے کہ میں رزق سے محروم نہیں ہوسکتا۔ بظاہر میرے ذرائع آمدنی دنیا کی نظر میں ضرور ہیں مگر ان پراعتبار کرنا لازم نہیں۔ مجھے رزق اور سکون نامعلوم ذرائع سے ملتے ہیں۔ میں اپنا رزق لوگوں کے مستقبل کی پیش بینی کرکے کماتا ہوں، وہ بھی حال کی علامتوں کو سمجھ کر۔ عام لوگوں کے لئے زندگی بہت مشکل نظر آتی ہے۔ مسائل کا دنیا میں حل ذرا دیر سے ملتاہے اور اس کی بنیادی وجہ یقین کا نہ ہونا ہے۔ ہم سب رب کو مانتے ضرور ہیں مگر رب پر یقین نہیں رکھتے۔اس معاملہ میں ہم اپنے نظریات کے بارےمیں کسی دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں اور محتاجی ہی ہم سب کو کمزور رکھتی ہے۔ پاکستان ایک ملک کی حیثیت سے بڑا کمزور نظر آ رہاہے۔ اندرون ملک خلفشار اور دہشت گردی نے پورے دیس کو بے چین اور بے کل کر رکھا ہے۔ ہم سب کا ایک شکوہ ہے کہ رب ان کی سنتا نہیں، وہ دعائیں مانگتے ہیں، خیرات دیتے ہیں، مگر دعا قبول ہونے میں دیر ہو رہی ہے اور خیرات کے باوجود وطن عزیز کمزور اور قلاش ہے۔
حالیہ دنوں میں دھماکوں اور دہشت گردی کا جو سلسلہ پاکستان کے طول و عرض میں نظر آ رہا ہے اور سندھ میں لعل شہباز قلندرؒ کے مزار پر جو حادثہ ہوا اور کافی لوگ لقمہ ٔ اجل بن گئے، ابتدا میں مرنے والوں کے لئے ایک لاکھ کی کثیررقم بطور امداد صوبہ سندھ کےوزیراعلیٰ سیدمراد علی شاہ نے منظور فرمائی مگر جیسے جیسے مرنے والوں کی تعداد بڑھتی گئی صوبہ کی نوکرشاہی کی تشویش بھی بڑھنے لگی۔ صوبہ سندھ کی خوش قسمتی کہ اس نازک موقع پر نظریہ ٔ پاکستان کے متوالوں کی جانب سے ’’مردِ حُر‘‘ کا خصوصی خطاب پانے والی شخصیت سابق صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب آصف علی زرداری سندھ میں قدم رنجہ فرما چکے تھے۔ ان کو لعل شہباز قلندرؒ سے خصوصی لگائو ہے۔ ان کو اندازہ بھی ہے کہ کتنی مہنگائی ہے۔ سو انہوں نے کمال شفقت سے اور خصوصی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے امدادی رقم ایک کروڑ کردی۔ اس کے بعدکہانی بزبان راوی کہ سندھ کی نوکرشاہی نے مرنے والوں میں اپنے لوگ بھی شامل کروا دیئے اور جو لوگ اصل میں مرگئے تھے ان کے عزیزوں پر کاغذات کی تصدیق کا قانون لاگو ہو گیا۔ بس اللہ رازق ہے کتنے لوگوں کے رزق کا انتظام کچھ لوگوں کو اوپر بلاکر کردیا۔
ادھر ہمارے پنجاب میں ایک عرصہ سکون کے بعد جو تلاطم آیا ۔پنجاب کی راجدھانی تخت لاہور کی نئی آبادی جہاں اشرافیہ رہتی ہے، وہاں ایک نوتعمیر عمارت میں دھماکہ ہوا۔ جس کی آواز تمام شہر نے سنی۔ ابتدائی اندازے کے مطابق چند لوگ مر گئے۔ زخمیوںکا اندازہ لگایا جارہا ہے۔ اس حادثہ میں عمارت کے مالک کی موت کی خبر بتائی گئی۔ مگر کوئی بھی قانونی اور حساس ادارہ اندازہ نہیں کر رہاکہ دھماکہ دہشت گردی تھی یا حادثہ۔ اسی وجہ سے وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف ابھی تک امدادی رقم کا حتمی اعلان نہیں کرسکے۔ صوبہ پنجاب کی نوکرشاہی خصوصی اختیارات کی حامل ہے اور صوبہ کے وزیراعلیٰ اس نوکرشاہی پر بہت اعتماد بھی کرتے ہیں اور اس اعتماد کی وجہ سے صوبہ کے دو اعلیٰ عہدیداروں کو تاحیات خصوصی مراعات سے نوازا جارہاہے۔ ایسا کام تخت لاہور کاکوئی ولی ہی کرسکتاہے۔ ہمارے کامیاب ترین وزیراعلیٰ پنجاب سزا اور جزا پر بہت یقین رکھتے ہیں۔کسی بھی جگہ کوئی غفلت، خرابی کا شبہ بھی ہو جائے تو کمیٹی اور کمیشن بنانے میں دیر نہیں لگتی۔ اب کمیٹی پراعتبار کچھ کم ہو گیاہے۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ صوبے میں کسی غفلت زدہ ملازم کو سزاملتی نظر نہیں آتی اس ہی وجہ سے نوکرشاہی دلیر اور شیرہے۔
