• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کھیل کے میدان میں انہیں شکست دو، ان کے احساسِ تفاخر کو انہی کے پسندیدہ کھیل میں شکست دے کر جس بری طرح تم انہیں مجروح کر سکتے ہو، بڑی سے بڑی جنگ جیت کر بھی نہیں کر سکتے۔ اور جنگ کے میدان میں تم انہیں شکست بھی کہاں دے سکتے ہو، رومی سلطنت سب سے مضبوط عالمی طاقت ہے اور تم ان کے بھگوڑے غلام۔شیخ الدیرم کی بات بین ہُر کو سمجھ آ گئی اور اپنے قومی وقار، احساسِ تفاخر، ذاتی انا کی بحالی اوراپنے اندر دہکتے انتقام کے انگاروں کو بجھانے کیلئے بین ہُرنے رومی گورنر کے خلاف نئی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔کھیل کی جنگ۔ گھڑسوار تو وہ پہلے ہی اعلیٰ پائے کا تھا،شیخ الدیرم نے اسے رتھ بھگانے کا گُر بھی سکھا دیا۔ عیسائی مورخین کے مطابق جب حٖضر ت عیسی علیہ السلام کا یروشلم میں ظہور ہوا تو وہ اس وقت رومی سلطنت کے قبضے میں تھا۔ یہ رومی سلطنت کے عروج کا زمانہ تھا۔آگسٹس قیصر روم تھا۔ یروشلم رومی سلطنت کی ایک کالونی تھاجس پر سلطنت روم اپنے گورنر کے ذریعے حکومت کرتی تھی۔ یروشلم کے یہودیوں میں سلطنت روم کیخلا ف مذہبی انتہاپسندوں (zealots)کی بغاوت جاری تھی۔بین ہُریروشلم کا ایک رئیس زادہ تھا لیکن رومی سلطنت کے خلاف اپنے ہم وطنوں کی تحریک کا ساتھ دینے کی پاداش میں غلام بنایا گیا۔ اس کی ماں اور بہن کو مصلوب کرنے کی سزا ملی۔ پانچ سال تک وہ سلطنت روم کے بحری بیڑے کے تہہ خانے میں غیر انسانی حالات میں چپوچلاتا رہا اور روم اور یونان کی بحری جنگ کے دوران جان بچا کر بے ہوشی کی حالت میں ساحل سمند رتک پہنچ گیا۔ ہوش آیا تو شیخ الدیرم کے خانہ بدوشی خیمے کے قریب پایا گیا، رتھوں کی دوڑجسکا پیشہ تھا۔بین ہُر اور اسکے خاندان کی آزادی کے امکان، شیخ الدیرم کے دوڑ جیتنے پر بڑا انعام لینے کی تمنا، اور یروشلم کے یہودیوں کی سلطنت روم کی انا کو توڑنے کی تڑپ، جب تینوں مقاصد اکٹھے ہوئے تو یروشلم میں رومن سرکس کے نو تعمیر شدہ عالی شان میدان میں دنیا بھر سے حصہ لینے والے بارہ رتھوں کی دوڑ میں بین ہُر رومی رتھ کو شکست دے کر انتقام کی آگ بجھانے کے ساتھ ساتھ اپنی اور اپنے خاندان کی رومی غلامی سے آزادی کا بندوبست کر لیتاہے۔
1880میں ’’بین ہُر، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی داستان ‘‘ کے نام سے ایک ناول شائع ہوا۔یہ ناول بہت مقبول ہوا اور اس پر اب تک ہالی وڈ کی پانچ فلمیں بن چکی ہیں۔ پہلی فلم 1907میں بنی اور آخر ی فلم 2016میں،جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ بین ہُر نے 2000سال پہلے کھیل کے ذریعے جو کام کیا وہ 2017میں نجم سیٹھی نے کرکٹ کے ذریعے لاہور میں کر دیا۔ میں نے کئی مہینے پہلے یہ فلم دیکھی لیکن رتھوں کی دوڑ سے ایک قوم کے اعتماد کی بحالی کے تھیم کی مجھے بہت زیادہ سمجھ نہیں آئی۔ لیکن 5مارچ، 2017کو جو کچھ قذافی اسٹیڈیم میں ہوا، اب اس تھیم کی مکمل طور پر سمجھ آ چکی ہے۔ لاہور میں پاکستان سپر لیگ کے فائنل کا کریڈٹ نجم سیٹھی کو جاتا ہے، شہباز شریف کو جاتا ہے، نواز شریف کو جاتا ہے، جنرل قمر باجوہ کو جاتا ہے، اس کے حامی میڈیا پرسنز کو جاتا ہے، یا ان سب کو جاتا ہے، اس بات کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں لیکن اس ساری کہانی کا لبِ لباب یہ ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی نے پاکستان قوم کا اعتماد بحال کر دیا ہے۔ دہشت گردوں کو ہماری افواج اور سیکورٹی ادارے تو چند ماہ یا سال پہلے ہی شکست دے چکے تھے، لیکن پاکستانی قوم نے دہشت گردی کو 5مارچ 2017کوشکست دے دی۔
