• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے نہیں معلوم کہ جناب وزیراعظم نواز شریف نے یہ بیان کیوں دیا ہے کہ انہوں نے گزشتہ الیکشن میں ووٹ بھارت سے دوستی کےنام پر لئے تھے۔ یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے نواز شریف صاحب کو ووٹ بھارت سے دوستی کے نام پر دیئے؟ ایسا لگتا ہے کہ یا تو وہ اپنے ووٹ دینے والوں کا مذاق اڑا رہےہیں اور یا پھر پاکستانی عوام کی اکثریت کی توہین کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ بھارت سے ہمیشہ دوستی کے خواہاں رہے ہیں۔ وہی بھارت جو کشمیر میں موجود مسلمانوں پر زندگی تنگ کئے ہوئے ہے، اس کی بربریت کی داستانیں سن سن کر ہمارے دل ہول جاتے ہیں،جو پاکستانی منصوبے سی پیک کا دشمن ہے، جس نے افغانستان میں پاکستان دشمنوں کاجال بچھایا ہواہے، جو بلوچستان میں امن دشمن عناصر کو امداد دیتا ہے، اسی بھارت سے وزیراعظم صاحب دوستی کے خواہاں ہیں۔
اس بیان میں مضمر شاید یہ حقیقت ہوکہ نوازشریف صاحب ہمیشہ سے ہندوستان سے تجارت کے خواہاں رہے ہیں۔2013میں ان کے انتخاب کے چند سال بعد تک کے بیانات جو انہوں نے دیئے اور ان کے وزیرانِ باکمال اس کی تائید کرتے رہے، اس بات کے شاہد ہیں کہ وزیراعظم صاحب ہر صورت میں ہندوستان سےتجارت کے لئے ہر طرح کے اقدامات کرنے کے لئے تیار تھے لیکن سیکورٹی ایجنسیوں نے ان کے اس طرح کے اقدامات کو روکا۔ ان کے ایک وزیر باتدبیر خرم دستگیر کے ہندوستان کے دوروں اوروہاں پر ان کے تاجروں سے ہونے والے مذاکرات سب کے سامنے ہیں۔ اس حوالے سے شاید نواز شریف صاحب مودی کی دوستی میںاپنی کشمیر پالیسی پر بھی نظرثانی کرنے کو تیار ہو جاتے۔ مودی کی تقریب حلف برداری میںانہوں نے شرکت کی۔ مودی کو لاہور یاترا کروائی اورہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گویا اس عزم کااعادہ کیاکہ وہ اور مودی بھائی بھائی ہیں۔
مودی صاحب جو پاکستان کے عوام کو پانی کی ایک ایک بوند کے لئے ترسانا چاہتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اب پانی پاکستان نہیں جانے دیا جائے گا ، جنہوں نے ہندوستان میں اپنی ہٹ دھرمی اور ہندوتوا کو نوازنے کی پالیسیوں سے ہندوستان میںرہنے والے مسلمانوں کو دوسرے درجے کاشہری بنا دیا ہے، اسی مودی کے ساتھ نوازشریف اب پھر دوستی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ ہندوستان جو اسرائیل کا دوست ہے اور اس کی مدد سے ابھی حال ہی میں ہندوستان نے میزائلوں کاایک نیا نظام ترتیب دینے کا اعلان کیاہے، اسی مودی کو نوازشریف صاحب اپنا دوست کہتے ہیں۔
جہاں بات تجارت کی ہوتی ہے تو وہاں ذرا اس رپورٹ پر بھی نظر ڈالیں کہ ہندوستان سے دوستی میں وزیراعظم صاحب کے مراعات یافتہ تاجروں نے پاکستان کو اس تجارت کے میدان میں پچھلے دس برس میں کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ عامر نوید چوہدری لکھتے ہیں کہ گزشتہ دس برس کے دوران پاکستان کو بھارت سے تجارت میں 14ارب روپے سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ جنوری 2006سے دسمبر 2016تک پاکستان اور بھارت کے درمیان مجموعی طور پر 22ارب 15کروڑ 90لاکھ ڈالر کی تجارت ہوئی۔ پاکستان نے بھارت سے 18ارب 26کروڑ 30لاکھ ڈالر کی اشیا درآمد کیں۔ یہ سب کچھ حکومت کی طرف سے بہتر منصوبہ بندی نہ ہونے اور بھارت کی نان ٹیرف پابندیوں کے باعث ہوااور پاکستان کو مسلسل خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ بھارت نے پاکستان سے تیار مصنوعات کی بجائے خام مال کی درآمد کو اپنی ترجیح بنایاجبکہ پاکستان بھارت سے خام مال کی بجائے تیار سامان درآمد کرتا ہے۔ بھارت نے پاکستان سے درآمدات پر نان ٹیرف پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ ساتھ ہی انٹلیکچول پراپرٹی رائٹس کا بھی نفاذ کر رکھا ہے جس سے پاکستان برآمدکنندگان کو شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھارتی درآمد و برآمدکنندگان کو ہر طرح کی سہولتیں دی جاتی ہیں جس سے دو طرفہ تجارت میں پاکستان کا خسارہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اس سے بھارت پاکستانی مارکیٹ میں اپنے شیئر میں بتدریج اضافہ کرتا چلا جارہا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان 2006 میں مجموعی طور پر 369 ملین ڈالر کی تجارت ہوئی۔ پاکستان نے بھارت سے 689 ملین ڈالر کی اشیا منگوائیں اور صرف 180ملین ڈالر کی اشیا برآمد کیں۔ اس طرح پاکستان نے 510 ملین ڈالر کا نقصان اٹھایا۔ 2015-16میں تجارت کا یہ حجم 2612 ملین ڈالر تک پہنچ گیا۔
جس میں پاکستان نے بھارت سے 2171ملین ڈالر کی اشیا برآمد کیں اور صرف 44 ملین ڈالر کی اشیا بھارت کو برآمد کیں۔ اس طرح 10برس میں یہ تجارتی خسارہ 510ملین ڈالر سے بڑھ کر 1730 ملین ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس صورتحال سے بھارتی تو یقیناً خوش ہوں گے لیکن پاکستانی تاجر خوش نہیں ہیں، خاص طور پر اس لئے بھی کہ بھارت سے جو اشیا اسمگل ہو کر پاکستان کی مارکیٹوں میں پہنچی ہیں اس کی تعداد کا کسی کو اندازہ ہی نہیں۔ بھارت کو اس ساری صورتحال سے یقیناً فائدہ ہی فائدہ ہے۔ ایک طرف تو وہ پاکستان کو تجارت کے اس میدان میں پچھاڑ رہا ہے اور نقصان پہنچا رہا ہے دوسری طرف ہمارے ملک میں دہشت گردی کا جال بچھا رہا ہے۔ تو کیا اس بھارت سے دوستی کے نام پر نوازشریف صاحب نے ووٹ لئے تھے؟ یہ سوال آپ سب کے اور ہم سب کے سوچنے کا ہے۔ آیئے ذرا جون ایلیا کی ایک خوبصورت نظم پر بھی نظر دوڑاتے ہیں؎
تومیرا حوصلہ تو دیکھ
داد تو دے مجھے کہ اب ....
شوق کمال بھی نہیں،
خوف زوال بھی نہیں
میں بھی بہت عجیب ہوں،
اتنا عجیب ہوں کہ بس .....
خود کو تباہ کر لیا
اور ملال بھی نہیں.....



.
تازہ ترین