• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم نے 19فروری کے اپنے کالم میں یاد دلایا تھا’’ جب فرنگی ہندوستان پر قابض ہوا، تو ہر طرف وہ ہر طرح کے مزوں سے لطف اندوز تھا ....لیکن خیبر میں 18برس پولیٹیکل ایجنٹ رہنے والے البرٹ وربرٹن اپنی کتاب "Eighteen years in Khyber" میں یوں بد مزہ ہوتے ہیں۔ ’’ 25سال سے پورے ہندوستان پر ’پرامن‘ قبضہ جمائی برطانیہ کی عظیم طاقت کے لئے نیم وحشی قوم پٹھان درد سر ہے، ان کا اہم شہر پشاور ایک ہیبت کدہ ،جہاں شہر سے دو میل دور بھی انگریز کی جان کی ضمانت نہیں میجر جیمز اپنی کتاب  ’’وحشی قوم‘‘ میں چِلا اُٹھتے ہیں ’’پٹھان اور خون آشامی ہم معنی الفاظ ہیں‘‘ چنانچہ سر الفریڈ دوٹوک فیصلہ سناتے ہیں ’’پٹھان قوم کے کردار پر نگاہ ڈالتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ ان پر تشدد سے حکومت کی جائے کیونکہ جنگلی گھوڑے کو ریشم کی لگام نہیں دی جاسکتی....‘‘ یوں پختونوں کی وحدت کو تقسیم اور ایف سی آر جیسے کالے قوانین بروئے کار لائے گئے.... لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آج پاکستانی حکمرانوں کو بھی خدانخواستہ ایسی ہی کسی صورت حال کا سامنا ہے کہ انہوں نے انگریز کا وہی کالا قانون ایف سی آر نافذ کر رکھا ہے؟ یہ وطن سب کا ہے، اب جب سب کہہ رہے ہیں کہ فاٹا کو پختونخوا میں شامل کیا جائے تو آخر حکومت کیوں اپنا مذاق اُڑانے پر بضد ہوچلی ہے۔ ‘‘ قبل ازیں 24جنوری کو ہم نے عرض کیاتھا’’جناب وزیراعظم صاحب! مسلم لیگ کے پاس تاریخ بنانے کا سنہرا موقع ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آپ کی جماعت تاریخ ساز ہے یا کسی شاہ شجاع کے ساتھ تماشے سجا کر انگریز کی باقیات کوہی باقی رکھنے پر آمادہ ہے‘‘ !
مقام ِصد شکر ہے کہ وفاقی کابینہ نے فاٹا کے پختونخوا میں انضمام کی منظوری دیدی ہے اور یوں وزیر اعظم نواز شریف صاحب تاریخ ساز ٹھہرے۔ جیسا کہ آغاز تحریر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انگریز کا یہ کالا قانون جو ایف سی آر کہلایا، کس قدر جبر و استبداد کا مرقع تھا، بس یوں سمجھ لیتے ہیں کہ اگرچہ قبائل کے پختون فرنگی استعمار کے خلاف مزاحم رہے لیکن اس کی پاداش میں جو مظالم انہوں نے سہے ، شاید چنگیز خان و ہلاکو خان نے ایسے طوراپنے دور میں اخترا نہ کر پائے ہوں۔ پھر آزادی کے بعد اپنے پیارے پاکستان میں بھی ان کے ساتھ روا ناانصافیوں کی آواز جیسے صدا بہ صحرا ہی ثابت ہوتی رہی ۔ یہاں تک کہ امریکہ بہادر، ہمارے ضیا الحق و جنرل اختر عبدالرحمن تا جنرل حمید گل و کرنل امام کے قبائل میں لا بسائے گئےعرب، چیچن و ازبک نے بھی جب مقامی قبائل کے خلاف بربریت کا بازار گرم کیا تو کوئی بھی پاکستانی ان کی شنوائی کے لئے نہ چل دوڑا، گویا عالم بے بدل رئیس امروہوی نےجیسے قبائل ہی کے لئے کہا ہو۔
کس نے دیکھے ہیں تری روح کے رستے ہوئے زخم
کون اُترا ہے ترے قلب کی گہرائی میں
ہاں ظلمتِ شب کا آخری نظارہ اُبھرتے ہوئے سورج کا روشن استعارہ ہی ہے سو! مبارک ہو، قبائل کے ان کروڑوں مرد و زن، بچوں و بزرگوں کو کہ 1848سے ان پر مسلط پونے دو صدی پر محیط سیاہ رات کی صبح ہونے والی ہے۔ حضرت اقبال ندا دیتے ہیں:
کھول آنکھ، زمین دیکھ فلک دیکھ، فضا دیکھ!
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
بے تاب نہ ہو، معرکہ بیم و رجا دیکھ!
آئینہ آیام میں آج اپنی ادا دیکھ!
تعمیر ِخودی کر، اثر آہِ رسا دیکھ!
اے پیکرِ گِل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ!
