• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نہیں جانتا کہ اس خبر پر خوشی کا اظہار کروں یا افسوس کا کہ پیو ریسرچ کے مطابق 2050میں مسلمانوں کی تعداد اتنی بڑھ جائے گی کہ وہ عیسائیوں سے آگے نکل جائیں گے۔ اس وقت بھی عیسائیوں کے بعد مسلمان دنیا میں سب سے زیادہ ہیں کہ اس رپورٹ کےمطابق 2050تک یورپی آبادی کا 10فیصد جبکہ امریکی آبادی کا 2.1فیصد حصہ مسلمانوں پر محیط ہوگا۔ پیو کی اس رپورٹ پردنیا میں بہت سے لوگ خوشی کےشادیانے بجا رہے ہوں گے لیکن اس بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے لئے وسائل کاپیدا کرنا اتنا بڑا مسئلہ ہوگا کہ یہ بات مجھ ایسے لوگوں کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔
ہم نے جیسے پہلے ذکر کیا کہ اس وقت بھی مسلمانوں کی تعداد دنیا میں عیسائیوں کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ اس گنتی میں یہودیوںکا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ بدھ مت کے پیروکار اور ہندو بھی خاصی بڑی تعدادمیں دنیا میں بس رہے ہیں۔ ان کی تعداد کروڑوں اور اربوں میں ہے۔ یہودی البتہ دنیا میں ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ہیں۔ یہ ڈیڑھ کروڑ لوگ دنیا میں کیا کر رہے ہیں؟انہوں نے اپنی قوم اور پھر دنیا بھر میں لوگوں کے لئے کیا کارنامے سرانجام دیئے ہیں؟ کیا آبادی کی اس قلت نے ان کی عسکری قوت میں کسی طرح کی کمی پیدا کی ہے؟ یہ سب سوال اس حوالے سے ہمیں سوچ بچار پر مجبور کرتے ہیں۔ جب تک سوال ان کی تعداد اور اس کے مقابلے میں ان کی عسکری قوت کا ہے تو ہم جانتے ہیں کہ صرف ڈیڑھ کروڑ ہونےکے باوجود عرب ملکوں کی اکثریت ہونے والی پچھلی جنگ میں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی تھی بلکہ ہوا تو یہ کہ اس جنگ کے نتیجےمیں یہودی عرب ملکوں کے کافی بڑے حصے پر قبضہ کر بیٹھے اور ان کے قبضہ کئے ہوئے علاقوں کواب تک چھڑایا نہیں جاسکا۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر سائنس کے میدان میں یا معاشی ترقی کے حوالے سے دیکھا جائے تو انہوں نے ایسے ایسےکارنامے سرانجام دیئے ہیں کہ ہم مسلمان اپنی اتنی بڑی تعداد کے باوجود شرمسار سے دکھائی دیتے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے کم ہونے کےباوجود سائنس اور دوسرے میدانوں میں نوبیل انعام کی ایک بڑی تعداد کا تعلق اسی نسل سے ہے۔ دنیا میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کا تناسب بھی اگر تعداد کے حوالے سے کیاجائے تو یہودی ہی سرفہرست نظر آتے ہیں۔ ادب کا میدان ہو، پولیٹکل سائنس کا، جرنلزم یا معیشت اس سب میںیہودی چھائے ہوئے ہیں۔ ان کے بڑے بڑے سائنس دانوں نے جہاں اسرائیل کو اور یہودیوں کو مضبوط کیا ہے وہیں سائنس کے میدان میں ان کی تحقیق نے دنیا میں فہم و فراست کے راستے کھولے ہیں۔ تعداد کی کمی نے نہ تو ان کو عسکری طور پر کمزور کیا ہے اور نہ ہی علمی طور پر۔
