• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس خبر کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے کہ فوج کی ہائی کمان نے نیب کے حکام کو اس لینڈ سقم کی تحقیقات کی اجازت دے دی ہے جس میں مبینہ طور پر جنرل کیانی کے بھائی ملوث ہیں۔ یہ جاننے کے لئے کسی کو سائنسدان ہونے کی ضرورت نہیںکہ پاکستان میں قانون کے لمبے ہاتھ اُس وقت کوتاہ دکھائی دیتے ہیں جب اُنھوں نے اشرافیہ یا طاقتور افراد تک رسائی حاصل کرنی ہو۔ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اگر موجودہ آرمی چیف سے گرین لائٹ نہ ملتی تو نیب سابق آرمی چیف کے بھائیوں کی گرفتاری کے لئے چھاپہ مار ٹیمیں نہ بھیجتا۔ عام حالات میں آرمی چیف ہی فیصلہ کرتے کہ ایک سابق آرمی چیف کے بھائیوں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات سے فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، نیز دستوں کا مورال بھی گرنے کا اندیشہ ہے ، لیکن شکر ہے کہ موجودہ آرمی چیف نے ایسے کسی خدشے کو قریب نہیں آنے دیا۔
تاہم ڈی ایچ اے کااراضی ا سکینڈل اور نصف صفحے کے اشتہارات کی اشاعت میں زمین خریدنے والوں اور شہدا کے اہل ِ خانہ کے ساتھ کھڑے ہونے کے عزم کا اظہار بہت سے سوالات اٹھا دیتا ہے۔ سب سے بنیادی سوال نامور کالم نگار ، ایا ز امیر صاحب نے متعدد مرتبہ اٹھایا ہے کہ ہمار ی فوج رئیل اسٹیٹ بزنس کیوں کرتی ہے؟فوجی فائونڈیشن کا جمع شدہ رقم سے سستی زمینیں خریدنا،اپنی افرادی قوت استعمال کرتے ہوئے اسے ڈویلپ کرنا اور سروس مین میں گریجویٹی اسکیم کے تحت پلاٹ بنا کر تقسیم کردینا ایک بات ہے لیکن کیا فوج کا اصل کام قومی سلامتی کا دفاع ہے یا ایک کمرشل رئیل ا سٹیٹ ٹائیکون بن کر پاکستان بھر میں ہائوسنگ سوسائٹیز بنانا اور ان کے پرکشش اشتہارات دینا؟
جنرل کیانی آرمی چیف تھے تو اُن کے بھائی کا ڈی ایچ اےا سکینڈل میں اُس وقت مبینہ طور پر ملوث ہونا نہایت تکلیف دہ معاملہ ہے اور اس سے بہت سے نوکیلے سولات کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس اسکینڈل کی موجودگی میں فوج کے چیک اینڈ بیلنس کے نظام کی صحت پر کیسے بھروسہ کیا جائے جب آرمی چیف کی نظروں کے سامنے اُن کے بھائی کو وہ آرگنائزیشن رئیل اسٹیٹ کے تعمیراتی ٹھیکے دینا شروع کردے جس نے آرمی چیف کو ان امور کی رپورٹ پیش کرنا تھی؟کیا اس معاملے میں مفاد کا ٹکرائو غالب نہیں آئے گا؟ کیا ایک جونیئر آفیسر کنٹریکٹر کے خلاف تادیبی کارروائی کرسکتا ہے جب کنٹریکٹر آرمی کا بھائی ہو؟
اب ہمیں بتایا جارہا ہے کہ کچھ لالچی ٹھیکیداروں نے فراڈ کرتے ہوئے ڈی ایچ اےکی ساکھ پرعوام کے اعتماد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاری رقوم اپنی جیبوں میں ڈالیں، لیکن ڈی ایچ اے انتظامیہ میں شامل اُن افسران کے بارے میں کیا کہا جائے جنھوں نے وہ ٹھیکے دئیے؟ کیا یہاں ’’تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ‘‘ کا محاورہ مستعمل دکھائی نہیں دیتا؟ اگر عوام نے ڈی ایچ اے کے نام پر اعتماد کیا اور دھوکا کھا گئے تو کیا اس کی ذمہ داری اُن افراد پر نہیں آتی جو ڈی ایچ اے کو چلا رہے تھے؟جب عوام نے ڈی ایچ اے پر اعتماد کیا تھا تو پھر ہم کچھ سویلینز کے خلاف محدود سی کارروائی کیوں دیکھ رہے ہیں؟
