• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے خفت بھی اور شرمندگی بھی، میری بیٹی نے ایک عرصہ کے بعد کوئی فرمائش کی تھی۔ کاش میں اس کے لئے منصوبہ بندی کرسکتا اور اس کی فرمائش کوئی ایسی بھی نہ تھی کہ میں پوری نہ کرسکتا۔ زمانے سے شکایت کیسی۔ حالات ہی ایسے ہیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میری بیٹی کرکٹ میں بھی دلچسپی رکھتی ہے۔ کچھ وقت بھی ایسا آگیاہے کہ زندگی مصروف ترین ہے۔ ہمارے بچے ہمارے استاد ہیں۔ میری بیٹی کی خواہش اور فرمائش مجھے ذرا عجیب سی لگی۔ وہ آج کل اپنی ہائوس جاب کے آخری مراحل میں ہے اور اس کا پروگرام بیرون ملک جانے کا ہے۔ آج سے کئی سال پہلے جب میرا پیری دار بیرون ملک سے واپس اپنے وطن آیا تو میرے دونوں بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ میرے بیٹے کا کہنا تھا کہ وہ اپنی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد فیصلہ کر ے گا کہ اس کو کیا کرنا ہے۔ بیرون ملک جانے سے پہلےپاکستان کے قومی فضائی ادارے میں ملازمین کی تربیت کے شعبہ میں تھا۔ میں ملازمین کو تعلیم اور تربیت دونوں سے روشناس کراتا تھا۔ تقریباً تمام ملازم ایک حد تک تو تعلیم یافتہ ہوتے تھے مگر ادارے کی پالیسی کے مطابق ان کو اپنے شعبہ کے حوالے سے مزید تعلیم اور تربیت کی گنجائش موجود تھی۔ میں ان کو سسٹم کے مطابق پڑھاتا اور تربیت کا معاملہ ایسا تھاکہ مجھے اکثر پریشانی لاحق رہتی۔ تربیت میں بنیادی چیز مسکرانا اور جو شخص آپ سے رابطہ کر رہا ہے اس کی باڈی لینگویج کے مطابق اس کی بات کو سمجھنا تھا۔
بیرون ملک بھی باڈی لینگویج میرا شعبہ تھا۔ اصل میں وہ لوگ جو آپ کی زبان نہیں بول سکتے۔ ان کی کیسے مدد کی جائے۔ دوسرے ان لوگوں کو انگریزی سے روشناس کراناجو انگریزی زبان بول نہیں سکتے۔ ان میں زیادہ تارکین وطن اور کچھ لوگ کاروباری اداروں سے آتے تھے۔ پڑھانے کا معاملہ بڑا دلچسپ ہے اور آپ کو ہر وقت کوئی نہ کوئی نئی بات سیکھنے کو مل رہی ہوتی ہے۔ اس سے میری تعلیم میں اضافہ ہوتا رہتا۔ میری اب بھی یہ خواہش ہے کہ میں کسی دور دراز کے دیہاتی اسکول یا مدرسہ میں عام سا استاد بن کر بچوں سے زندگی کے بارے میں سیکھوں۔ ہمارے معاشرے میں استاد کی بظاہر عزت بہت ہے مگر وقار نہیں۔ بیرون ملک معاملہ دوسرا ہے۔ ہمارے ہاں ٹیچر کا پیشہ زیادہ قابل قبول نہیں ہے۔ ہمارے ہاں اس وقت جو تعلیم کا حال ہے وہ باعث شرمندگی ہے۔ ہمارے ہاں اچھے طالب علموں کی کمی نہیں مگر ان کے لئے حالات اور نظام ان کے موافق نہیں۔ کچھ لوگ تعلیم اور تربیت کے بغیر ہی اپنے آپ کو منوانا چاہتے اور بنیادی تعلیم اور تربیت کا اصل مقام آپ کا گھر ہے۔ ہمارے والدین کی اکثریت کو تعلیم کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے اور تعلیم کا واحد مقصد ایک ڈگری کا حصول ہوتا ہے جو کسی بھی ملازمت اور ضرورت کے لئے ایک بنیادی ہتھیار ہے۔ ہمارے ہاں پولیس میں اکثر لوگ دور دراز علاقوں سے آتے ہیں۔ اگرچہ ان کی تربیت کی جاتی ہے۔ مگر بنیادی تعلیم کی کمزوری سے وہ عوام کے مسائل کو سمجھنے سے قاصررہتے ہیں اور دوری کا نشہ ان کو ٹھیک کام کرنے بھی نہیں دیتا۔
میں تو ذکر اپنی شرمندگی اور خفت کا کر رہا تھا۔ میری بیٹی کی فرمائش کیا تھی۔ وہ اپنی ایک دوست اور میرے ہمراہ پی ایس ایل کا فائنل دیکھنے کی خواہش مند تھی اور ہے۔ مگر ٹکٹوں کا حصول ایک ایسا مرحلہ ہے جس کو عبور کرنا سب کا بس نہیں ہے۔ ایک تو فیصلہ بہت تاخیر سے ہوا پھر وقت کم تھا اور کرکٹ کے مہربانوں نے موثر منصوبہ بندی بھی نہیں کی اور ٹکٹوں کی فروخت کا معاملہ لاہور تک رکھا۔ جب میری بیٹی نے اپنی خواہش کا اظہار کیا اس وقت معاملہ مشکوک تھا اس کے باوجود وہ مایوس نہ تھی۔ میں نے منطقی انداز میں اس کو باور کروانے کی کوشش کی کہ ایسی تفریح کا کیا فائدہ جو خوف اور دہشت کے سائے میں ہو۔ اصل میں میچ کا مزاا س وقت آتا ہے جب آپ ایک بڑے ہجوم میں آزادی کے ساتھ ہر گیند پر نعرہ بلند کرسکیں۔ پھر جتنے تماشائی ہوں گے اتنے ہی ہمارے نگران ہوں گے۔ حکومت اس معاملہ کو کسی اور انداز میں لے رہی ہے۔ پنجاب کے صاحب بہادر کو فیصلہ کرنے میں مشکل آ رہی ہے۔ نوکر شاہی کی مشاورت ان کو عوام کے ردعمل سے دور رکھتی ہے۔ میری بیٹی پر میری تقریر کا کوئی اثر نہ ہوا۔ میں نے اس کو تو انکار کردیا مگر خود ٹکٹ خریدنے کے لئے جت گیا۔ مگر یہ نہ تھی ہماری قسمت......
