• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) کا 13 واں سربراہی اجلاس یکم مارچ کو اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں 5 ممالک کے صدور، 3 وزرائے اعظم اور ایک نائب وزیراعظم نے شرکت کی۔ اجلاس سے قبل مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ اور سینئر حکام کے اجلاس بھی ہوئے۔ حالیہ اسلام آباد اجلاس کا موضوع ’’علاقائی خوشحالی کیلئے روابط‘‘ تھا جس میں توانائی، تجارت، ٹرانسپورٹ اور کمیونی کیشن کے شعبوں کو فوکس کیا گیا۔ اجلاس میں ECO ویژن 2025ء کی منظوری دی گئی جس کے تحت آئندہ 3سے 5 سالوں میں باہمی تجارت کو دگنا کرنے اور علاقائی روابط مزید بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف کو حالیہ اجلاس میں ای سی او تنظیم کا چیئرمین منتخب کیا گیا جو پاکستان کیلئے بڑے اعزاز کی بات ہے۔
ای سی او ممالک توانائی، زراعت، قدرتی و معدنی وسائل کی دولت سے مالا مال ہیں جن کی آبادی دنیا کی آبادی کا 16 فیصد ہے۔ ای سی او ممالک ایشیاء کو یورپ سے ملانے میں ایک پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اجلاس کے دوران ای سی او چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز(ECO-CCI) کے رکن ممالک کا یکم مارچ سے 3مارچ تک فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) کی میزبانی میں اسلام آباد کیپٹل آفس میں اجلاس منعقد ہوا جس میں پاکستان، ترکی، ایران، تمام وسط ایشیائی ریاستوں کی فیڈریشنز، چیمبرز کے صدور اور ای سی او چیمبرز کے اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی۔ افغانستان نے بھارت کے دبائو پر ای سی او چیمبرز کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ اجلاس میں صنعت و تجارت، سرمایہ کاری، سیاحت کے فروغ اور سی پیک پر اہم پریزنٹیشن پیش کی گئیں۔ میں نے ای سی او چیمبرز کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے اس اہم اجلاس میں شرکت کی اور پریزنٹیشن پیش کی۔ اجلاس سے وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خان، ECO چیمبرز اور FPCCI کے صدر زبیر طفیل، ای سی او کے سیکریٹری جنرل ایمبسیڈر ہلال ابراہیم آکو، ترک فیڈریشن (TOBB) کے صدر رفعت حصارسی اگلو، ایرانی فیڈریشن (ICCIMA) کے صدر غلام حسین شافی، ایران کے ایکو چیمبرز کے سیکریٹری جنرل محمد رضا کرباسی اور سارک چیمبرز کے نائب صدر افتخار علی ملک نے خطاب کیا۔ اس موقع پر FPCCI کے نائب صدر اور صنعت و سرمایہ کاری کمیٹی کے کنوینر اشتیاق بیگ نے ’’پاکستان کی صنعت و تجارت جبکہ میں نے’’پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع‘‘ پر پریزنٹیشن پیش کیں جو آج قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔
2015ء میں ای سی او ممالک کی دنیا سے تجارت 635 ارب ڈالر میں سے ای سی او ممالک کی باہمی تجارت 51 ارب ڈالر تھی جو 8.3 فیصد ہے۔ اسی طرح دنیا کے مجموعی 1700 ارب ڈالر بیرونی سرمایہ کاری (FDI) میں ای سی او ممالک کی سرمایہ کاری 34 ارب ڈالر ہے۔ 1985ء میں پاکستان، ترکی اور ایران نے معاشی، ثقافتی اور سائنسی شعبوں میں باہمی تعاون بڑھانے کیلئے RCD ریجنل بلاک قائم کیا، 1992ء میں اس میں افغانستان، آذربائیجان، کرغزستان، قازقستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کو شامل کرکے 10 مسلم ممالک پر مشتمل اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن (ECO) تشکیل دیا گیا جس کا بنیادی مقصد ان ممالک اور خطے میں تجارت میں حائل رکاوٹوں کو مرحلہ وار ختم کرکے ان ممالک کے درمیان علاقائی تجارت کو فروغ دینا ہے۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹیشن، مواصلات، انفرااسٹرکچر، فری ٹریڈ، نجکاری، ڈرگ کنٹرول، ماحولیاتی آلودگی میں کمی اور ان ممالک کے درمیان ثقافت کا فروغ ای سی او کے اہم مقاصد تھے۔واضح رہے کہ ای سی او کا اکنامک ونگ ترکی،سائنسی ونگ پاکستان جبکہ ثقافتی ونگ ایران میں قائم ہے۔ای سی او چیمبرز کے پہلے دو سال صدارت ترکی، اس کے بعد ایران اور اب پاکستان کے پاس ہے لیکن ان تینوں ممالک کی کارکردگی کا جائزہ لے کر آئندہ سال ای سی او چیمبرز کے ہیڈ کوارٹر کا فیصلہ کیا جائے گا۔پاکستان میں ہیڈ کوارٹر کا قیام یقینا ہمارے لئے بڑے اعزاز کی بات ہوگی۔ اس لحاظ سے ای سی او کا حالیہ اسلام آباد اجلاس نہایت اہمیت کا حامل تھا جس میں ہم نے ای سی او ممالک کے اعلیٰ حکام سے لابنگ کی۔
