• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب کبھی دنیا میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافے اور مغرب کی اہم شخصیات کے قبول اسلام کی خبریں منظر عام پرآتی ہیں تو عالم اسلام کے طول و عرض میں خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔ امریکی تحقیقاتی ادارے پیوا ریسرچ سینٹر نے کہا ہے کہ اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے جو 2050میں عیسائیت کی جگہ لے کر دنیا کا مقبول ترین مذہب بن جائے گا۔ مذکورہ ادارے کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اگلے 33برسوں میں یعنی 2050تک مسلمان یورپی آبادی کا 10فیصد اور امریکی آبادی کا ڈھائی فیصد ہو جائیں گے۔ یقیناً مسلمانوں کے لئے یہ ایک خوش آئند تحقیقی رپورٹ ہے۔ یاد رہے کہ 2010میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب60 کروڑ اور مسیحیوں کی تعداد 2ارب 20کروڑ تھی۔ آج بھی مسلمان دنیا کی کل آبادی کا ایک چوتھائی ہیں مگر عالمی سیاست و معیشت میں ان کا حصہ بقدر جثہ تو کجا شاید پرکاہ کے برابر بھی نہیں۔ عالمی طاقتیں مسلمانوں کے بارے میں بڑے بڑے فیصلے کرنے سے پہلے انہیں خاطر میں نہیں لاتیں اور جو فیصلہ اپنے مفاد میں سمجھتی ہیں، کر گزرتی ہیں۔ مسلمان نہ صرف آبادی بلکہ مالی، معدنی اور بشری وسائل کے لحاظ سے بھی کئی ممالک سے بہت آگے ہیں مگر دنیا کی قیادت کے اعتبار سے وہ کسی شمارقطار میں نہیں آتے۔ مسلمان قیادتوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ مغرب نے علم، تحقیق، ٹیکنالوجی ، جمہوریت اور دیانت و امانت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر ترقی کی ہے۔ کئی صدیوں پہلے اہل مغرب کے تشنگانِ علم مسلم اسپین آکر اپنی علمی پیاس بجھا تے تھے۔ آج مسلمانوں کے اکثر ممالک میں ملوکیت اور آمریت کا دور دورہ ہے۔ مسلمان اپنی تعداد کے بڑھنے پر خوش ضرور ہوں مگر او آئی سی جیسے اسلامی اداروںکے ذریعے علمی و بشری وسائل یکجا کر کے عالم اسلام کو امن و سلامتی اور علم و آگہی کا گہوارہ بنائیں تاکہ دنیا اصل اسلام کو عملی حقیقت کے روپ میں بھی دیکھ سکے۔

.
تازہ ترین