• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فوجی عدالتوں کی توسیع پر ملکی وقومی مفاد میں اکثردینی وسیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پائےجانا یقیناً ایک خوش آئند امر ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے تحفظات ابھی تک برقرار ہیں تاہم وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ نوید سنائی ہے کہ پیپلز پارٹی بھی جلد مان جائے گی۔ مزید برآں پارلیمانی رہنمائوں نے یہ طے کیا ہے کہ فوجی عدالتوں کی نگرانی کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ دو سال کی مدت میں فوجی عدالتوں کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔ پچھلے دو سال میں ملٹری کورٹس کو 274کیسز بھجوائے گئے۔ ان میں سے 161کو سزائے موت سنائی گئی جبکہ باقی مقدمات میں مختلف نوعیت کی سزائیں دی گئیں۔ غیر معمولی حالات میں فوجی عدالتیں باامر مجبوری بنائی جا سکتی ہیں مگر یہ ایک عارضی حل ہے اسے مستقل طور پر اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں پہلے ہی عدالتی نظام الگ سے موجود ہے۔ تیزی سے مقدمات کو نمٹانے کے لئے بھی انسداد دہشت گردی کی عدالتیں کام کر رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملٹری کورٹس کے مستقل قیام سے ہماری عدالتی نظام کا ایک اچھا تاثر پڑے گا یا پھر اس کی اخلاقی ساکھ متاثر ہو گی؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم اپنے عدالتی سسٹم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور بہتر بناتے اور اس میں موجود خرابیوں کو دور کرتے تاکہ عوام کو انصاف ان کی دہلیز پر مل پاتا مگر وائے ناکامی کہ متاع کارواں جاتا رہا کے مصداق دیگر ریاستی اداروں کی طرح ہم عدالتی نظام کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کی پوری قوم نے حمایت کی تھی۔ اب بھی ردالفساد کی آپریشن پر تمام دینی وسیاسی جماعتیں متفق ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی، بلوچستان اور فاٹا میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس وقت شمالی اور جنوبی وزیرستان میں کافی حد تک امن قائم ہو چکا ہے۔ آئی ڈی پیز کی بھی ایک بڑی تعداد ان علاقوں میں اپنے گھروں کو روانہ ہو چکی ہے۔ اسی طرح کراچی کی رونقیں بھی دوبارہ لوٹ آئی ہیں۔ فوجی عدالتوں کی توسیع ایسے حالات میں ہو رہی ہے کہ جب ملک میں بیرونی دہشت گرد عناصر کے گرد گھیرا تنگ کیا جا چکا ہے۔ اب وفاقی حکومت کو چاہئے کہ آپریشن ردالفساد کو ایک طے شدہ ٹائم فریم کے مطابق مکمل کرے۔ افسوس کہ کراچی، فاٹا اور بلوچستان میں آپریشن کا ابھی تک کوئی ٹائم فریم طے نہیں کیا گیا کہ کب تک وہاں آپریشن ہونا ہے۔ ملک کے جن علاقوں میں امن قائم ہو چکا ہے وہاں پولیس اور دوسرے سول اداروں کے کنٹرول میں معاملات دے دیئے جائیں کیونکہ فوج اور رینجرز ہنگامی حالات کے لئے طلب کی جاتی ہیں ان کو مستقل مختلف علاقوں میں تعینات رکھنا نامناسب اور غیر دانشمندانہ طرزعمل ہے۔ پاک فوج ہمارا ایک منظم اور قابل احترام ادارہ ہے اُس کا اصل کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ پاکستان کو اس وقت مشرقی اور مغربی سرحدوں پر شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان حالات میں اندرونی استحکام کی طرف ہمیں توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔
نیشنل ایکشن پلان پر بھی ازسرنو غور وخوض کی ضرورت ہے۔ جب تک ملک کی تمام دینی وسیاسی جماعتوں کے قومی ایکشن پلان کے حوالے سے تحفظات ختم نہیں ہوں گے اُس وقت تک اس سے خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہو سکے گا۔ ماضی میں بھی نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں مساجد اور مدارس پر یلغار اور علمائے کرام کی بلاجواز گرفتاریوں پر مختلف سیاسی حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ اب بھی پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں سے پختونوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں پر عوامی سطح پر شدید ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے صرف پنجاب کے مختلف شہروں میں 500سے زائد پختونوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کا قصور صرف یہی تھا کہ وہ پاکستان کے شہری اور پختون ہیں۔ آپریشن ردالفساد میں پاکستان دشمن بیرونی دہشت گرد عناصر کو منطقی انجام تک پہنچانا ازحد ضروری ہے۔ دہشت گرد عناصر کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے اور انہیں نشانہ عبرت بنا دینا چاہئے لیکن بلاسوچے سمجھے ان کی پکڑ دھکڑ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ گو کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے وضاحت کی ہے کہ پختون ہمارے بھائی ہیں اور ان کے ساتھ کسی قسم کا ناروا سلوک نہیں ہو گا۔ لیکن یہ زبانی جمع خرچ نہیں ہونا چاہئے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے بھی پختونوں کے خلاف پنجاب میں ہونے والے حالیہ کریک ڈائون پر سخت احتجاج کیا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ ہفتے لاہور پریس کلب میں امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد کا دیگر رہنمائوں بلال قدرت بٹ اور ذکراللہ مجاہد کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ آپریشن ردالفساد کی پوری قوم حمایت کرتی ہے لیکن اس کی آڑ میں پنجاب سے مقامی پختون افراد کی وسیع پیمانے پر گرفتاریوں اور چھاپوں کا سلسلہ فی الفور بند ہونا چاہئے۔ ان کامزید کہنا تھا کہ ایسے اقدمات سے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے عوام کے درمیان فاصلے بڑھیں گے اور ملک میں لسانیت پھیلے گی۔ امر واقع یہ ہے کہ مشرف کے دور میں بھی کیے گئے غلط فیصلوں اور اقدامات کا خمیازہ پوری قوم ابھی تک بھگت رہی ہے۔ بلوچستان میں اکبر بگٹی کے قتل کے بعد ایسی آگ لگائی گئی کہ جس سے بڑی مشکل سے ہمیں چھٹکارہ حاصل ہوا۔ ابھی بھی وہاں سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے صورتحال کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اب وہی صورتحال ہم پنجاب میں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کراچی میں پہلے پنجابیوں کو مہاجروں کے ساتھ لڑایا گیا پھر وہاں سندھی اور مہاجر کا جھگڑا پیدا کیا گیا اور اس کے بعد ایم کیو ایم کی سرپرستی کرکے حالات کو اس نہج پر پہنچایا گیا کہ بیرونی قوتیں ایم کیو ایم کو استعمال کرنے لگیں اور بعد ازاں یہ ثابت ہوا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ایم کیو ایم کے ذریعے کراچی کے حالات کو خراب کر رہی ہے۔ خدارا اب ہمیں ایسی پالیسیوں سے اجتناب کرنا چاہئے کہ جن سے ملکی سلامتی کے لئے مسائل پیدا ہوں۔ المیہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں چند روز قبل عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین کی جانب سے پنجاب میں پختونوں کی گرفتاریوں کے حوالے سے تحریک التوا پیش کی گئی ہے جس میں پختونوں کے ساتھ پنجاب میں ہونے والے معاندانہ رویے کی پُرزور مذمت کی گئی ہے۔ اس تحریک التوا میں وفاقی اور پنجاب حکومت کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر پنجاب میں پٹھانوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ ترک نہ کیا گیا تو خیبر پختونخوا سے بھی پنجابیوں کو نکال دیں گے۔ تاہم ردالفساد آپریشن سے فتنے اور مفاد کو ختم کرنا چاہئے لیکن اس کے ذریعے یہ تاثر ہرگز نہیں ملنا چاہئے کہ یہ آپریشن کسی خاص قوم، قبیلے یا افراد کے خلاف ہو رہا ہے اس سے معاشرتی تقسیم بڑھے گی اور قومی یکجہتی بھی پارہ پارہ ہوجائے گی۔ دہشت گردوں کا تعلق کسی مذہب اور علاقے سے نہیں ہوتا۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو بھی اس حساس معاملے کو انہی خطوط پر دیکھنا ہو گا۔ پاکستان میں دہشت گردی کی بڑی وجہ افغانستان کے راستے سے بھارتی مداخلت ہے جس کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ہماری وزارت داخلہ نے بھی واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ بھارت پاکستان کے امن کو خراب کر رہا ہے اور حالیہ بم دھماکوں کے واقعات میں ہندوستان ملوث ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ پاکستانی حکومت کے وزرا تو بھارتی مداخلت پر بیان دیتے ہیں مگر وزیراعظم نواز شریف آج بھی برملا کہہ رہے ہیں کہ انہیں بھارت دوستی کا مینڈیٹ ملا تھا اور وہ انڈیا سے دوستی اور تجارت کے خواہش مندہیں۔

.
تازہ ترین