• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معاملہ کوئی بھی ہو اسے سیاست کی نظر سے دیکھنا عمومی روش بن چکی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ روش اکثر اوقات قومی مفادات کو بھی بالائے طاق رکھ دیتی ہے۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور مخالفین کو ہدف تنقید بناناسیاست کی مجبوری سہی، مگر قابل تشویش بات ہے کہ قومی اہمیت کے حامل حساس معاملات میں بھی عموما یہی طرز عمل اختیار کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ دہشت گردی جیسا نہایت اہم قومی معاملہ بھی سیاست زدگی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ اس سال وسط فروری میںدہشت گردی کی ایک زبردست لہر اٹھی، جس نے چاروں صوبوں کو متاثر کیا۔پانچ دن میں دہشت گردی کے نو واقعات ہوئے۔ رنج و الم کی اس فضا میں قوم کا درد بانٹنے ، عوام کا حو صلہ بڑھانے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کے بجائے،کچھ سیاسی رہنما مخالفانہ بیان بازی اور الزام تراشی میں الجھے نظر آئے۔ 13 فروری کو لاہور میں چیئرنگ کراس کے مقام پر دہشت گردی کا المناک سانحہ پیش آیا۔ کیپٹن (ر) احمد مبین اور زاہد گوندل جیسے اچھی شہرت کے حامل پولیس افسران شہید ہوگئے۔پولیس کے جوانوں اور عوام کی قیمتی جانیں بھی اس حادثے کی نذر ہوئیں۔ اس صورتحال میں ایک سیاسی جماعت کے رہنما پنجاب حکومت پر برس پڑے ۔اور اس سانحے کو پنجاب پولیس کی نا اہلی اور ناقص کارکردگی کا شاخسانہ قرار دے ڈالا۔ اگلے ہی روز پشاور میں دہشت گردی کا ایک افسوسناک واقعہ رونما ہوا۔وہاں بھی کئی افراد شہید اور زخمی ہوگئے۔ کیونکہ پختونخواہ میں مذکورہ سیاسی رہنما کی جماعت کی حکومت تھی، اس لئے انہوں نے منہ پھیر لیا۔ صوبائی حکومت کی سرزنش کی اور نہ ہی پولیس کو قصوروار ٹھہرایا۔
دہشت گردی کی سب سے بڑی واردات صوبہ سند ھ میں ہوئی۔ مگر اس موقع پر بھی پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے مرکز اور بالخصوص وزارت داخلہ پر سنگ باری شروع کر دی۔ سہون شریف میں لعل شہباز قلندر کی درگاہ میں ہونے والے دھماکے میں 80 قیمتی جانیں چلی گئیں۔ کم و بیش 300 افراد زخمی ہوئے۔صورتحا ل یہ تھی کہ حملے کے وقت درگاہ میں سیکورٹی کا انتظام نہ ہونے کے برابر تھا۔ عدم ادائیگی کی بنا پر بجلی کا کنکشن منقطع تھا۔ دھماکے کے بعد زخمی ابتدائی طبی امداد سے محروم رہے، کیونکہ علاقے میں کوئی مناسب اسپتال موجود نہ تھا۔ ایمبولینس کی عدم دستیابی اور خستہ حال سڑکوں کی وجہ سے زخمیوں کو بروقت اسپتال نہ پہنچایا جا سکا۔ اس تاخیر کی بنا پر کئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں، جوبصورت دیگر بچائی جا سکتی تھیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ درگاہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے آبائی انتخابی حلقے میں واقع ہے۔ انکے والد سید عبد اللہ شاہ بھی اسی حلقے سے منتخب ہوتے رہے۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں وہ سندھ کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔ اسکے باوجود سہون میںتعمیر و ترقی کا نام و نشان نہیں۔ جب میڈیا اس حادثے کو حکومت سندھ کی غفلت قرار دے رہا تھا، اس وقت اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ قوم کو یہ بتانے میں مصروف تھے کہ مرکزی حکومت کیطرف سے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں کوتاہی کی وجہ سے قوم کو لاشیں اٹھانا پڑرہی ہیں۔ کاش کوئی شاہ صاحب کو یاد دلاتاکہ انہوں نے اپنے پانچ سالہ عہد حکمرانی میں دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کے لئے کیا کچھ کیا اور کتنے ایکشن پلان مرتب کیے۔ سید خورشید شاہ اس امر سے بھی بخوبی آگاہ ہونگے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد مرکزی اورصوبائی حکومتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔سہون میں اسپتال اور سڑکیں نہ ہونا، درگاہ میں سیکورٹی کا ناقص انتظام، ابتدائی طبی امداد اور ایمبولینس کی عدم دستیابی کے باعث زخمیوں کی ہلاکتیں، ایسے معاملات ہیں جنکا نیشنل ایکشن پلان سے قطعا کوئی تعلق نہیں۔ یہ خالصتا حکومتی کارکردگی سے متعلق معاملات ہیں۔
لاہور اور ملک کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد آپریشن رد الفساد کا آغاز ہوا۔ جسکے باعث رینجرز کی موثر کارروائیوں کا سلسلہ پنجاب میں بھی پھیل گیا۔ یوں اپوزیشن کاسیاست زدگی پر مبنی دیرینہ مطالبہ پورا ہوا کہ پنجاب میں بھی رینجرز کی مد د سے آپریشن ہونا چاہئے۔ پنجاب میں کالعدم تنظیموں ، غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں ، دہشت گردوں اور مشکوک افراد کے خلاف کریک ڈائون جاری ہے۔ سینکڑوں گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔ نہایت افسوسناک پہلو ہے کہ بعض اپوزیشن جماعتوں نے ان کارروائیوں کو پختون مخالف اقدامات کا رنگ دے ڈالا۔ گویا ایک بار پھر سیاست قومی مفاد پر غالب آگئی۔ ہم برسوں سے بجا طور پر دنیا کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بھی کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ پھر کیا جواز ہے کہ داخلی طور پر ہم صوبے ، رنگ و نسل اور قومیت کی بنیاد پر دہشت گردوں کی تقسیم کر تے نظر آتے ہیں۔
اس قضیے میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے بیانات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ جماعت اسلام کے نام پر سیاست کرتی ہے۔ صوبائی یا علاقائی عصبیت کی سیاست کبھی بھی جماعت اسلامی کا طرز سیاست نہیں رہا۔ کیا ہم سقوط ڈھاکہ کا دلخراش سانحہ بھول گئے ہیں۔ منافرت اور عصبیت کی یہ آگ اسی طرح بھڑکائی گئی تھی۔ اس وقت بھی ہمارے دشمن اس پروپیگنڈے کو ہوا دے رہے تھے اور آج بھی جو لوگ دانستہ یا نا دانستہ ایسا کر رہے ہیں، وہ ملک و قوم کی خیر خواہی نہیں کر رہے۔ یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ دہشت گردی کے عفریت کا مقابلہ کرنے کے لئے قومی یکجہتی اور اتحاد و یگانگت بنیادی اجزا ہیں۔ تقسیم کی لکیریں ، چاہے وہ کسی بھی نام سے ہوں ، قومی سلامتی کے منافی ہیں۔ اس صورتحال میں سیاسی رہنمائوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ محض سیاسی حریف کو نیچا دکھانے کے لئے قومی یکجہتی سے نہ کھیلیں۔ سیاست دانوں کی جانب سے تعصب پر مبنی بیانات وفاقی اکائیوں کے مابین رنجش اور عداوت کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت پنجاب کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس تاثر کو زائل کرنے میں اپنا کردارادا کرئے۔ پختون بھائی بڑی تعداد میں روزگار کے سلسلے میں پنجاب ہی نہیں چاروں صوبوں میں مقیم ہیں۔ لازم ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی رجسٹریشن یا دہشت گردوں کے تعاقب کے دوران ہر ممکن احتیاط ملحوظ رکھی جائے۔ خوش آئند امر ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس صورتحال کا نوٹس لیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپریشن رد الفساد کی باگ ڈور مسلح افواج کے ہاتھ میں ہے جو کسی نوع کے تعصب کا شائبہ تک نہیں رکھتی۔

.
تازہ ترین