جیسے ہی اعلان ہوا کہ فائنل لاہور میں ہوگا پہلے پہل کرکٹ بورڈ سے رابطہ کیا۔ وہاں عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ پھر نجم سیٹھی سے بات کرنے کا سوچا۔ وہ اپنے دستیاب ٹیلی فونوں پر مل نہ سکے۔ ان کے حلقہ کے ایک شخص سے رابطہ ہوا تو وہ فرمانے لگے۔ آپ کو پاس درکار ہوگا جو ان حالات میں ناممکن ہے۔ میری دھاڑ سن کر ذرا شانت ہوئے اور جب ان کو اندازہ ہوا کہ میں ٹکٹ خریدنے کی بات کر رہا ہوں تو مجھے یقین دہانی کروائی کہ ٹکٹ کی خرید میں مدد کریں گے اور نجم سیٹھی سے رابطہ بھی کروا دیں گے۔ مگر اس کے بعد ان کا فون تادم تحریر بند ہی رہا۔ بینک والوں سے بات کی۔ وہ بھی حیرت میں گم نظر آئے۔ پنجاب بینک کے ایک افسرسے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر وہ ہر وقت وزیر اعلیٰ پنجاب کے دربار میں جاتے نظر آئے۔ ان کی ٹیم کے ایک ممبر نے یہ ضرور بتا دیا کہ ٹکٹیں کل صبح مل سکیں گی اور ایک فرد ایک ٹکٹ کا فارمولا ہے اور شناختی کارڈ لازمی ہے۔ وہ مزید رہنمائی اور مدد کرنے سے قاصر ہیں۔ پھر یہ بھی اطلاع ملی کہ کچھ بینکوں اور اداروں نے ٹکٹیں اپنے مہربانوں کے لئے معقول رقم پر حاصل کرلی ہیں۔ مگر میں ان اداروں کی لسٹ میں شامل ہونے سے محروم رہا۔ اگلے دن بہت لمبے اور تھکا دینے والے انتظار کے بعد جب میرے آگے چند لوگ تھے کھڑکی بند ہوگئی اور ایک تماشا شروع ہوگیا۔
یہ وہ رام کہانی ہے جس کی وجہ سے میں اپنی بیٹی سے شرمندہ اور خفت زدہ ہوں۔ میرے پاس پیسے ہیں اور وقت ہے مگر اس نظام میں قانون اور انصاف نہیں ہے۔ یہ معاشرہ اشرافیہ کو عزت اور عوام کو ذلت سے نوازتا ہے۔ سرکار وقت کے لئے کوئی قانون نہیں اور عوام کے لئے انصاف نہیں۔ پھر تخت پنجاب کو دہشت اور وحشت اتنی ہے کہ اس میچ کے لئے عوام کی زندگی عذاب بنائی جا رہی ہے۔ شہر میں جگہ جگہ ناکے اور رکاوٹیں۔ مگر پولیس والے اپنی دھن میں گم۔ ان کو نہ ٹریفک کی پروا اور نہ ہی کسی خطرے کا احساس ہے۔ اگرچہ کچھ جگہ پر عسکری دستے نظر آتے ہیں۔ مگر وہ ان پولیس والوں کو نہیںبدل سکتے۔
میری دعا ہے کہ سب کچھ خیر اور خیریت سے ہو جائے میں اور میری طرح کے لوگ گھر میں بیٹھ کر لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں گے۔ اور جب ان کو اسٹیڈیم میں اپنا کوئی دوست یا اعلیٰ اشرافیہ کی پھرتیاں اور کرکٹ پر تبصرہ کرنے والے حیران ہوں گے کہ ٹکٹ والے تو اسٹیڈیم کے باہر خوار ہو رہے ہیں اور سٹیڈیم خاص لوگوں سے بھر چکا ہے تو میری بیٹی ضرور کہے گی کہ آپ کے اصول فرسودہ ہو چکے ہیں۔ ان کی اس سماج کو ضرورت نہیں۔ وقت بدل رہا ہے اور آپ بدلنے کو تیار نہیں۔ میں کیا کروں وقت ان کے لئے بدل رہا ہے جو عوام کو خیر نہیں دیتے بس خبر ہی دیتے رہتے ہیں وہ بھی نامکمل۔ رہی بات ٹکٹ کی تو میری بیٹی دل میں ضرور کہہ رہی ہوگی ’’بابا ! آپ میچ ہار گئے ہیں۔‘‘

.
تازہ ترین