کیڑے نکالنے والے تو ویسے بھی اس کاروبار میں یکتا ہیں لیکن جو بات ہے وہ سو باتوں کی وہی بات ہے جو اسفند یار ولی خان صاحب نے کہی ہے۔ ’’ہم فاٹا اصلاحات کے اعلان کو خوش آئند قرار دیتے ہیں، اسے قبائلی عوام، فاٹا کے ارکان اسمبلی، فاٹا سیاسی اتحاد کی فتح قرار دیتے ہیں‘‘! بلاشبہ فاٹا اصلاحات اور پختونخوا میں انضمام کی کوششوں پر اے این پی، جماعت اسلامی،مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، قومی وطن پارٹی سمیت وہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں لائق تحسین ہیں جنہوں نے اس تحریک میں فاٹا کے منتخب اراکین اسمبلی اور تنظیموں کے ہاتھ مضبوط کئے۔ تاہم دل و دماغ اور نظروں کے لئے خیرہ کن سچ یہ ہے کہ یہ کمالِ بے مثال فاٹا کے باشعور عوام، ان کے منتخب نمائندوں و تنظیموں کی بدولت ہی ممکن ہوا چاہتا ہے۔ اگرچہ ابھی بھی سارے اقدامات عمل کی دہلیز سے دور ہیں، لیکن یہ طے ہے کہ اب کوئی بھی کسی بھی طور حالتِ معکوس کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ پھر تمام اسٹیک ہولڈر زکی نیت جو بظاہر ہے وہ صاف و مانندِ آئینہ ہے۔ یوںکہنا یہ تھا کہ کچھ عرصہ قبل تک یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ فاٹا سے ایسی لہر اٹھے گی کہ جو انگریزوں کی تمام باقیات کو خس و خاشاک بناکر ہوا میں اڑا دے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب فاٹا اصلاحات کمیٹی بنی تھی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کے نتیجے میں پختونخوا میں انضمام کے خیر و بھلائی کا تاریخی عمل وقوع پذیر ہوگا۔ بلاشبہ یہ قبائل کے نمائندوں کے نیشنلزم، اپنے عوام سے بے مایاں محبت اور انگریز کے کالے قوانین سے نفرت کاپختونخوا کے بلند و بالا کوہساروں’’تاترہ وایلم‘‘ سے بھی بلند عزم و شعور کا پہاڑ جیسا ثبوت ہے۔
اب جیسا کہ تاثر تھا کہ بعض وجوہ کی بنیاد پر مسلم لیگ نہیں چاہتی ہے کہ فاٹا پختونخوا میں ضم ہو، تو یہ تاثر تو زائل ہونے کو ہے اور جیسا کہ اسفند یار ولی کا کہنا ہے کہ حکومت فاٹا اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ کو من و عن منظور کرے ، جب ایسا ہوجائے گا تو سارے شکوک و شہبات خلا میں تحلیل ہوجائیں گے۔ اس تناظر میں تو وزیر اعظم نے دھوکہ نہیںدیابلکہ قوم کی امنگوں کی ترجمانی کی ہے۔ ہاں اگر مولانا فضل الرحمن صاحب سے کوئی دھوکا ہوا ہے جیسا کہ وہ کہتے ہیں ،تو پھر مولانا صاحب دھوکہ دینے والوں کی حکومت میں بیٹھے کیوں ہیں!
یہاں ان اصحاب کا استدلال مگرقابل توجہ ہے جو کہتے ہیں کہ پختونخوا میں شمولیت کے لئے پانچ سال کی مدت بہت زیادہ ہے۔ ایسا ہے بھی، لیکن بہر صورت ایف سی آر کے خاتمے، ملکی قانون کے نفاذ اور انضمام کے حوالے سے در پیش مراحل کو طے کرنے کے لئے وقت تو درکار ہے۔ ریب وتشکیک اپنی جگہ ، لیکن آئینی ترمیم کے ذریعے 2018کے انتخابات میں پختونخوا اسمبلی میں فاٹا کے منتخب نمائندوں کی شمولیت ایک بہت بڑی پیش رفت ہی قرار پائیگی۔ رواج ایکٹ بنابریں مخمصہ ہے، کوئی بتلائے کہ پختونخوا کے موجودہ بندوبستی اور قبائل کے پختونوں کے رواج میں کیا کسی ’نقطے‘ کا بھی کوئی فرق ہے؟تاہم یہ تمام امور وقت کے ساتھ حل ہوتے جائیں گے۔ سب سے بڑی حقیقت وہ بیداری ہے جو قبائل و پختونخوا کے باشندوں سمیت پورے ملک میں پیدا ہوچکی ہے۔
بعض حلقے کہتے ہیں کہ حکومت نے ایک خاص سوچ کے تحت پانچ سال کی مدت رکھی ہے۔ اس مسئلے کو خلا میں معلق کرنے کے لئے مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کے فیز کی ناکامی کے بعد اب دوسرا فیز بروئے کار لایا گیا ہے۔ پاکستان میں کسی نتیجے تک پہنچنے سے قبل غیر یقینی کی روایات دیرینہ و مستحکم ضرور ہیں مگر اس ساری کشاکش کا حیات افروز پہلو یہ ہے کہ قبائل کے نوجوانوں کا شعوراب ثریا سےبوسہ زن ہوچکا ، لہٰذا کسی بھی حکومت کے لئے فاٹا کے پختونخوا میں انضمام کے بغیر اب سانس لینا بھی دشوار بلکہ دشوار تر ہوگا....



.
تازہ ترین