رئیل اسٹیٹ بزنس دراصل اسی طرح کام کرتا ہے۔ آپ زمین حاصل کرتے ہیں، زمین کے مالکوں کے ساتھ خریداری کا معاہدہ کرتے ہیں، اورکچھ رقم بطور بیعانہ ادا کردیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ پرکشش تشہیری مہم چلاتے ہیں تاکہ لوگ اس ڈریم ہائوسنگ سوسائٹی میں رہائش حاصل کرنے کی خواہش کریں۔ اس کے بعد ایک یا دوسال میں وہ ایک ڈویلپڈ لینڈ بن جاتی ہے۔ آپ عوام سے رقم لیتے ہیں اور اُن کے ہاتھ فائلیں فروخت کرتے جاتے ہیں۔ یہ فائل دراصل مستقبل میں زمین کے ٹرانسفر کا ’’وعدہ‘‘ ہوتا ہے۔ تاہم فائل کی فروخت کے وقت وہ زمین آپ کے پاس موجود نہیں ہوتی۔ لوگوںسے حاصل کردہ رقم سے وہ زمین خریدی جاتی ہے جو فائل کے وعدےکے مطابق اُنہیں فروخت کی جائے گی۔ اس طرح لینڈ ڈویلپر ایک اور نئی سوسائٹی کا آغاز کردیتا ہے۔ اصل زمین کےکچھ مالک زمین فروخت کرنے سے انکار بھی کردیتے ہیں کیونکہ وہ دیکھتے ہیں اُن کی زمین کی قدر اُس سے کہیں زیادہ تھی جتنی اُنہیں دی جارہی تھی۔ اس سے زمین کے وہ حصے وجود میں آتے ہیںجو اسکیم کے اندر ہونے کے باوجود اس کا حصہ نہیں ہوتے۔ اس طرح وہ لوگ جنھوں نے فائلیں خریدی تھیں اور اُنہیں یہ زمین ملنی تھی، وہ کچھ حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ اس طرح کچھ قسطوںمیں ادائیگی کرنے والے بھی خود کو اس صورت ِحال سے دوچار پاتے ہیں کہ اُنھوںنے قسطیں تو اچھی زمین کی دی ہوتی ہیں لیکن اُنہیں خراب اور کم قدروالی زمین دے دی جاتی ہے۔
اس دوران زمین کی قیمت بڑھتی رہتی ہے تو خریدار کی بے چینی میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ ڈویلپرزمن مانی کرتے ہوئے ڈیولپمنٹ کے نام پر بھاری رقوم کا مطالبہ کرنے لگتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فائل پر کام ہورہا ہے۔ اب خریدار نے کئی سال تک انتظار کیا ہوتا ہے ، چنانچہ وہ نہیں چاہتا۔
کہ اُس کی فائل منسوخ ہوجائے، وہ رقم دے دیتا ہے،لیکن اس دوران زمین کی قیمت میں مزید اضافہ ہوچکا ہوتا ہے، چنانچہ اُسے مزید رقم کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ اس صورت میں ریاست خریدار کی مددکے لئے نہیں آتی اور نہ ہی اُسے عدالتوںسے کوئی ریلیف ملتا ہے۔ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا یہی کاروبار ہے ، اور اس میں کوئی راز نہیں ہے۔ تو کیا ڈی ایچ اے اس مستعمل طریقے سے ہٹ کر پراپرٹی بزنس چلا رہا ہے؟کیا یہ بات درست نہیں کہ ڈی ایچ اے بھی فائلز فروخت کرتا ہے اور بہت سے خریداروں کو کئی برسوں تک زمین نہیں مل پاتی؟کیا یہ درست نہیں کہ فائل خریدنے والوں کو اضافی اخراجات ادا کرنے پڑتے ہیں؟ اگر لوگ خریدے گئے پلاٹوں کو ڈویلپ کرنے کے لئے اضافی رقم ادا کرتے ہیں تو کیا وہ کیا کسی دیہی علاقے میں پلاٹ خرید رہے تھے؟ اگر ایسا تھا تو اُن سے اتنی بھاری رقم کیوں وصول کی گئی؟اگر دوسری نجی ہائوسنگ اسکیموں پر الزام لگا تھا کہ وہ عوام سے رقم لے کر پلاٹ فراہم نہیں کررہیں تو کیا ڈی ایچ اے پر بھی یہی الزام نہیں؟اگر ریاست عوام کا محنت سے کمایا ہواروپیہ لینڈ ڈویلپرز کی دست برد سے بچانے کا تہیہ کرچکی ہے تو ہمیں اس کاروبار کو کسی قانون اور ضابطے کے تحت لانے کی ضرورت ہے۔ ریاست کو چاہئے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی لینڈ ڈویلپر اُس وقت تک کسی سوسائٹی کی تشہیر نہیں کرے گا جب تک اُس کے پاس ڈویلپڈ لینڈ موجود نہ ہو۔
تازہ ترین