• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طالبان سے مذاکرات اور آپریشن ردالفسادتک ایک ایسی کہانی کے اوراق بکھرے پڑے ہیں جو نہ جانے کب اور کہاں ختم ہو گی اور ہم پورے اطمینان قلب کیساتھ کہہ سکیں گے کہ پاکستان دہشت گردی سے مکمل طور پر پاک ہو گیا ہے۔ یوں تو اس عفریت کا سلسلہ نائن الیون سے جڑا ہے اور پاکستان کو اسکا نشانہ بنے اب سولہ برس سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے، لیکن اس مسئلے کی طرف نہ پرویز مشرف نے آنکھ اٹھا کر دیکھا نہ پیپلز پارٹی نے کوئی ضرورت محسوس کی۔ سوات میں ایک محدود کارروائی کے سوا تیرہ برس تک دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے نہ کوئی حکمت عملی بنائی گئی ،نہ کوئی منصوبہ بندی کی گئی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اس معاملے کو ایک بڑی ترجیح کے طور پر لیا۔ جون 2013 میں حکومت سنبھالنے کے بعد انہوں نے دہشت گردی کے خاتمے کا عزم کیا۔پس پردہ کی ابتدائی کاوشوں کے بعد مارچ 2014 میں طالبان سے مذاکرات کیلئے ایک کمیٹی قائم کی۔ بات چیت کا سلسلہ پہلی بار شروع ہوا۔ دستاویزات کا تبادلہ بھی ہوا، لیکن طالبان گروپس میں نا اتفاقی اور بے لچک رویے کے باعث مذاکرات کا یہ سلسلہ کامیاب نہ ہو سکا۔ تاہم اتنا ضرور ہواکہ قوم میں یکجہتی آگئی اوریہ بیانیہ قبول کر لیا گیا کہ یہ ہماری جنگ ہے جسے جیتنے کیلئے ہمیں طاقت استعمال کرنا ہو گی۔ 8 جون 2014 کو دہشت گردوں نے قائد اعظم انٹر نیشنل ائیر پورٹ کراچی پر حملہ کر کے 28 افراد کو شہید کر دیا۔ اسکے کوئی ہفتہ بعد مسلح افواج نے حکومت کی ہدایت پر آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا۔ اس آپریشن کا نشانہ وہ قبائلی علاقے بنے،جنہیں دہشت گرداپنی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ یہ آپریشن بڑی حد تک کامیاب رہا۔ دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑ دیا گیا۔ انکی پناہ گاہیں اور تربیت گاہیں ختم کر دی گئیں۔ سینکڑوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ کچھ سرحد پار کر کے افغانستان میں پناہ گزین ہو گئے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں طور پر کمی آنے لگی۔
ابھی اس آپریشن کو شروع ہوئے چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ پشاور کاآرمی پبلک اسکول ایک بھیانک دہشت گردانہ کارروائی کا نشانہ بنا۔ عرب،ازبک اور افغان دہشت گردوں کے ایک گروپ نے اسکول پر حملہ کیا۔ 145 افراد خون میں نہا گئے، جن میں اسکول کے 145 معصوم بچے بھی شامل تھے ۔ اس بھیانک واردات نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ مطالبہ شدت سے ابھرا کہ دہشت گردی کا مکمل قلع قمع کرنے کے لئے جامع حکمت عملی بنائی جائے۔ حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا۔ اتفاق رائے سے ایک بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی گئی۔ اس ایکشن پلان کا سب سے اہم نکتہ ایسی فوجی عدالتوں کا قیام تھا جو تیز رفتار سماعت کر کے مجرموں کو سزا سنا سکیں۔ وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا۔ فوجی عدالتوں کو دستوری جواز دینے کے لئے اکیسویں آئینی ترمیم کی گئی۔ دو سال کیلئے فوجی عدالتیں قائم کر دی گئیں ،جن کی میعاد اس ماہ ختم ہو گئی۔ فوجی عدالتو ں کے پھر سے قیام کیلئے سیاسی جماعتوں کی مشاورت جاری ہے۔ امکان یہی ہے کہ اس معاملے میں اتفاق رائے ہو جائے گا اور دو یا تین سال کے لئے فوجی عدالتیں قائم ہو جائیں گی۔ لیکن سہون میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر دہشت گردانہ کارروائی نے ایک بار پھر یہ احساس دلایاکہ شاید آپریشن ضرب عضب کے ڈھائی سال بعد دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ انہی دنوں لاہور میں پے درپے دو بم دھماکے ہوئے۔ سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان بھی نشانہ بنے۔ وزیر اعظم نے قومی سلامتی کے حوالے سے کئی مشاورتی اجلا س بلائے ، جن میں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور ایجنسیوں کے سربراہوں نے بھی شرکت کی۔ غالبا محسوس کیا گیا کہ پورے ملک میں ایک ایسے آپریشن کی ضرورت ہے جو دہشت گردوں کی جڑیں کاٹ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا بھی جائزہ لیا گیا اور یقینا یہ تاثر ابھرا کہ اس آپریشن پر نہ تو بھرپور طریقے سے عمل کیا جا سکا اور نہ اس سے مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکے۔
آپریشن ردالفساد کے بارے میں آئی ایس پی آر کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اسکا طرہ امتیاز ہو گا۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید وہ سرکاری ا دارے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے اپنا کردار ادا نہیں کر سکے، جنکی یہ ذمہ داری تھی۔ مثال کے طور پر اس پلان میں کہا گیا تھا کہ نفرت انگیز مواد کی تشہیر کو سختی سے روکا جائے گا۔ یہ سختی کہیں نظر نہیں آتی۔ کسی قابل ذکر رسالے ، کسی اخبار، کسی چینل کے خلاف اس جرم میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ بلکہ کچھ نام نہاد اینکرز تو کھلے بندو ں نفرتوں کی آگ بھڑکاتے اور قتل و غارتگری کی تلقین کرتے رہے۔ اسی طرح دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لئے بھی کوئی موثر اقدامات سامنے نہیں آئے۔ افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کا کام آج تک مکمل نہیں ہو سکا۔ پلان میں خاص طور پر پنجاب میں کارروائیوں کا ذکر کیا گیاتھا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ ایک شق میں کہا گیا تھا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو جگہ دیں ۔ لیکن کیا ایسا ہوا؟دینی مدارس کی انتظام کاری اور رجسٹریشن کا کام ابھی تک ادھورا ہے۔ نیشنل کاونٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کا کوئی وجود ہی نظر نہیں آرہا۔ اسی طرح نیشنل ایکشن پلان کے بیشتر دیگر نکات بھی عمل کا روپ اختیار نہیں کر سکے۔
ابھی تک یہ تو واضح نہیں ہوا کہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد میں بنیادی طور پر کیا فرق ہو گا۔ لیکن اندازہ یہی ہے کہ ضرب عضب دہشت گردوں کے مراکز کے خلاف عسکری کارروائیاں جاری رکھے گا اور اسکا مرکز غالبا پاک افغان سرحدی علاقے ہونگے۔ جبکہ ردالفساد کا دائرہ پورے ملک پر محیط ہو گا ۔ یہ صرف عسکری کارروائی نہیں ہو گا بلکہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد بھی اسکی ذمہ داریوں کا حصہ ہو گا۔ ضرورت بھی اسی امر کی ہے کہ ایکشن پلان کے ہر نکتے کے ایک ایک حر ف پر عمل کیا جائے۔ آپریشن ضرب عضب پوری شدت سے جاری رہنا چاہئے لیکن رد الفساد کو اپنی توجہ نیشنل ایکشن پلان پر مرکوز رکھنی چاہئے۔ بہتر ہو کہ رد الفساد ، میڈیا کے ذریعے ، پوری سول سوسائٹی کو متحرک کرے۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے سب سے اہم کردار سول سوسائٹی کا ہونا چاہئے ۔لیکن حیرت کی بات ہے آج تک اس پہلو پر توجہ نہیں دی گئی۔

.
تازہ ترین