• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
22 فروری 2017، پاکستان عوامی تحریک کے زیراہتمام ایک قومی کانفرنس منعقد ہوئی، پاکستان (ق) لیگ سے ظہیر الدین چوہدری، پاکستان تحریک انصاف سے چوہدری سرور، جماعت اسلامی سے لیاقت بلوچ، پاکستان پیپلز پارٹی سے میاں منظور وٹو، سنی اتحاد کونسل سے صاحبزادہ حامد رضا، وحدت المسلمین، عوامی لیگ، آل پاکستان مسلم لیگ سے ریاض فتیانہ نے اس میں شرکت کی، پریس ریلیز کے مطابق، ’’کانفرنس میں 30کے قریب جماعتیں شریک ہوئیں‘‘!
متذکرہ قومی کانفرنس میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی۔ قرارداد کے مطالبات کا خلاصہ یہ تھا!
....oقومی کانفرنس چارسدہ کچہری، سانحہ مال روڈ لاہور، سانحہ سیہون شریف سمیت حالیہ خودکش حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ بے گناہ شہریوں کے قاتلوں، سانحہ میں ملوث عناصر، ان کے ماسٹرمائنڈز اور سہولت کاروں کو گرفتار کر کے عبرتناک سزائیں دی جائیں، کانفرنس سانحات کے شہدا کے ورثا سے دلی ہمدردی کا اظہار اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لئے دعاگو ہے۔
....o کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ پنجاب میں رینجرز کا بلاتاخیر اور بلاتمیز ہر ضلع میں آپریشن کیا جائے اور دہشت گردوں ، ان کے سہولت کاروں اور ان کی آخری پناہ گاہ کے خاتمے تک آپریشن جاری رکھا جائے، رینجرز کو مکمل اختیار اور وسائل کے ساتھ آپریشن کی اجازت دی جائے۔
....oکانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ وطن عزیز سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے قومی اتفاق رائے کے ساتھ منظور کئے جانے والے قومی ایکشن پلان کے ہر جز پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کیا جائے اور ان کی عسکری و فکری کمین گاہوں کا خاتمہ کیا جائے۔ سانحہ ماڈل ٹائون، پاناما کیس اور ڈان لیکس کے حوالوں سے مطالبات کو بھی قرارداد کا حصہ بنایا گیا۔
پاکستان عوامی تحریک کےسربراہ ڈاکٹر طاہر القادری قومی سیاست کے گزشتہ چار پانچ برسوں میں متعدد قابل ذکر اور سنسنی خیز مراحل سے گزر چکے ہیں۔ پاکستان کے عوام نے مجموعی طور پر انہیں کس قدر رسپانس دیا، ان کے نظریہ انقلاب سے کس حد تک متفق ہوئے؟ دوسری قومی سیاسی جماعتوں نے کہاں تک ان کا ساتھ دیا؟ قومی سیاست کی بیلنس شیٹ میں ان کے ہاتھ کیا کچھ آیا یا جتنا کچھ پہلے موجود تھا وہ بھی ہاتھ سے گیا؟ پاکستان کے عوام اب ان کی تقاریر، افکار اور پروگراموں پر عمل درآمد کے تناظر میں دو تین برس پہلے کی طرح متوجہ ہو جاتے ہیں؟ اب بھی ان کی وہی کیفیت ہے یا اس میں مکمل تعطل پیدا ہو چکا ہے؟ جمہوری تسلسل کے باعث آئندہ قومی انتخابات کے قریب تر آنے کے امکانات نے ڈاکٹر طاہر القادری کا کوئی چند فی صد اسکوپ بھی باقی رہنے دیا ہے یا نہیں؟ پاکستانی عوام کی بہت بھاری اکثریت جس سیاسی عمل کی عادی ہے یا اس کی جوتاریخ ہے، اس میں مذہبی جذباتیت پر مبنی بلند آہنگی کوئی کردار ادا کرسکتی ہے؟ اس تناظر میں ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی جماعت کے دامن کی صورت حال کس قسم کا منظر نامہ آن ریکارڈ لاتی ہے؟ ڈاکٹر صاحب کی لیڈر شپ میں ان کے زبان و بیان کی شدت کو اب پاکستانی عوام مستقل قدر کے طور پر لیتے ہیں یا کسی لمحہ موجود کا ایسا ردعمل سمجھتے ہیں جس میں وقتی شدت تو انتہا کی ہوسکتی ہے البتہ اس کا وجود مستقل بالذات نہیں ہے؟ ڈاکٹر صاحب قومی سیاست کے متوقع قومی انتخابات میں کوئی کردار ادا کرنا چاہیں گے، ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں یا ’’سیٹ ایڈجسٹمنٹ‘‘ کی امید کے سوا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا اور ’’سیٹ ایڈجسٹمنٹ‘‘ کی سیاسی ترکیب میں کیاوہ کبھی کسی بھی لحاظ سے کسی بارگینگ پوزیشن میں رہے یا اب ہیں؟ کیا ڈاکٹر طاہر القادری کی شخصیت اور ان کی جماعت، متوقع قومی انتخابات کے بعد، اپنی موجودگی کا اتنا احساس بھی قوم کو دلا سکیں گے جتنا اب اس وقت، کبھی کسی پریس کانفرنس، کبھی کسی ٹی وی انٹرویو یا کبھی متعدد سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی صورت میں دلا دیتے ہیں؟ کیا ریاست پاکستان کے موجودہ جمہوری پارلیمانی نظام کو، تمام تر خامیوں کے باوجود، ڈاکٹر صاحب عوامی میدان میں چیلنج کر سکے اور کیا عوام نے ان کے اس چیلنج پر عملاً کوئی دھیان دیا؟ دونوں دھرنوں میں کیا وہ دل پر ہاتھ رکھ کر ’’عوام کی شمولیت‘‘ کا کوئی دعویٰ کرسکتے ہیں؟ ڈاکٹر طاہرالقادری بیرون ملک قیام کے تقاضوں، تصنیف و تحقیق کی بے پناہ مصروفیات اور قومی سیاست کے شب و روز کے حد درجہ بھاری معاملات کو نبھانے یا سلجھانے کی مشغولیت، دونوں میں توازن برقرار رکھ سکتے ہیں؟کیا ڈاکٹرطاہر القادری اپنے پیروکاروں اور عقیدت مندوں کو اس انقلابی طریق کار کا جواز پیش کرسکتے ہیں جس کے لئے انہوں نے دھرنوں کا وہ راستہ اختیار کیا، چاہے آ پ کی سیاسی قلبی کیفیت کوئی بھی صدا دے رہی ہو، مگر اس راستے کو اخلاص کے پلڑے میں ڈالنے کے بعد بھی اسے سیاسی عمل کا کوئی پیداواری عنصر ثابت کیا جاسکتا ہے؟ کیا ڈاکٹر طاہر القادری، تیسری بار منتخب شدہ وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کو عوامی میدان میں کسی بھی زاویہ فکر سے ایک قدم بھی Back foot پر لے جاسکے؟ کیا مستقبل میں وہ ’’سیاسی ایڈجسٹمنٹ‘‘ کی سیاسی ترکیب کی کوشش کر بھی لیں، تب بھی اور تو اور کیا عمران خان، پیپلز پارٹی اور ’’ق‘‘ لیگ پر وہ انحصار کرسکتے ہیں یا وہ ان کی حقیقی سیاسی پوزیشن کے تجزیاتی حساب کتاب کے بعد انہیں مسکراہٹوں کے علاوہ کوئی کسی انتخابی نشست یا نشستوں کی آفر کریں گے؟ خود ڈاکٹر صاحب کی اپنی ندائے وجدان کیا کہتی ہے؟
چلتے چلتے ذہنی افق سے پرے جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ کہ زندگی بے حد پیچیدہ ہے، ہم انسانوں کے رویوں کی تاریخ اور داستان حیرت اور تنوع سے لبالب بھری ہوئی، یہی تسلسل جاری ہے، اس ساعت تک جب بگل بجے گا، پھر کہیں جا کے فیصلے کی گھڑی شروع ہوگی، اب یہی دیکھ لو، ہم میں سے کون ہے جسے بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری، نوازشریف، اسحاق ڈار، خواجہ آصف، چوہدری برادران اور بیوروکریٹس سمیت غیر ملکوں میں ان کی دولت کے انباروں کی کہانیوں سے حد سے زیادہ دلچسپی نہ ہو، پہلے ان کی کہانیوں سے پرنٹ میڈیا کا پیٹ بھرتا تھا اب الیکٹرانک میڈیا کی بھوک اور پیاس کے لئے بھی یہی کہانیاں تیر بہدف شفا کا کام دیتی ہیں، ان میں کتنی سچائی ہے، کیسی قانونی پوزیشن ہے، زمینی حقائق کیا ہیں؟ یہ حقائق جائیں بھاڑ میں، ہمارے کلام اور کام و دہن کے لذیز ترین مشغلے کی یہ خوراک کم نہیں ہونی چاہئے، بڑی شخصیتوں کے بارے میں پراسرار خبروں سے ہماری سنسنی خیزی کی ضرورت پوری ہوتی ہے، دانشوروں کی اکثریت کے چہرے باغ کی سیر سے نہیں اس تھرتھراہٹ کے ٹماٹر سے چقندر رہتے ہیں، اب تو خیر اس شے کی دستیابی میں کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مشق ستم کو کیسے زوال آسکتا ہے؟ کیا ڈاکٹر طاہرالقادری کا ’’نظریہ انقلاب، ایسے ژولیدہ فکر اور ژولیدہ عمل معاشرے میں جگہ پاسکتا ہے؟ پھر خصوصاً اس پس منظر میں جس کے مطابق برصغیر میں ’’انقلاب‘‘ کبھی نہیں آیا، ہمیشہ ’’ارتقا‘‘ ہوا ہے اور نامکمل تیاریوں کے ساتھ ایسی جدوجہد ہمیشہ افسوسناک نتائج سے دوچار ہوئی، پاکستان بھی اسی برصغیر کا حصہ ہے!
راقم کو اچھی طرح یاد ہے، ضرورت سے زیادہ اچھی طرح، دھرنے کے دنوں میں ڈاکٹر صاحب نے مثالی محنت اور ابلاغ سے پاکستانیوں کو ’’آئین پاکستان‘‘ میں دیئے گئے ان کے بنیادی حقوق کی نہ صرف تعلیم دی، یاد دہانی کرائی بلکہ ازبرکرا دیا، کاش! وہ قومی سیاست میں ’’صبر، انتظار اور تسلسل‘‘ کا زاد راہ اپناتے، بہرطور ڈاکٹر طاہر القادری، راقم سے کہیں زیادہ صاحب علم ہیں، ہمارے پاس تو سوالات کا ایک ڈھیر تھا، ان کی خدمت میں پیش کردیا گیا ۔



.
تازہ ترین