• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت نے پندرہ دن بعد ایک مرتبہ پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا اس طرح دو ماہ کے دوران یہ مسلسل چوتھا اضافہ ہے جس کی مثال شاید ہی دنیا میں کہیں اور ملے۔ پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ چاہے معمولی ہو یا غیر معمولی، کاروباری ادارے اس کا اثر قبول کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ مقامی ٹرانسپورٹ سے لیکر بین الاضلاعی کرایوں میں فوری اضافے کے نتیجے میں جگہ جگہ مسافروں اور ٹرانسپورٹروں کے درمیان تو تکار شروع ہو جاتی ہے جبکہ کاروباری حلقے بھی موقع کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ اِدھر پٹرولیم کی قیمتوں میں جنبش ہو اوراُدھر اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان پر پہنچادیں۔ حکومت ہر پندرہ روز بعد قیمتوں میں معمولی اضافے کے بہانے اب تک دو ماہ کے عرصہ میں چوتھی مرتبہ اضافہ کر کے مجموعی طور پر پٹرول کی قیمت 73روپے اور ڈیزل کی قیمت 82روپے فی لیٹر تک لے جانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس سے اپنے خطاب کے دوران دعویٰ کیا کہ عالمی سطح پر گزشتہ ایک سال میں خام تیل کی قیمتوں میں 60 فیصداضافہ ہوا جبکہ پاکستان میں صرف 16 فیصد اضافہ کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات میں ردوبدل کا فیصلہ ہم نے پندرہ دن کی بجائے ایک ماہ کے لئے کیا ہے اور ہم نے اب نیا اضافہ اس طرح سے کیا ہے کہ اس میں سے پیسوں کا عنصر نکال دیا گیا ہے اور اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں صرف روپوں میں مقرر ہوں گی۔ یہ واضح نہیں کہ اس کا فائدہ صارف کو ہوگا یا حکومت کو لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ خسارے میں بے چارے عوام ہی رہیں گے۔وزیر خزانہ ممکن ہے اپنے اس بیان سے عوام کو تسلی دے کر مطمئن ہو گئے ہوں لیکن صارفین میں بے چینی بہرحال بڑھ گئی ہے ۔ مسلسل چوتھی بار اضافے سے ایک طرف کاروباری طبقہ فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہے اور دوسری طرف ہر چھوٹا بڑا صارف اشیاکی قیمتوں اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کے سبب پریشانی کا شکار ہے۔

.
تازہ ترین