پوری دنیا کی باہمی تجارت اور سرمایہ کاری میں فروغ کے کامیاب ماڈل پر نظر ڈالی جائے تو باہمی تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے علاقائی بلاکس سب سے کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ نارتھ امریکن بلاک نافٹا (NAFTA) کے ممبرز ممالک کے مابین باہمی تجارت 63فیصد سے زیادہ ہے، یورپی یونین کے بلاک (EU) میں باہمی تجارت تقریباً 50 فیصد ہے، اسی طرح آسیان (ASEAN) ممالک کے درمیان باہمی تجارت 24 فیصدہے۔ یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہمارے خطے کے اہم بلاک SAARC جس میں پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان، نیپال اور مالدیپ شامل ہیں، کے مابین تجارت صرف 6فیصد ہے جس کی اہم وجہ سارک بلاک کے دو اہم ممبرز بھارت اور پاکستان میں سیاسی اختلافات ہیں جس کی وجہ سے ہمارے خطے میں تجارت کو فروغ حاصل نہیں ہوسکا۔ اسی طرح مسلم ممالک پر مشتمل ایک اہم بلاک آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز (OIC)کے پلیٹ فارم کے تحت بھی مسلم ممالک نہ تو باہمی تجارت اور سرمایہ کاری بڑھاسکے اور نہ ہی معاشی اور سائنسی شعبوں میں کوئی قابل ذکر پیشرفت ہوئی لیکن ہماری مسلم ممالک کے بلاک ECO سے بڑی اُمیدیں وابستہ ہیں۔ ای سی او کے گزشتہ اجلاسوں کے ایجنڈے میں یورپی یونین کی طرز پر گڈز اور خدمات کیلئے ای سی او کی مشترکہ منڈی کے قیام اور ای سی او ممالک کے مابین تجارت اور توانائی کے کوریڈور پر زور دیا گیا تھا جبکہ حالیہ اجلاس میں ای سی او ممالک کے مابین ٹریڈ ایگریمنٹ (ECOTA) اور ای سی او ممالک کے بزنس مین کی بغیر ویزا آمد و رفت پر اتفاق کیا گیا۔ 3روزہ اجلاس کے دوران ای سی او مندوبین کے ہمراہ ہماری ملاقات صدر مملکت ممنون حسین، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر تجارت خرم دستگیرسے ہوئی جبکہ میرے دیرینہ دوست ترک فیڈریشن (TOBB) کے صدر رفعت حصارسی اگلو جو اپنی والدہ کی طبیعت خرابی کے باوجود اجلاس میں شرکت کیلئے خصوصی طیارے میں آئے تھے، سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے حالیہ ای سی او،سی ای او اجلاس کو بہترین طور پر منعقد کرانے پر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر زبیر طفیل، افتخار علی ملک اور ہمیں مبارکباد پیش کی اور ای سی او ہیڈ کوارٹرز کے پاکستان میں قیام پر ترکی کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔
ای سی او ممالک کی باہمی تجارت 2.9بلین ڈالر ہے جس میں پاکستان کی ای سی او ممالک کو ایکسپورٹ تقریباً 2بلین ڈالر اور امپورٹ 876ملین ڈالر ہے۔ پاکستان کی سب سے زیادہ ٹرانزٹ ٹریڈ افغانستان سے 1.8ارب ڈالر، دوسرے نمبر پر ترکی سے 500ملین ڈالر اور تیسرے نمبر پر ایران سے 300ملین ڈالر ہے مگر ترکی اور ایران سے باہمی تجارت میں گزشتہ چند سالوں سے کمی آئی ہے تاہم امید کی جارہی ہے کہ مئی 2017ء میں ترکی سے آزادانہ تجارتی معاہدے (FTA) اور ایران سے جلد ہی بینکنگ روابط شروع ہونے کے بعد ان دونوں ممالک سے تجارت 2ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ جائے گی۔خطے کے ممالک کے درمیان تجارتی روابط بڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ ای سی او ممالک زمینی راستے کے ذریعے تجارت کو فروغ دیں جیسا کہ یورپی ممالک میں جدید لینڈ روٹ نیٹ ورک پایا جاتا ہے لہٰذاای سی او ممالک کو بھی اپنی تجارت بڑھانے کیلئے لینڈ روٹ کے ذریعے محفوظ تجارتی نقل و حمل کویقینی بنانا ہوگا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بحری راستے کے ذریعے پاکستان سے ترکی تک کارگو تقریباً ایک ماہ میں پہنچتا ہے لیکن کچھ عرصہ قبل ٹرائل بنیاد پر اسلام آباد سے بھیجی گئی ایک کارگو ٹرین صرف 15دن میں ترکی پہنچ گئی اور اگر کمرشل بنیادوں پر کارگو آپریشن شروع کیا جائے تو انتہائی کم خرچ پر صرف 10دن میں پاکستان سے ترکی سامان پہنچایا جاسکتا ہے۔ ای سی او ممالک کو چاہئے کہ وہ پاکستان میں سی پیک منصوبوں سے فائدہ اٹھاکر اپنے علاقائی روابط بہتر بنائیں کیونکہ ای سی او میں شامل زیادہ تر ممالک تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہیں جبکہ کچھ ممالک کو توانائی کی اشد ضرورت ہے جسے ای سی او کے دیگر ممالک باہمی تعاون سے پورا کرسکتے ہیں۔

.
تازہ ترین