دہشت گردوں کے مقاصد جو بھی ہوں لیکن ان کا حربہ صرف ایک ہے کہ عوام میں دہشت پھیلائی جائے، انہیں دہشت زدہ کر دیا جائے۔ دہشت گردی کے عمل کے دو اہم جزو ہیں۔ اول، کہ دہشتگرد حملہ کیا جائے۔ لیکن صرف حملہ کر دینا اور دس بیس نہتے انسانوں کی جانیں لے لینے سے دہشت گردی کا عمل مکمل نہیں ہوتا۔ فرض کر لیں کہ لاہور میں چیئرنگ کراس پر جو حملہ ہوا، اسکی خبر کو ایک قومی پالیسی کے تحت زیادہ کوریج نہیں ملی۔ ٹی وی چینلزنے بڑھا چڑھا کر حملے کی جگہ کے مناظر اور سی سی ٹی وی فوٹیج کے انتہائی اہم اور حساس ثبوت عوام کو نہیں دکھائے، اخباروں نے اندر کے کسی صفحے پر ایک کالمی خبر میں اسکا ذکر کیا، ریاستی اداروں نے فوری طور پر اپنے پیشہ وارانہ تقاضوں کے تحت حملے کی جگہ کو صاف کر کے روٹین کی زندگی کو بحال کر دیا۔ اسپتالوں میں زخمیوں کی حالتِ زار کے ڈرامائی انداز میں سیگمنٹ نہیں بنائے گئے۔ تو کیا بیس کروڑ عوام اس حملے سے دہشت زدہ ہوتے؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہو گا۔ اگلا سوال یہ ہے کہ دہشت گرد دس بیس جانیں لینے میں تو کامیاب ہو جاتے لیکن کیا وہ اپنے اصل مقصد یعنی بیس کروڑ عوام کو دہشت زدہ کرنے، ان کے اعتماد کو توڑنے میں کامیاب ہوتے؟ اسکا جواب بھی یقیناً نفی میں آئے گا۔
وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں دہشت گردی کے دوسرے جزو جو پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے، کی کمی رہ جاتی ۔سادہ لفظوں میں دہشت گرد حملہ کرنے میں تو کامیاب ہو جاتے لیکن اس حملے کا مقصد یعنی بیس کروڑ عوام کو دہشت زدہ کرنے کا مقصد ادھورا رہ جاتا۔ ملٹری آپریشنز کے ذریعے ریاست نے پہلے جزو کو ختم یا کمزور کرنے کی کامیاب کوشش کی اور لاہور میں پاکستان کے بیس کروڑ عوام نے دہشت گردوں سے خوف زدہ ہونے سے انکا ر کر کے دہشت گردی کے دوسرے جزو کو ہوا میں اڑا دیا۔ جن دہشتگردوں اور انکے غیر ملکی آقائوں نے سہون شریف پر دھماکہ کر کے معصوم غریب لوگوں کی جانیں لیں، جب انہوں نے اگلے دن وہاں پھر دھمال ہوتے دیکھی، اور پہلے سے بھی زیادہ جذبے سے ہوتے دیکھی ، تو انکے سینے پر کیسے مونگ دلی ہو گی؟
قوم کو مبارک ہو ۔ دہشت گردی کو فوجی اور عوامی دونوں سطح پر شکست ہو چکی ہے ۔ لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ مستقبل میں دھماکے نہیں ہوں گے۔ ہمارے اندر ایسی سوچ بڑے زور و شور سے موجود ہے جو جدید ریاست، جمہوریت، شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ یہی سوچ ایسی مسلح تنظیموں کو جنم دیتی ہے جو معصوم اور نہتے ہم وطنوں کوبارود سے اڑانے پر آمادہ ہو جاتی ہیں۔ اس سوچ کے خلاف جنگ ابھی اس قوم کو جیتنا ہے۔ بین الاقوامی حالات اور ہماری سیکورٹی اور خارجہ پالیسیوں کی ناکامی کی وجہ سے بھی ہماری ریاست نے اپنے بہت زیادہ دشمن پیدا کر رکھے ہیں جو ہمہ وقت ہماری ریاست کو نقصان پہنچانے اور ہمار ا قومی مورال کمزور کرنے کے در پر رہتے ہیں۔ بین الاقوامی حالات تو ہمارے کنٹرول میں نہیں لیکن سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کی تبدیلی کی جنگ بھی ابھی اس قوم کو جیتنا ہے ۔ہمارے درمیان سیاستدانوں ، بیوروکریسی ، میڈیا اور دیگر اداروں میں بھی ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو دہشت گردوں کے عذر خواہ ہیں ،جو بالواسطہ اور بہانے بہانے سے دہشت گردوں کی مدد کرتے ہیں، انکے لئے جواز فراہم کرتے ہیں، انکے خلاف جنگ بھی ہمیں ابھی جیتنی ہے۔ سو دھماکے خدانخواستہ مستقبل میں بھی ہو سکتے ہیںلیکن قوم کو ایک سبق اب از بر کر لینا چاہئے کہ چاہے کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو ،وہ مزیددہشت زدہ نہیں ہو گی۔ یہی دہشت گردوں کی سب سے بڑی شکست ہو گی۔

.
تازہ ترین