• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پختون بھائی پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان کا شمار دنیا کی صف اول کی محنتی جفا کش اور غیور اقوام میں ہوتا ہے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں ہمارے پختون بھائیوں کا کردار انتہائی نمایاں اہمیت کا حامل ہے ۔ہمارے پختون بھائیوں میں مزدوروں سے لے کر بڑے بڑے کارخانوں کے مالکان بھی شامل ہیں لیکن ان کا طرز زندگی انتہائی سادہ ہے یہ قوم انتہائی مہمان نواز بھی ہے۔ ہمارے یہ پختون بھائی مسلح افواج اور دیگر سیکورٹی اداروں میں اپنی خدمات بخوبی انجام دے رہے ہیں ۔قومی اداروں کیلئے ان کی بہادری ،ذمہ دارانہ شجاعت کی داستانیں ناقابل فراموش ہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان میں دہشت گردی کی جو لہر چل رہی ہے اس میں بھی اسی قوم نے نا صرف سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں بلکہ بے پناہ جانی اور مالی نقصان بھی اٹھایا ہے۔ ہمارے قبائلی علاقہ جات میں رہنے والے پختون بھائی آج بھی اپنے ہی ملک میں مہاجر کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں یہ قربانیاں وہ صرف اور صرف اپنے وطن عزیز پاکستان کے لئے دے رہے ہیں ۔
چند روز قبل لاہور میں ہونے والے بم دھماکہ کے بعد یہ خبریں اور افواہیں عام ہیں کہ پنجاب میں پختون بھائیوں کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے ان کے گھروں پر چھاپے مار کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے ان کو ہر وقت جیب میں قومی شناختی کارڈ رکھنے کی ہدایات دی جا رہی ہیں اور وہ جہاں کہیں بھی کاروبار کر رہے ہیں وہاں ان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مکمل کوائف متعلقہ تھانہ میں جمع کروائیں اسی طرح اگر ان کے گھر کوئی مہمان آتا ہے تو اس کی بھی اطلاعات دینے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ یہ تمام خبریں اور افواہیں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں جس پر سیاسی جماعتوں نے اپنی دکانداری چمکانا شروع کر دی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ پنجاب حکومت کی سرپرستی میں پختون بھائیوں کے خلاف کارروائیاںکی جا رہی ہیں پنجاب پولیس ان کو زبردستی پکڑ کر تھانے لے جاتی ہے اور پوچھ گچھ کے دوران ان سے ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف جس کی خیبر پختونخوا میں حکومت ہے موجودہ صورتحال کے پیش نظر ان کا بھی مؤقف پیپلز پارٹی سے مختلف نہیں۔ عمران خان نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت کی سرپرستی میں پختونوں کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں ان کو جان بوجھ کر تنگ کیا جا رہا ہے اور ان کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر پنجاب سے چلے جائیں۔ پختونوں کی ایک نمائندہ جماعت پاکستان عوامی پارٹی جو صرف اور صرف پختونوں کیلئے سیاست کرتی ہے اس موقع پر ان کے سربراہ کا بیان انتہائی حوصلہ افزا ہے۔ پاکستان عوامی پارٹی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ پختونوں کے ساتھ پنجاب میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار پنجابی نہیں بلکہ کچھ موقع پرست اور بغض رکھنے والے لوگ ہیں ۔
وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس حوالے جو اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے وہ قابل ستائش ہیں ہم امید کرتے ہیں کہ وہ پختونوں کے خلاف اگرکوئی کارروائی ہو رہی ہے یا ان کے ساتھ پولیس انتظامیہ کی طرف سے کوئی ناروا سلوک کیا جا رہا ہے تو ناصرف اس کا ازالہ کیا جائے گابلکہ ان پختونوں کے حقوق کا تحفظ بھی کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پہلے پاکستانی بعد میں پختون ، پنجابی ، سندھی اور بلوچی ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ لاہور دھماکہ کے بعد پنجاب پولیس نے پختونوں اور افغانیوں کے خلاف کارروائی کی لیکن پولیس کا مؤقف ہے کہ ہم ان لوگوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں جو شک کی زد میںہیں لیکن یہاں یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ کچھ پختون بھائیوں کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہے ان کو ہراساں اور تنگ بھی کیا گیا ہے جو کہ قابل مذمت ہے اس تمام صورتحال کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے ناصرف فوری ایکشن لیا ہے بلکہ اپنے بیان میں وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ پختون بھائی ہمیں اتنے ہی عزیز ہیں جتنے پنجاب میں رہنے والے دیگر قومیتوں کے شہری ۔یہ اطلاعات بھی ہیں کہ حکومت پنجاب نے انتظامیہ اور پولیس کو سخت ہدایات جاری کی ہیں کہ پختون بھائیوں کو بلا جواز پریشان نہ کیا جائے ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ملک کے دیگر صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں جن میں بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے خود کو خیبرپختونخوا اورقبائلی علاقوں کا رہائشی ظاہر کرتے ہوئے قومی شناختی کارڈ حاصل کر رکھے ہیں ۔ میر اتعلق بھی لاہور کے اس علاقہ سے ہے جو بند روڈ کے بالکل ساتھ ہے ۔ بندروڈ دریائے راوی کے کنارے واقعہ وہ علاقہ ہے جہاں پر کبھی کچی بستیاں ہوا کرتی تھیں بچپن میں جب کبھی ہم راوی میں نہانے جایا کرتے تھے تو ہم نے وہاں پر افغان مہاجرین کو آتے اور بستے ہوئے دیکھا ۔
اب ان کی تیسری نسل وہاں پر رہ رہی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان افغانیوں میں سبھی لوگ اچھے نہیں اور تمام برے بھی نہیںہیں ۔ میں ذاتی طور پر اس حقیقت سے آگاہ ہوں کہ ان مہاجرین کا افغانستان میں رہنے والے لوگوں سے مسلسل رابطہ رہتا ہے اور وہ ان کے پاس غیر قانونی طور پر آتے جاتے ہیں اور شاید یہ بھی ممکن ہو کہ وہ یہاں پر عارضی طور پر رہائش بھی اختیار کرتے ہوں ۔ بند روڈ کے علاقہ میں منشیات فروشی اور ناجائز اسلحہ سمیت ہر قسم کے غیر قانونی کام ہوا کرتے تھے۔ پچھلے کچھ سالوں سے یہاں پر حکومت نے اپنی رٹ قائم کی ہے جبکہ 2009ء سے پہلے یہ بھی ایک طرح کا ’’نو گو ایریا‘‘ ہوا کرتا تھا۔ مشرف دور میں اس وقت کی حکمران جماعت کے مقامی سیاستدانوں نے افغان مہاجرین کے ووٹ لینے کی خاطر ان کے قومی شناختی کاررڈ بنوا دیئے تھے مجھے بخوبی علم ہے کہ ان دنوں میں لگ بھگ 5000 افغان مہاجرین کے قومی شناختی کارڈز بنوائے گئے تھے ۔
اسی طرح لاہور سمیت پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی افغانیوں کے پاکستانی قومی شناختی کارڈز سیاسی بنیادوں پر بنوائے گئے ۔میں اپنے ذاتی مشاہدہ اور انٹیلی جنس رپورٹ کی روشنی میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے ایسے ہی ملک دشمن عناصر اور سہولت کاروں کاہاتھ ہے اور یہی لوگ تاحال پاکستان دشمن سرگرمیوں کے لئے کردار ادا کر رہے ہیں۔ لہٰذا ایسے عناصر کا خاتمہ بھی ضروری ہے تا کہ ملک میں دہشت گردی کا ناسور ہمیشہ کے لئے ختم ہو سکے ۔
تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ ملک دشمن عناصر اور سہولت کار ہمارے پختون بھائیوں کا روپ دھار کر ان کی صفوں میں داخل ہو چکے ہیںدرحقیقت انہی کی تلاش میں ہمارے پختون بھائیوں کے ساتھ زیادتی اور ناروا سلوک بھی ہو رہا ہے ۔ اس ضمن میں حکومت وقت کو ایک مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جبکہ ملک بھر میں بسنے والے پختون بھائیوں سے بھی درخواست ہے کہ اگر ان کی صفوں میں یہ ملک دشمن عناصر چھپنے کی کوشش کریں تو وہ رضا کارانہ طور پر متعلقہ حکام کو آگاہ کریں، سیاسی جماعتوں سے بھی اپیل ہے کہ وہ ملک میں جاری رد الفساد آپریشن کو کامیاب بنانے کے لئے اس حساس ایشو پر سیاست مت کریں۔




.
تازہ ترین