• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں عملی طور پر2018ءکے انتخابات کی غیراعلانیہ سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں۔ تمام قومی سیاسی جماعتوں نے اپنےاپنے امیدواروںکے انتخاب کے لئے تو کام کا آغاز کردیا ہے مگر کسی بھی پارٹی کے منشور کے بنیادی نکات اور خدوخال پر کسی کا بھی کوئی بیان سامنے آیا ہے اور نہ ہی کوئی دعویٰ۔ حالانکہ جمہوری ممالک میں سیاسی پارٹیاں پہلے عوام اور قوم کے سامنے اپنا منشور پیش کرتی ہیں اور پھر اس میں شامل نکات کی روشنی میں امیدواروں کا انتخاب کرتی ہیں مگر افسوس کہ پاکستان میں ہمیشہ سے صورتحال مختلف رہی ہے۔ یہاں مختلف سیاسی شخصیات کیلئے دیہی اور شہری علاقوں میں اثرورسوخ کی بنیاد پر چنائو کامعیار برقرار ہے تاہم 2013کے ہی انتخابات کاپس منظر سامنےرکھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نہ تو حکمران جماعت نےاپنے منشور کے مطابق سماجی اور معاشی اصلاحات کے ایجنڈے اور اعلانات پر عمل درآمد کیا اور نہ ہی حکومت مخالف پارٹیوں نے پارلیمنٹ کےاندر اور باہر اپنے منشور کی روشنی میں عوامی ایشوز کو اجاگر کیا۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن رسمی ضابطہ اخلاق جاری کرنے سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کو مجبور کرے کہ وہ انتخابی سرگرمیوں کے آغاز سے قبل تمام سیاسی جماعتوں کو پابند کرے کہ وہ اپنے منشور کے بنیادی نکات کو اجاگر کریں اور عوام کے سامنے پیش کریں۔ دوسری طرف سیاسی جماعتوں کو قومی نقطہ نظر سے اپنے اپنے منشور میں خوبصورت نعروں والے پلان شامل کرنے کی بجائے عملی طور پر معاشی اور سماجی اصلاحات کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی، اچھی گورننس اور ملک میں تعلیم و صحت اور بنیادی انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ایسے نکات کو سامنے لائیں جس سے ملک میں حقیقی معنوں میں معاشی اور سماجی شعبوں میں ترقی کاعمل آگے بڑھ سکے۔ اس وقت تو ہر چیز بہترین ہینڈلنگ سے ہو رہی ہے جس کے لئے میڈیا، بیوروکریسی اور دیگر تمام شعبوں اور اداروںکےذریعے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اب ملک میں عوام کا کوئی معاشی مسئلہ نہیں رہا۔ عوام کی اکثریت کو روزگار مل رہا ہے اور مہنگائی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ دوسری طرف بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں سے 2018اور اس سے آگے خوشحالی اور سکون کے دن آنے کے خواب دکھائے جارہے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ملک میںصنعتی کارخانوں کی ایک بڑی تعداد بند ہے یا بند ہونے کے قریب ہے۔ تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے اور ادائیگیوں کا توازن بگڑ رہاہے۔ لیکن مختلف عالمی برانڈ کے ذریعے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ معاشی فرنٹ پر سب اچھا ہے۔ یہ طرز ِ حکمرانی حقیقت اور حقائق کی ترجمانی نہیں کرتی اسی لئے الیکشن کمیشن تھوڑا سا قدم بڑھاتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو مجبور کرے کہ وہ انتخابات سے کم از کم چھ ماہ قبل اپنے اپنے منشور کااعلان کریں تاکہ عوام آئندہ انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کےلئے پورے سوچ و بچار کرسکیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ آئندہ الیکشن جب بھی ہوں گے اور جو مرضی نگران حکومت بنے، موجودہ حکمران جماعت کو لاہور سمیت اس کے کسی مضبوط سیاسی اور انتخابی علاقے میں کئی وجوہ کی بنا پر جھٹکے لگ سکتے ہیں۔

.
تازہ ترین