• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ 2002کا واقعہ ہے۔ ایل ایل بی کا کورس ختم ہونے کو آیا تو لاہور ہائیکورٹ اور وکلا کے دفتروں میں آنا جانا شروع ہوا۔ وکالت کے شعبے کا انتخاب میں اوائل عمری میں ہی کر چکا تھا لیکن ہائیکورٹ جا کر احساس ہوا کہ وکلا میں دو طبقا ت ہیں۔ عوامی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو کسی اچھے چیمبر میں انٹری نہیں ملتی تھی، خود اعتمادی کا فقدان تھا اور طبقاتی تفریق عام تھی (جو آج بھی ہے)۔ سواس مسئلے کے حل کیلئے سی ایس ایس کا روٹ اختیار کرنے کا خیال آیا۔ یہ روٹ بڑا مشکل اور لمبا تھا، کامیابی کی صورت میں بھی چھ سات سال کی قربانی لازمی تھی۔ اسی کشمکش میں ایک دن فرید کورٹ ہائوس میں پنجاب یونیورسٹی کے ایک استاد کے چیمبر میں ان سے مشورہ کر رہا تھا کہ سفاری سوٹ میں ملبوس سرخ و سپید رنگت کے ایک بزرگ داخل ہوئے۔ ان میں اعتماد بھی تھا اور اسکا فقدان بھی، خوشحالی کے آثار بھی تھے اور بدحالی کے بھی، رکھ رکھائو تھا بھی اور نہیں بھی۔ گردن میں ایک زائل شدہ سی اکڑ تھی گویا رسی میں جلنے کے نشان بھی ہوں اور بل بھی۔ بیٹھتے ہی گویا ہوئے، ’’بات ہو گئی ہے میری، گورنر لگا رہے ہیں مجھے‘‘ میں مزید متوجہ ہوا۔ وہ دس پندرہ منٹ تک اسی قسم کی بڑی بڑی لیکن بے ربط باتیں کرتے رہے لیکن انکے مخاطب انکی باتوں پر ہوں ہاں اور ٹال مٹول کرتے رہے۔ وہ روانہ ہوئے تو ہمارے استاد کہنے لگے کہ یہ وہی سی ایس پی صاحب تھے جس کےبارے میں تم مشورہ لینے آئے ہو۔ لیکن یہ بیچارے 303 کی زد میں آ گئے، اور ذہنی توازن کھو بیٹھے۔
پاکستان بنا تومسلم لیگ کا سیاسی کیڈر ریاست چلانے میں ناکام ہوا۔ کمزوری عیاں ہوئی تو بیوروکریسی جسکا اصل کردار ماتحت اداروں کا تھا، کو طاقت اور اقتدار کا نشہ لگ گیا۔ ابتدا میں انتظامی بیوروکریسی (زیادہ تر سی ایس پی گروپ) اقتدار پر قابض ہوگئی جس سے بعد میں جنرل ایوب نے اقتدار چھین لیا کہ اسکے ہاتھ میں بڑا ڈنڈا تھا۔ اس نے سیاستدانوں کو تو فارغ کر دیا لیکن انتظامی امور چلانے کیلئے بیوروکریسی کو اپنا شریک بنا لیا۔ چند سال گزرے تو کرپشن اور بدانتظامی انتہائوں کو چھونے لگی اور سول اور ملٹری بیوروکریسی میں اقتدار، اختیار اورکرپشن کی بندر بانٹ پر رسہ کشی اور الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نتیجتاً 1959میں جنرل ایوب نے بیک جنبش قلم 1300 سول افسر فارغ کر دئیے۔ کشمکش جاری رہی اور 1969 میں جنرل یحیٰی نے تھری نٹ تھری چلائی اور 303 افسر فارغ کر دیئے۔ ان میں 38 سی ایس پی (موجودہ PAS المعروف DMG) اور 16 افسرPSP یعنی پولیس گروپ کے تھے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، بھٹو حکومت بنی تو بھٹو کی آمرانہ روش اور انتظامی بیوروکریسی کی سازشی میراث کی بدولت جھگڑا جاری رہا۔ بھٹو نے بھی ایک جھٹکے میں 1400 بیوروکریٹ فارغ کئے، 1973 میں ایک دفعہ پھر 12 سول افسروں کو گھر بھیجا۔ اس جھگڑے میں بھٹو نے بیوروکریسی کا آئینی تحفظ واپس لے لیا، سی ایس پی گروپ ختم کر کے دس سروس کیڈر بنا دئیے۔ ضلعوں کے انتظام کیلئے DMG بنایا لیکن بھٹو کے اس نئے سسٹم میں ڈویژن، صوبے اور وفاق کے خالصتا انتظامی عہدوں کیلئے نیا گروپ یا علیحدہ طریقہ کار موجود نہ تھا، سو DMG ان عہدوں پر قابض ہونے لگا۔ اسی دوران جنرل ضیا کا مارشل لا لگ گیا۔ ضیا کےدور تک انتظامی بیوروکریسی مزاحمت کا راستہ چھوڑ کر سیاسی و فوجی ڈکٹیٹروں کی بے چون و چرا شریک جرم بننے کا راستہ اپنا چکی تھی۔ نئے آقائوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے لیکن نئے گروپ DMG نے بیوروکریسی کے دیگر کیڈرز کیلئےشکاری جانوروں جیسی (Predatory) روش اپنا لی۔ ڈی سی اور کمشنر کے عہدے تو تھے ہی لیکن DMG نے سی ایس ایس کے دیگر کیڈرز، چاروں صوبوں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، فاٹا، حکومتی کارپوریشنز، اتھارٹیرز، خود مختار ادارے غرض ہر جگہ دوسرے کیڈرز کے سب سے با اختیار اور پُرکشش عہدوں پر قبضہ کر لیا۔ ۔مشرف دور آیا تو اس نے ڈی سی اور کمشنر کے عہدے ختم کردیئے لیکن وہ DMG کو ختم کرنا بھول گیا۔ مشرف کے بعد مقامی حکومتوں کی دشمن سیاسی آمریتوں نے انہیں پھر بحال کرنا شروع کر دیا تویہ گروپ پھر پرانے حربوں پر اتر آیا۔ اپنا تسلط برقراررکھنے کیلئے DMG نے راتوں رات اپنا نام تبدیل کر کے PAS (پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس) رکھ لیا۔
یہ ہمارے حکمراں و اشرافیہ طبقےکے تین گروہوں کی عوام کے وسائل لوٹنے اور اسکے بنیادی انسانی و سیاسی حقوق چھیننے کی بے رحم داستان ہے۔ عوام کی جمہوری تحریک نے ڈکٹیٹروں کو نکال باہر کیا ہے اور سیاستدانوں کو کسی حد تک جوابدہ بنا لیا ہے لیکن DMG کا عوام پر اور بیوروکریسی کے دیگر پیشہ ورانہ اور تکنیکی گروپس پر تسلط آج بھی جاری ہے۔ ضلعوں میں یہ گروہ مقامی حکومتوں کا مخالف ہے، اور صوبوں میں سیاسی آقائوں کی سازشوں کا تکمیل کنندہ۔ وفاق میں اسکی قطعا کوئی ضرورت نہیں کہ وفاق میں ہر منسٹری، ڈویژن، کارپوریشن، اتھارٹی وغیرہ کا اپنا کیڈر ہے۔
پاکستان کے بیس کروڑ عوام کے وسائل اور حقوق کو انگریز کی غلامی کے دور کے وارث ایک گروپ کے چار پانچ سو افسروں کے ہاتھوں گروی نہیں رکھا جا سکتا۔ میں کسی نئی تھری نٹ تھری کا قائل نہیں ہوں۔ DMG کے افسروں کو سرپلس پُول میں ڈال کر بیوروکریسی کے دیگر پیشہ ورانہ اور ٹیکنیکل کیڈرز میں تقسیم کر کے انکی نوکریوں کوتحفظ دیا جا سکتا ہے لیکن اس گروپ کو مزید جاری رکھنا اب بہت نقصان دہ ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام میں DMG کے مکمل خاتمے کی بحث کا آغاز کیا جائے۔

.
تازہ ترین