• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپریشن ردالفساد کا آغاز ہماری قومی زندگی کے اہم موقع پر ہوا ہے۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران قوم نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ایک درجن سے زائد بڑے فوجی آپریشنز، جن کی بہت زیادہ تشہیر کی گئی اور چھوٹی بڑی کئی ایک کارروائیاں دیکھی ہیں۔ اس پسِ منظر میںآپریشن ردالفساد متاثر کن عنوانات کے تحت کیے جانے والے آپریشنز کی طویل فہرست میں ایک اور اضافہ دکھائی دیتا ہے۔
یہ سوچ بلاجواز نہیں۔ سابقہ تمام آپریشنز بھی اپنے عنوانات کے اعتبار سے کم ولولہ انگیز نہ تھے، جیسا کہ آپریشن بلیک تھنڈر، شیر دل، راہِ حق(3,2,1)، راہ راست،صراطِ مستقیم، خیبر (3,2,1)اور راہِ نجات۔ ان کی قیادت جنرل کیانی نے کی۔ اس کے بعد جنرل راحیل شریف نے قدرے تبدیل شدہ رجحان اور انداز سے آپریشن ضربِ عضب کیا۔ پہلے کیے گئے درجن بھر آپریشنز نے شمال میں شانگلہ سے لے کر شمال مغرب میں جنوبی وزیرستان تک کا طویل علاقہ، جس میں چھ ایجنسیاں اور انکے ملحقہ علاقے آتے ہیں، انتہا پسندوں سے آزاد کرایا۔ آخری آپریشن، ضربِ عضب کا ارتکاز شمالی وزیرستان پر تھا۔ اس سے پہلے جنرل پرویز مشرف کے دور میں فاٹا میں فورسز کو تعینات کیا گیا تھا، لیکن چارو ناچار، اس کا دائرہ تمام علاقے میں پھیل گیا، اور ریاست ہمیشہ سے ہی اس راہ پر چلنے سے گریزاں تھی۔
آج پندرہ سال بعد، ہزاروں آدمیوں، عورتوں اور بچوں کی ہلاکت، اور قومی خزانے کو پہنچنے والا اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنے کے بعد آج ہمیں ایک اور آپریشن کی ضرورت کیوں محسوس ہورہی ہے؟ مایوسی کی اس کیفیت کی وجہ جنرل راحیل کے تشہیر کردہ آپریشن ِ ضرب ِ عضب کے عملی نتائج بھی ہیں کیونکہ جنرل صاحب نے آن ریکارڈ متعدد مرتبہ دعویٰ کیا تھا کہ اُنھوں نے تن تنہا دہشت گردوں کو شکست دیکر ملک کا امن بحال کردیا ہے۔ ایسے بلند آہنگ بیانات نے عوامی تصورات کو جذباتی آسودگی اور طمانیت سے ہمکنار کردیا ہے۔ کامیابی کا ثبوت پیش کرنے کے لئے دہشت گردی کے کم ہوتے ہوئے واقعات کے اعدادو شمار سامنے رکھے گئے۔
اس جذباتی کامیابی کی فضا میں تلخ حقائق نظروںسے اوجھل ہوگئے اور قوم نے جنرل راحیل شریف کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملانا شروع کردئیے۔ جس دوران ہم فتح کے شادیانے بجارہے تھے، پناہ گاہوں سے نکالے جانے والے انتہا پسند افغان، انڈین اور بعض مغربی ایجنسیوں کی سرپرستی سے ایک نیٹ ورک کی صورت اختیار کرتے ہوئے دہشت گردی کی ایک نئی اور خوفناک قوت کا روپ دھار رہے تھے۔ اور یہ پیش رفت افغانستان کے کسی دور افتادہ علاقوں میں نہیں، پاک افغان سرحد سے بمشکل ایک کلومیٹر اندر، افغان علاقے میں آگے بڑھ رہی تھی۔ مثال کے طور پر افغان ملٹری چیک پوسٹس نے طورخم کے قریب دوکیمپ قائم کردئیے جہاں پاکستان جا کر کارروائیاں کرنے والے حملہ آوروں کو پناہ دی جاتی تھی۔ یہ کوئی خفیہ منصوبہ نہیں تھا، لیکن اس کا تدارک نہ کیا گیا۔ چونکہ اُس وقت ضربِ عضب کی کمزوریوں پر بات کرنے کی اجازت نہ تھی، اور اس حوالے سے کی گئی کسی بھی بحث کا گلا گھونٹ دیا جاتا، بلکہ ایسا کرنے والے کو وطن کا غدار قرار دے کر مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کی تمام توپوں کا رخ اس کی طرف کردیا جاتا، چنانچہ ایسے تلخ حقائق قوم کی نگاہوں سے اوجھل ہوتے گئے۔
اب آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا ہے، اور ’’سوفیصد کامیابی‘‘ کے دعوئوں کے ڈسے ہوئوں کے لئے بیان کردہ حقائق کو ہضم کرنا مشکل پاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ منظم دہشت گردی کے مقابلے میں ہمارا اسٹینڈ بہت کمزور ہے، لیکن اس کمزوری کی نشاندہی کی اجازت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پس منظر میں آپریشن ردالفساد بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ بلکہ مستقبل کو دیکھتے ہوئے اس کی اہمیت ماضی میں کیے گئے متعدد آپریشنز سے کہیں بڑھ چکی ہے۔ اس کے سامنے ناکامی کا کوئی آپشن نہیں ہے۔ اسے کامیاب ہونا ہے تاکہ ملک کے خوشحال مستقبل کی پلاننگ کی جاسکے۔ لیکن اگر اس کا نفاذ نہ کیا جاسکا، یا کچھ سیاسی سمجھوتے کرلئے گئے توپھر معاشرے کو اجتماعی نقصان کی بھینٹ چڑھنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ فی الحال ہم نے آپریشن رد الفساد کے بارے میں یہی کچھ پڑھا یا سنا ہے کہ یہ سابق آپریشنز سے مختلف ہوگا۔ اس کا مقصد پاکستان کی سرحدوں اور داخلی محاذ کو محفوظ بنانا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ داخلی طور پر دہشت گردی کو جتنی شکست دی جاسکے گی، بیرونی سرحدیں اتنی ہی محفوظ بن جائیں گی۔ بیرونی سرحدوں اور داخلی سیکورٹی کا مدغم ہونے والا تصور سویلین اور فوجی اتھارٹی کے باہم تعاون اور فعالیت کا نتیجہ ہے۔
