• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دُنیا کے21ممالک کی سرکاری زبان اسپینش ہے، 570ملین لوگ اس زبان میں بات کرتے ہیں اسی لئے اسپینش کو دُنیا کی تیسری بڑی زبان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اُن اکیس ممالک میں شامل شمالی یا سینٹرل امریکہ کا ملک ’’پاناما‘‘ جس کی آبادی 3.9ملین ہے وہاں 2006 میں چالیس افراد کھانسی کی دوائی استعمال کرنے سے ہلاک ہوگئے۔ پاناما حکومت نے تحقیقات کیں تو پتا چلا کہ یہ دوائی چین سے درآمد کی گئی تھی۔ پاناما حکومت نے چین کے سفیر کو طلب کر لیا، سفیر نے اس معاملے کی ای میل اپنی حکومت کو کر دی، چین میں اس معاملے کی تحقیقات شروع ہو گئیں، جس سے ثابت ہو اکہ یہاں کی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی میں ایک’’ ژینگ ژیانو ‘‘نامی کرپٹ ڈائریکٹر تھا جس نے کئی دوا ساز کمپنیوں کو ساڑھے آٹھ لاکھ ڈالرز رشوت لے کر دو درجن ادویات کو بیچنے کی اجازت دی تھی اور وہ کھانسی کی دوائی اُن ادویات میں شامل تھی۔ ’’ژینگ ژیانو‘‘ اُس وقت تک ریٹائرڈ ہو چکا تھا لیکن پولیس نے اُس ڈائریکٹر کو گرفتار کر لیا۔ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ ’’ژین زونگ‘‘ نامی ایک اور ڈائریکٹر بھی اس مکروہ دھندے میں شامل تھا وہ بھی غیر معیاری ادویات کو پاس کرتا اور بیچنے کی منظوری دیتا رہا تھا، اُسے بھی گرفتار کر لیا گیا۔ چند ہفتوں کی تفتیش میں دونوں مجرم ثابت ہوگئے،عدالت میںکیس پیش کر دیا گیا، عدالت نے مئی میں ژینگ اور جولائی 2007میں ژین کو سزائے موت سنا دی۔ ژینگ نے سزائے موت کے خلاف اپیل کی جس میں اُس نے اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے کہا کہ میری اجازت شدہ دوائی سے کوئی چینی باشندہ ہلاک نہیں ہوا اور میرے خلاف کوئی چینی مدعی بھی موجود نہیں، لہٰذا میرے جرم کے مقابلے میں میری سزا زیادہ ہے میرے ساتھ رعایت کی جائے۔ دو ہفتے میں عدالت نے اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے اُسے مسترد کر دیا، جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ مجرم نہ صرف انسانی جانوں کا قاتل ہے بلکہ اس کی وجہ سے پوری دُنیا میں چین کی بدنامی ہوئی ہے اس لئے یہ درندہ صفت انسان کسی قسم کی رعایت کے قابل نہیں۔ ژینگ کو 10جولائی 2007کو اور ژین کو اُس کے تین ہفتے بعد گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ کیس جتنا عرصہ چلتا رہا چینی میڈیا پاناما‘ ادویات اور فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹرز کی خبریں شائع کرتا رہا یوں’’پاناما‘‘ میں چائنا کی عدالتوں کا انصاف اور چائنا میں ’’پاناما‘‘ خاصا مقبول ہو گیا۔ آپ اس کیس کا کمال دیکھئے کہ اگریہ دونوں مجرم ’’پاناما‘‘ کے شہری ہوتے تو انہیں موت کی سزا نہیں ملنی تھی‘ انہیں زیادہ سے زیادہ دس برس کیلئے جیل بھجوا دیا جاتا یا پھر ان کی جائیداد ضبط کر لی جاتی لیکن چین نے دس ہزار کلو میٹر دور ایک دوسرے ملک میں ادویات کے استعمال سے مرنے والے لوگوں کے بدلے اپنے دو ریٹائرڈ افسروں کو سزائے موت دے دی کیوںکہ وہ دونوں اپنے ملک کی بدنامی کا باعث بنے تھے۔ 