پاناما کا مسئلہ ایک عرصہ سے پاکستان کی سپریم کورٹ کے پاس طے ہونے کے لئے پیش تھا۔ عدلیہ کی جانب سے اعلان بھی آیا تھا کہ اس گمبھیر اور پراسرار معاملہ کو طے کرنے کے لئے جتنا بھی وقت لگے گا اس کو استعمال کیا جائے گا۔ سابق چیف جسٹس جناب جسٹس جمالی نے ابتدائی سماعت بھی کی اورثبوت کے شواہدپررائے بھی دی مگر ان کی مدت ِ ملازمت کی وجہ سے ان کو رخصت ہونا پڑا اور مسئلہ اتنا اہم اور ضروری تھا کہ ان کو اعلان کرنا پڑا کہ اب تک اس مقدمہ میں جو کچھ ہوا وہ قابل توجہ نہیں۔ اس کے لئے نئے چیف جسٹس فیصلہ کریںگے۔ سو ایک نیا بینچ بھی بن گیا۔ فریقین نے ثبوتوں کے انبار لگا دیئے۔ یہ دنیا کی عدلیہ کی تاریخ کا حیران کن مقدمہ ہو گا جس میںثبوتوں کے بارے میں عدالت مطمئن نہیں ہے۔ ایک طرف یہ مقدمہ عدالت میں لڑا جارہا تھا دوسری طرف اس مقدمہ کے فریق عدالت کے باہر اپنی عدالت روزانہ صبح و شام لگاتے۔ صبح کی عدالت میں طرفین کے لوگ میڈیا کے سامنے پیش ہوتے اور عوام ان کی خواہشات سنتے اور شام میں میڈیاعدالت لگاتا اور وہ میڈیا کے سامنے ثبوتوں پر بات کرتے اور میڈیا ان ثبوتوں پر انصاف کرتا نظر آتا۔ شکر ہے میڈیااور فریقین نے بھی فیصلہ محفوظ ہی رکھا ہوا ہے۔
ہمارے ملک میں دہشت گردی کی جنگ میں عدالتوں کا کردار بہت اہم ہو گیاہے۔ ایک عرصہ تک فوجی عدالتوں میں کام ہوتارہا اور کچھ فیصلے بھی ہوئے، مگر جمہوری حکومت فوجی عدالتوں کے معاملہ پر مطمئن نہیں تھی۔ پھر سندھ میں سب سے خراب صورتحال ہے۔ ایک طرف ملزم ہیں اور ان کے مقدمات میں سیاسی حکومت کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے۔ اب ایک دفعہ پھر عسکری احکام کی توجہ کی وجہ سے ایک نیا آپریشن ’’رد الفساد‘‘ شروع ہوچکا ہے۔ ملک بھر میںامن وامان کی صورتحال بہت خراب ہے۔ لاہور کے حالیہ دھماکہ کے بعد افواہوں کاسلسلہ بھی دہشت گردی کرتا نظر آیااور ہمارا میڈیا بڑی غیرذمہ داری کامرتکب بھی ہوا۔ ایسے میں وزیراعظم کی کمی بڑی شدت سے محسوس کی گئی۔شکر ہے سپریم کورٹ نے پاناما کامقدمہ مکمل سن تو لیا۔ فیصلہ میں کچھ تاخیر ہے بس کچھ باعث تاخیر بھی ہوگا۔ میں نے شروع میں سندھ میں لعل شہباز قلندرؒ کی خانقاہ پر دھماکہ کا ذکر کیا تھا اور اس پر اردو کی نامور مصنفہ آمنہ مفتی نےکالم ’’پانچواں چراغ‘‘بھی لکھا اور خوب لکھا۔ اس کالم میں روحانیت کا تڑکہ بھی ہے اور تاریخ کا نوحہ بھی جو قابل توجہ ہے۔ ان کی تحریر کے یہ جملے ’’بس ایسا ہے کہ محل نہیں رہے، ایوان بھی نہیں رہیں گے، جانے قیامت کتنی دور ٹھہری ہے، دیکھنا کوئی سرمد سیڑھیاں نہ چڑھ جائے‘‘ ۔
میری پیاری صاحب ِ تحریر تو آج کے سرمد کو نہیں جانتی اس کو تو دنیا پہچانتی ہے۔ سرمد لباس سے آزاد تھا اور اس کو پروا بھی نہیں تھی۔ سو آج کے حکمران بھی دولت اوراختیار کے صوفی اور ملنگ ہیں۔ ان کو بھی پروا نہیں کہ قاضی کیاکہتا ہے؟ من کی مانتے ہیںاور من میں سب کچھ رکھتے ہیں۔ سو ایسے عذاب اور ثواب کی کس کو فکر؟ اس اندھیرے میں عام و خاص کو فقط روشنی کی تلاش ہے۔ اب روشنی کاکیاکروں۔عرصہ پہلے ایک شاعر جاوید شاہین نے لکھا تھا سو وہ قابل غور ہے؎
ایک روشنی بے حد شفاف
بیمار روشنیوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی
رہائی کی کوشش میں مصروف
امید کے زینےپر کھڑی، مجھے د یکھتی ہے
میری طرف سرکتی ہے، اپنا ہاتھ میری طرف بڑھاتی ہے
لیکن پھیل کر اندھیروں میں گر جاتی ہے
اندھی روشنی
میرے مفلوج ہاتھ دیکھنے سے معذور روشنی
پوری قوم معذور ہے۔ سورج کی روشنی میں بھی چراغ جلا کر راستہ تلاش کرنا انہی کا کام ہے اور ان کو اسی کام میں لگا رہنے دو۔

.
تازہ ترین