جس ماڈل کے تحت رینجرز پنجاب میں آپریشن کر رہی ہے، اس سے موجودہ آپریشن کی تزویراتی جہت نمایاں ہوجاتی ہے۔ سویلین اور فوجی حکام کی مشترکہ اتھارٹی اور انٹیلی جنس معلومات کو باہم مربوط کرنے والی ایک کمیٹی، جس میں سویلین اور فوجی، دونوں ادارے شامل ہیں، کی زیر نگرانی یہ آپریشن کیے جارہے ہیں۔ آپریشن کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے گرفتار دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزا دلانے کے لئے قانونی جنگ بھی لڑنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ یہ ماڈل ہنگامی طور پر وجود میں نہیں آیا ہے۔ داخلی سیکورٹی کی جہت صرف فوجی آپریشن تک محدود نہیں ہوتی، جیسا کہ کچھ دھڑے سمجھتے ہیں، بلکہ اس میں انٹیلی جنس کا بہت اہم کردار ہے۔ اگرچہ فوجی اداروں کے پاس شہری علاقوں میں معلومات کا نیٹ ورک موجود ہوتا ہے، لیکن جب دور افتادہ علاقوں میں مقامی طور پر انٹیلی جنس کے حصول کی ضرورت محسوس ہو تو انسدادِ دہشت گردی کا محکمہ ایک بہتر آپشن ہے۔
آپریشن ردالفساد کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ملک کو اسلحے اور دھماکہ خیز مواد سے پاک کرنا ہے۔ اس کے لئے سویلین حکومت اور اداروں کا تعاون ناگزیر ہے۔ یہ کوشش اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک حکومت قانون سازی، اتفاقِ رائے اور فنڈز کی فراہمی یقینی نہیں بناتی۔ اس سے پہلے ہونیوالے کسی آپریشن میں داخلی جنگ کے ان موضوعات، اور فوجی آپریشن کے ردعمل میں بیرونی سرحدوں سے شہروں اور قصبوں میں آنے والے ردعمل کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ نہ ہی کسی نے یہ دیکھنے کی زحمت کی کہ یہاں سے فرار ہونے والے گروہ کس طرح مقامی میزبانوں سے مل کر ایک نئی فورس تیار کررہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بلوچستان اور فاٹا میں بھاری قربانیوں سے حاصل کردہ کامیابی عارضی نوعیت کی ہی رہی۔ بلکہ یوں کہہ لیں دہشت گردی کا مرحلہ شروع ہونے سے پہلے کچھ وقفہ تھا جسے ہم کامیابی سمجھ کر نازاں تھے۔
آپریشن ردالفساد میں ا س خامی کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے تاکہ مستقل امن کو ترسی ہوئی قوم کو ایک بار پھر خوش فہمی کا شکار کرکے مایوسی کی کھائی میں نہ دھکیل دیا جائے۔ اور یہ کام بہت زیادہ چرچا کیے بغیر، خاموشی سے کیا جارہا ہے۔ اس سے پہلے ہم نے ضرب ِ عضب کا بے پناہ تشہیری مواد دیکھا تھا۔ ان معروضی حالات میں آپریشن ردالفساد کی کامیابی کچھ چیزوں سے مشروط ہے۔ پہلی یہ کہ سول ملٹری تعاون اور مستحکم سیاسی ماحول کی ضرورت ہر چیز پر مقدم ہے۔ اس ماڈل میں جی ایچ کیو اور وفاقی حکومت کو عملی طور پر مل کر کام کرنا ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس میں کریڈٹ لینے کی الجھن سے نجات پانا ہوگی۔ قوم کی سلامتی کی یہ جنگ پوائنٹ اسکورنگ کا معاملہ نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ پولیس اور عدلیہ کے لئے ضروری ہوگا کہ آپریشن ردالفساد کے حاصل کردہ اہداف کو طویل عرصے محفوظ بنائیں۔ پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی صوبائی پولیس کو جدت اختیار کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔ اس وقت عدلیہ بھی آپریشن ردالفساد میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔ جہاں تک معزز جج صاحبان کا تعلق ہے تو وہ بھی یہ بات سمجھتے ہیں کہ پاناما اور دیگر معاملات اپنی جگہ پر لیکن پاکستان کے مستقبل کا دارومدار دہشت گردی کو شکست دینے پر ہے۔آپریشن رد الفساد کی کامیابی کے لئے درکار تیسری شرط میڈیا میں ہونے والی بحث کی حقیقت پسندی ہے۔ گزشتہ ہفتے لاہور دھماکے کے بعد کچھ احمقانہ ادارتی تبصرے دیکھنے کو ملے۔ ایسی غیرذمہ داری کی اب گنجائش نہیں ہے۔ چنانچہ قائد کے پاکستان کی تعمیر کے لئے فسادی قلعے ڈھانے کا وقت آگیا ہے۔

.
تازہ ترین