• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان دنو ں پنجاب سرکار کا کہنا ہے کہ لال شہباز قلندر کے مزار کے نذرانے سندھ کے وڈیرے ہڑپ کررہے ہیں، اگر ایسا ہے تو پھر داتا گنج بخش و دیگر مزاروں کے نذرانے بھی جاگیر دار کھا رہے ہونگے۔کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں ہے کہ نذر و نیاز کیلئے غریبوں کی جیبوں سے نکلنے والی رقم بھی اُنہی ہاتھوں میں آجاتی ہے جوپہلے ہی اپنے ہاتھ قومی وسائل پر صاف کررہے ہیں۔ اس حوالے سے بالادست طبقات کے کردار پرکچھ کہنے سے قبل عرض یہ ہے کہ حضرت شہباز قلندر افغانستان کے علاقے ’مروند‘ سے تبلیغِ اسلام کی خاطر سندھ آئے۔ آپ کے مزار پر آج بھی آپ کے علاقے کی شناخت کے ساتھ آپ کا نام مبارک یوں نمایاں ہے ’’حضرت لعل شہباز قلندر مروندی‘‘۔ حضرت داتا گنج بخشؒ بھی افغانستان سے آئے تھے۔ آپ ہجویر افغانستان کے رہنے والے تھے۔ ددھیال کے ناطے آپ الجلابی کہلائے، یہ دونوںغزنی افغانستان کے گائوں ہیں۔ ان اولیا کی افغانستان سے آمد اور اِن سے جڑے عقیدت کے تمام ناطے امن، آشتی و محبت کی علامتیں ہیں۔ اب جہاں داتا کی نگری لاہور لہو لہان ہوئی تو وہاں ’سرخ پوش‘ لال شہباز قلندرکا مزار بھی خونِ ابنِ آدم سے سرخ ہوا۔ ریاست کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ موت کے سوداگر افغانستان سے آئے تھے۔ کیا یہ مقامِ فکر نہیں کہ ایک طرف حضرت لعل شہباز قلندرؒ، حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ اسی افغانستان سے امن کے مبلغ بن کر ہماری دھرتی پر آئے تو وہاں امن دُشمن بھی افغانستان سے آئے! البتہ حیران کن امر یہ ہے کہ صوفیا تو افغانستان سے خود یہاں آئے لیکن تخریب کاروں کو بہرصورت افغانستان سے ہم ہی پاکستان لائے۔ حامد کرزئی صاحب کی بات چھوڑتے ہیں جن کی رہائش آج بھی کوئٹہ میں ہمارے اعمال کی یادگار ہے۔ بات ہمارے سب سے بڑے مجاہد و حلیف گلبدین حکمت یار کی کرتے ہیں۔ وہی گلبدین جو آج افغان حکومت کی آنکھ کا تارا ہے۔ یہ 1975ء کا ذکر ہے جب نہ صرف گلبدین، بلکہ برہان الدین ربّانی، سیاف صاحب اور نہ جانے کن کن کو پشاور میں لا بسایاگیا۔ پھر ہم نے انہیں 80ء کی دہائی میں عظیم مجاہد بنایا۔ آج یہ سب جو زندہ ہیں یا وفات پا گئے ہیں ہمیں ماموں بنا چکے ہیں۔ پھر جس امریکہ نے ہماری نیندیں خراب کر رکھی ہیں اس ہمدم دیرینہ کی خاطر ہم نے روس کیخلاف اُس اسرائیل کے ایجنٹوں کے ناپاک قدم بھی اپنی پاک مٹی پر قبول کر لئے جن سے ہمارے آج تک سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ امریکی مصنف Seignrour Harsh اپنی کتاب Samson Option میں لکھتے ہیں۔ ’’اسرائیلی جاسوس Ariben Menashe تین سال تک اپنی ٹیم کے ساتھ پشاور میں رہے، اس دوران دیگر امور کے علاوہ وہ گلبدین حکمت یار کے مجاہدین کو تربیت دیتے تھے‘‘ اب اگر یہی گلبدین مع ساز و آواز افغان کٹھ پتلی حکومت کی گود میں جابیٹھ گئے ہیں تو کیا ہمیں اپنی عقل و پالیسیوں پر ماتم نہیں کرنا چاہئے؟ ضیاء صاحب کے ساتھ طیارے میں شہید ہونے والے بریگیڈیئر صدیق سالک اپنی کتابوں The Silent Soldier اور The Bear Trap میں اعتراف کرتے ہیں کہ یہ جنگ ہماری نہیں تھی لیکن ہم سستے داموں دستیاب ہوئے، ’’ان کی کتاب کے صفحہ 63کے مطابق ’’امریکی آفیشلز افغان جنگ کو ایک ایسا خدائی تحفہ سمجھتے تھے جس کے ذریعے وہ افغانستان میں کسی امریکی کا خون گرائے بغیر روسیوں کو قتل اور ان سے ویت نام کی شکست کا بدلہ لے سکتے تھے، جنرل اختر عبدالرحمٰن اس پر امریکہ سے متفق تھے‘‘ ہم جسے جہاد سمجھتے رہے، بریگیڈیئر صاحب اپنی کتاب میں ایسے نام نہادجہا دکے انجام کا یوں تذکرہ کرتے ہیں ’’میں محسوس کرتا ہوں کہ صرف اور صرف امریکی افغان جنگ کے فاتح ہیں، اور شکست اُن افغانوں کو ہوئی جن کے گھر اُجڑ گئے، لاکھوں نوجوان، بوڑھے، خواتین و بچے لقمۂ اَجل بن گئے ،جن کی خواتین بیوہ بچّے یتیم اور ہزاروں مجبور اور معذور ہوگئے‘‘ ۔ مگر بات یہی ختم نہیں ہوتی ،کیا ہم افغانستان کی تباہی کےمنفی اثرات سے خود کو محفوظ کرپائے؟اگر ایسا ہوتا تو شاید اس نام نہاد جہاد کی کوئی نہ کوئی توجیہہ ہمارے ہاتھ آجاتی، لیکن یہ کیاکہ یہ اثرات کمبل بنے ہماری جان کوآگئے ہیں۔ ہیروئن، کلاشنکوف کلچر ، انتہا پسندی اور پاکستانی مہذب وپُرامن معاشرے کی شکست و ریخت اس کے محض چندمابعد اثرات ہیں۔تو کیا ریاستی سطح پر یہ تسلیم نہیں کرنا چاہئے کہ ہماری افغان پالیسی نے پاکستان کو ماسوائے زیاں کے کچھ نہ دیا۔
ہمارا اصل مسئلہ مگر سچ سے فرار اوردورنگی ہی ہے۔ آج جن اصحاب نے پاکستانی طالبان کیخلاف فتوئوں کا دفتر کھول رکھا ہے کیا ان میں سے اکثر وہ نہیں تھے جو ان طالبان کے حق میں منبر ومکتب سے لیکر جلسے جلسوں تک بروئے کار تھے؟ یہ کیا کہ اِدھر اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ پاکستانی طالبان را کے ایجنٹ ہیں تویہ طالبان کے خلاف لاٹھیاں لے کر ایسے سر ِبازار آگئے کہ جیسے ان سے بڑا ان کا کوئی مخالف تھا ہی نہیں! ایسی سیاسی ومذہبی جماعتیں جو کل تک ان کی حامی و ضامن تھیں،اب اُن کا نام لیتے ہوئے منہ پر رومال رکھ لیتی ہیں،کیا وہ یہ سچ سامنے لا پائیں گی کہ یاتو وہ جب جھوٹ بول رہی تھیں یا اب بول رہی ہیں!ایک سچ اُس طبقے کو بھی بولنا چاہئے جو بظاہر تو لبرل ہیںلیکن عملی اعتبار سے وہ انتہاپسندوں سے بھی زیادہ انتہا پسند ہیں۔جہاں ملک و ملت کی ترقی کی راہیں مذہب کے نام پر انتہاپسندوں نے مسدود کررکھی ہیں تو وہاںلبرل نما یہ اشرافیہ بھی عوامی فلاح کی راہ میں مزاحم ہے۔یہ لبر ل موجودہ غریب کش جمہوریت کے نام پر سرمایہ داروں و جاگیرداروں کی حکمرانی کیلئے جواز گھڑتے ہیں۔جب کسی لٹیرے کیخلاف بات کی جاتی ہےتو واویلا مچاتے ہیں کہ دیکھئے یہ جمہوریت کیخلاف بول رہا ہے، بالکل اُس مذہبی اجارہ دارکی طرح،جو اپنی ذاتی و جماعتی مخالفت کودین مخالف قرار دیکر معصوم عوام کو سڑکوں پر لانے میں چند سیکنڈ بھی نہیں لگاتا۔میرا دعویٰ ہے کہ این جی اوز کی زرق برق خواتین کارکن اور فائیواسٹارز ہوٹلوں کے سیمیناروں میں غریب غریب کی رٹ لگانے والے دین بیزارنام نہاد روشن خیال کبھی کسی غریب بستی کے قریب سے بھی نہیں گزرےہونگے۔ انتہاپسندی دونوں طرف سے ہے اور سادہ لوح عوام کو دھوکا بھی دونوں طرف سے دیا جارہا ہے ،ایسا لگتا ہے کہ ان دو انتہائوں میں موجودہ عوام کش نظام کو جاری رکھنے پرگٹھ جوڑ ہےیہی وجہ ہے کہ خائن ٹولوں کیخلاف طبقاتی جنگ کہیں خلا میں گم ہوکر رہ گئی ہے۔کہنا یہاں یہ ہے کہ جس ملک میں سچ بولنا ناقابل برداشت بن جائے اورجھوٹ کو سچ باورکرانے کیلئے ابلاغ کے تمام ادارے یک زبان بن جائیں وہاں پھر خیر کی توقع کیا خام خیالی نہیں قرار پائے گی!۔بلاشبہ مایوسی کفر ہے لیکن جس کھیت میں بارود بوئی جاتی ہو وہاں سے پھولوں کی فصل کی امید کیونکر رکھی جاسکتی ہے....



.
تازہ ترین