اب ذرا اپنے لوگوں کی مثال لے لیں۔ بڑی تعداد کے باوجود دنیا میں تعلیم کے لحاظ سے مسلم دنیا بہت پیچھے نظر آتی ہے۔ یہ سائنسی تحقیق ، فنون ہوں یا آرٹس سب میدانوں میں اتنی بڑی تعداد بھیڑ بکریوں کی طرح ہی نظر آتی ہے۔ اکثر بڑے بڑے اسلامی ملک اپنےعوام کے لئے نہ تو لوگوں کی فلاح کے کاموں میں دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان کے ہاں کوئی قابل ذکر یونیورسٹیاں ، سائنس لیبز اور ریسرچ کے ادارے نظر آتے ہیں۔ بڑے بڑے تیل کے ذخائر رکھنے والے ملکوں نے اپنے ہاں بڑی بڑی عمارتیں تو کھڑی کردیں، سڑکوں کے جال بچھا دیئے لیکن تعلیم بہتر نہ کر پائے۔ ان کےاپنے حال یہ ہیں کہ ایک بڑی اسلامی ریاست کےسربراہ جب ایک دوسری اسلامی ریاست کے دورے پر جاتے ہیں تو ان کے ساتھ موجود ان کے ذاتی ملازمین اورشاہانہ آن بان نے سب کو حیران کرکے رکھ دیا ۔ اس دورے پر ان کے ساتھ 460 ٹن وزن پہنچا ہے۔ اس میں آٹو میٹک لفٹس، گاڑیاں، سونے کا پانی پھرا جہاز اور 620ملازمین ہیں۔ اس کے علاوہ بھی 800سرکاری افراد اس وفد کا حصہ ہیں۔ یہ سب لوگ جن میں 25افراد شاہی خاندان کے ہیں 36فلائٹس کے ذریعے آٹھ دنوں میںپہنچے ہیں۔ یہ پانچ دن تو سرکاری دورہ کریں گے اور پھربعد میں کچھ روز ایک جزیرے پر چھٹیاںگزاریں گے۔ اس طرح کے اللے تللے کیا دنیاکےامیر ترین ملک امریکہ کے صدر کرتے ہیں ؟ ابھی حال ہی میں اسرائیل کے وزیراعظم نے امریکہ کادورہ کیا ہے۔ کیا ان کا وفد اس شاہانہ طرز کا مقابلہ کرسکتا ہے؟ اس شاہانہ دورہ پر کتنے پیسے خرچ ہوںگے؟
اس تمام رقم یا اس طرح کےطرز ِ معاشرت سے کتنی یونیورسٹیوں اور سائنس کی ریسرچ لیبارٹریوں کو گرانٹ دی جاسکتی تھی؟ اس بارے میں ظاہر ہے غور نہیں کیا جائے گا۔ ان خلیجی ریاستوں کے عوام کا طرز ِ معاشرت بھی اور ان کی ذہنی حالت بھی یورپی اور ترقی یافتہ ملکوں کے لوگوںکے لئے لطائف کاسامان بہم پہنچاتی ہے۔ ان کے ہاں ذہنی اور اخلاقی سطح پر اتنی گراوٹ آچکی ہے کہ جس کاکوئی حساب ہی نہیں۔ عرب ملکوں میں کام کرنے والے ہمارے دوست ڈاکٹرز اور انجینئرز جب ان ملکوں کی لوکل آبادیوں کے حوالے سے واقعات بیان کرتے ہیں تو کانوں کو ہاتھ لگانے کو جی چاہتا ہے۔
اب اگر اس طرح کے مسلمان آبادی کے لحاظ سے دنیا میں سب سے آگے نکل جائیں گے تو فائدہ کس کا ہوگا؟ یہ اتنے سارے لوگ کیا کریں گے؟ یہ سوائے اس کے اللہ کے بنائے اس کرۂ ارض پر بوجھ بنیں گے اور کچھ نہیں کرسکتے۔ بقا اس میں ہے کہ انسان پیراسائٹ بننےکی بجائے مفید انسان بنے لیکن افسوس کہ ہم زیادہ کے ساتھ ساتھ اورز یادہ بڑے پیراسائٹ بنتے جارہے ہیں۔



.
تازہ ترین