13جنوری 2017کو پاکستان کے دل ’’لاہور‘‘ میں ایف آئی اے کا ایک صحت مند اسسٹنٹ ڈائریکٹر جعلی مریض بن کر میو اسپتال کے شعبہ امراض قلب میں جاتا ہے، ایف آئی اے کو اطلاع ملی تھی کہ اس اسپتال میں دل کے مریضوں کو جعلی اسٹنٹ ڈالے جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں نے چیک اپ کیا اور صحت مند آفیسر کو دل کا مریض ثابت کر دیا اورا سٹنٹ ڈلوانے کا مشورہ دیا گیا۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر میو اسپتال سے پرائیویٹ کلینک گیا‘ جہاں کلینک کی مشینوں نے اسے مکمل صحت مند قرار دے دیا۔ ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کیں‘ پتا چلا کہ اسپتال میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کا ایک گینگ کام کر رہا ہے‘ گینگ میں کچھ پروفیسرز بھی شامل ہیں‘ یہ لوگ مریضوں کو جعلی اسٹنٹ لگاتے ہیں‘ اسپتال کو ایک کمپنی جعلی اور غیر معیاری اسٹنٹ فراہم کرتی ہے‘ یہ اسٹنٹ چھ ہزار روپے کا خریدا جاتا ہے جبکہ مریض سے اسٹنٹ کے دو لاکھ روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ پروفیسروں نے اسٹنٹ فراہم کرنے والی کمپنی کو اسپتال میں باقاعدہ کمرہ دے رکھا ہے‘ ایف آئی اے نے اس کمرے پر چھاپہ مارا اور چار کروڑ روپے مالیت کے غیر معیاری اور جعلی اسٹنٹ برآمد کر لئے‘ ان اسٹنٹس پر کسی کمپنی کا نام چھپا تھا اور نہ ہی میعاد ختم ہونے کی تاریخ درج تھی تحقیق میں یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ دھندہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ سفاک گروہ ہزاروں مریضوں کو جعلی اور غیر معیاری اسٹنٹ لگا چکا تھا‘ یہ جعل ساز صحت مند لوگوں کو بھی مریض ڈکلیئر کر کے انہیں اسٹنٹ لگا دیتے ہیں اور وہ بے چارہ صحت مند شخص پوری زندگی دل کی تقویت کی ادویات استعمال کرتا رہتا ہے۔ تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ کام صرف ایک اسپتال تک محدود نہیں بلکہ پاکستان میں ایسے درجنوں اسپتال ہیں جہاں برسوں سے یہ دھندہ جاری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے حکومتی نمائندے سی پیک منصوبے میں چائنا کی سرمایہ کاری کا ڈھول بجاتے ہیں یا کہ چائنا میں ہونے والے انصاف کی نقالی کرتے ہیں، پاکستان میں رہنے والے اور سمندر پار پاکستانی اسپتالوں میں ہونے والی ایسی بد عنوانیوں اور انسانیت سوز سلوک پر سخت برہم ہیں،پہلے دہشت گردی کی وجہ سے اوورسیز پاکستانی اپنے وطن جانے سے ڈرتے تھے لیکن اب چند مسیحاؤں کے گھنائونے فعل نے انہیں دہشت گردی سے بڑے ڈر میں مبتلا کر دیا ہے،سب اس انتظار میں ہیں کہ انسانی جانوں سے کھیلنے والے دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ جعلی ادویات اور جعلی اسٹنٹ بیچنے اور صحت مند شخص کو مریض ثابت کرنے والوں کو کیفر کردار تک کب پہنچایا جائے گا۔ کیونکہ اگر انہیں سزا ملی تو ہی تارکین وطن پاکستانیوں کا اپنے وطن نہ آنے کا ڈر اور خوف ختم ہوگا۔ آپ یقین کیجئے چین نے اب تک ژینگ ژیانو اور ژین ژونگ جیسے صرف دس لوگوں کو سزائے موت دی ہے جس کے بعد وہاں کسی نے دوائی اور خوراک میں ملاوٹ اور مضر صحت اشیاء کو بیچنے کی اجازت دینے کی جرات نہیں کی‘ حکومت پاکستان اگر اپنی قوم کو صحت مند، تندرست اور خوش و خرم دیکھنا چاہتی ہے تو اُسے انسانیت کا گلا گھوٹنے والوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا ہوگا جو سلوک سی پیک منصوبے کے سرمایہ کاردیس کی عدالتوں نے اپنےمجرمان سے کیا تھا۔



.
تازہ ترین