• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سنگلاخ و دشوار پہاڑوں اور چٹیل میدانوں کا علاقہ، نرم گداز اور لطیف احساسات کے مضبوط عصاب کے سخت جان غیوروں کی سرزمین جس کو انگریز دور میں وفاق کے زیرانتظام کرکے (FATA)کا نام دیا گیا، قیام پاکستان اور الحاق کے بعد بھی 7ایجنسیز اور چار فرنٹیئر ریجن بدستور ’’علاقہ غیر‘‘ اور ترقی و خوشحالی سے تاحال محروم رہے۔
بلاشبہ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے ابھرنے والے خواب کی تعبیر پانا لازمی امر اور پاکستان کی بقا و ترقی کا ضامن ہے، فاٹا اپنا تھا لیکن غیر بنا دیا گیا، اب اس کو اپنا بنانے کےعہد کا بڑا فیصلہ یقیناً پاکستان کا مضبوط بازو اور ریاست کی طاقت کا سرچشمہ ثابت ہو گا، جناب وزیراعظم آپ نے وہ کام کیا ہے کہ جو دہائیوں سے کسی کے نصیب میں نہیں تھا۔ تاہم عوام پوچھ رہے ہیں کہ ریفرنڈم کی بجائے غیرنمائندہ حکومتی کمیٹی کے ذریعے ایک بڑے اہم منصوبے کو کاغذوں کی پوشاک پہنانے سے عملی مقاصد کا حصول ممکن ہو گا؟ خوش نما اقدامات کی نوید اور سہانے سپنے، زمینی حقائق کی عکاسی کر سکیں گے؟ کیا کمیٹی کے بند کمروں یا کھلے برآمدوں میں چند ’’صاحب قدر‘‘ افراد سے لی جانے والی آراء و منشا پر مشتمل رپورٹ اور بلند بانگ اعلانات حقیقت کا روپ دھار سکیں گے؟ حسین خوابوں کی خوش نما تعبیریں بھی مل سکیں گی جو وہاں کے عزت دار اور بلند حوصلہ نسلیں برسوں سے کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہیں؟ وزیراعظم صاحب آپ کی نیک نیتی شک و شبہ سے بالاتر ہے، اس اچھے کام کی شروعات کے کارنامے کو بھی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا، لیکن اس عظیم فیصلے کے سامنے دل کو ہلا کر رکھ دینے والے دکھ بھرے حقائق کا سامنا کون کرے گا؟
کیا کمیٹی بتائے گی کہ فاٹا ایجنسیوں اور ایف آر کے کن علاقوں میں کتنے فی صد عوام سے وہ ملے، کس نے کیا مشورہ دیا اور کن تحفظات کا اظہار کیا؟ کوئی بتانے کی کوشش کرے گا کہ دو دہائیوں سے طاقتور ملکوں کی لڑائی کا میدان جنگ اور مسلسل قتل وغارت گری کے گرم بازار کو گل و گلزار کرنے کا کیا منصوبہ تیار کیا گیا؟ کیا بااختیار کمیٹی بتائے گی کہ دہشت گردوں، ڈرونز اور کبھی دہشت گردوں کو نشانہ بناتے جہازوں نے کتنے معصوموں کی جانیں لیں اور وہ کون تھے کوئی ڈیٹا تیار کیا؟ اپنے پیاروں کو کھو دینے والے کس حال میں ہیں اور ان کے لئے کیا کیا جانا چاہئے اورکیا کیا جائے گا؟ کیا کسی نے معلوم کیاکہ ’’ان دیکھے دشمن‘‘ کے خلاف پے در پے آپریشنز کے نتیجے میں اپنے ہی وطن میں غریب الوطن ہونے والے تباہ و برباد ہونے والے کہاں اور کس حال میں ہیں؟ کیا کمیٹی نے کسی ایسے خاندان سے ملاقات کی جو نامساعد حالات اور مسلسل بمباری کے بعد ذہنی کرب و انتشار کا شکار ہے؟ اس جنگ میں کس نے اپنے جسم کا کون سا حصہ کھویا اور اس کی بحالی کے لئے کیا ہونا چاہئے؟ جناب وزیراعظم سچ ابھی مزید اور انتہائی کڑوا ہے کہ کیا میدان جنگ بننے والے قبائلی علاقوں میں ٹراما کا شکار اور آج بھی ’’امن‘‘ راتوں میں خوف کے مارے سو نہ پانے والے بچوں، نوجوان، خواتین اور بوڑھوں کو بھرپور زندگی میں واپس لانے کا بھی کچھ سوچا گیا کوئی پیکج تیار کیا گیا؟ کوئی بتائے گا کہ لاکھوں قبائلیوں نے وطن کی خاطر اپنا گھر بار، کھیتی باڑی، مال مویشی، دکان و کاروبار حتیٰ کہ سب کچھ چھوڑا، کیمپوں میں گرمی، سردی، طوفانوں و بارشوں حتیٰ کہ ایک وقت کھانا بھی نہ ملنے جیسے ناموزوں حالات کا سامنا کرنے والے ان بلند عزم اور غیرت مندوں کی گھر واپسی کے ’’جامع منصوبے‘‘ کا کیا ہوا؟ دہشت گردوں، انتہا پسندوں اور ان کے ساتھیوں نے مذہب کو ہتھیار بنا کر معصوم نوجوانوں کو اپنے مذموم مقاصد کا ایندھن بنایا، اس عفریت سے بچ جانے والوں کی سوچ بدلنے اور روشن زندگی کی راہ دکھانے کا کیا بیانیہ یا پلان بنایا گیا؟ سوال یہ بھی ہے کہ واپس جانے والوں سے دوبارہ وہی سلوک نہ ہونے کی گارنٹی کیا ہو گی؟ تباہ حال اسکول، کالجز، اسپتالوں اور دفاتر کب بحال کب ہوں گے؟ وار زون کو پیس زون میں کیسے تبدیل کیا جائے گا؟ افغانستان کےساتھ طویل پورس بارڈر کی مینجمنٹ کا حتمی، مضبوط اور قابل عمل طریقہ کیا ہو گا؟ وزیراعظم صاحب کابینہ کے 24نکاتی اصلاحاتی پیکج پر عمل درآمد کا چیلنج کون قبول کرے گا؟ عوام توحیرت زدہ ہیں کہ کابینہ میں حصہ رکھنے والے اس کے فیصلوں کو ایک دن سرعام دھوکہ اور آپ کو شریک دھوکہ قرار دیتے تو دوسرے روز آپ کے ساتھ ہم قدم، منصوبوں کی افتتاحی ڈوریں کھینچتے اور ’’دعائیں‘‘ مانگتے نظر آتے ہیں تو کیا فاٹا کو خیبرپختون خوا میں فوری ضم کرنے کی بجائے ’’سیاسی مصلحت‘‘ کا مظاہرہ کیا گی، پراسیس کو پانچ سال کے لئے حریفوں کو خوش رکھنے کے لئے لٹکایا گیا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا فاٹا اصلاحات پرعمل درآمد کی ذمہ داری معمرگورنر کو ’’خدمات‘‘ کا صلہ دینے کی بجائے وزیراعظم نے کے پی حکومت، منتخب و معزز مقامی قبائلی عمائدین پر مشتمل کمیٹی یا فعال نظام بنا کر ذمہ داری خود کیوں نہیں لی، تاکہ فنڈز کا اجرا جلد از جلد اور عملدرآمد میں تاخیر ممکن نہ رہے، لگے ہاتھ عالمی ’’زبان درازوں‘‘ کا منہ بند کرنے کے لئے ’’اسٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘ کے مہلک ہتھیار سے دستبرداری اور اسے ہمیشہ کے لئے دفنانے کا انتظام بھی کر دیا جائے۔
وزیراعظم کا بیان ’’اب قبائلی عوام اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں‘‘ یقیناً حوصلہ افزا ہے اور قومی دھارے میں شامل ہو کر پاکستان کا مضبوط بازو بنے گا لیکن پہلے زمینی حقائق بدلنا ہوں گے کیونکہ کہتے ہیں کہ ’’اصل محرومی سیاسی ہوتی ہے نہ سماجی بلکہ صرف معاشی ہوتی ہے‘‘، معیشت اچھی اور مضبوط ہو تو سنگاپور، کوریا، جاپان اور ملائیشیا جیسے ملک چند برسوں میں رول آف لا اور ترقی و خوشحالی کی صف میں سب سےآگے نکل جاتے ہیں، تلخ حقیقت ہے کہ خالی پیٹ کون سمجھے گا کہ نیشنل ازم اور ڈویلپمنٹ کا اعلان کس بلا کا نام ہے؟ چیلنج ہو گا کہ صوبے اپنے پیٹ سےاین ایف سی کا 3فی صد حصہ کاٹ کر فاٹا کو کیسے دینے پر تیار ہوتے ہیں، آئندہ عام انتخابات میں فاٹا کے عوام کو پختونخوا اسمبلی میں نمائندگی اور نشستوں کی تقسیم کا فارمولا مردم شماری کے بغیر کیا ہو گا؟ صدیوں سے رائج ایف سی آر فوری ختم، ’’رواج ایکٹ‘‘ آئے گا، سپریم و ہائی کورٹ بنیں گی۔ لیکن پنچائیت و جرگہ سسٹم اورعدالتی نظام اکھٹے کیسے چلیں گے؟ بتانا پڑے گا کہ آئی ڈی پیز کی بحالی کے نام پر سالانہ100 ارب روپے کے اضافی فنڈز کا استعمال کہاں اور کیسے ہوا؟ طلبہ کے اسکالر شپس اور سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ بڑھانے، مقامی حکومتوں کا نظام لانے اور 10سالہ ترقیاتی و اصلاحاتی پیکیج پر زمینی انتظامات کیسے اور کب ہوں گے؟ محب وطن اس تاریخی فیصلے پر سچائی و سنجیدگی سے عمل کی خاطر سیاسی شعبدہ بازوں اور مذہب کے نام پر سوداگری کرنے والوں سے پیچھا چھڑانے کے بندوبست کے بھی منتظر ہیں، کیونکہ علاقیت، قومیت، لسانیت، مذہب اور فرقہ واریت کی بنیاد پر قوم کو تقسیم کرنے اور نفرت کی آگ پہلے ہی جل رہی ہے، لہٰذا روشن، پرامن اور خوشحال مستقبل کے متلاشی قبائلی عوام کو انہی مفاد پرست اور ابن الوقت عناصر سے بچانا بھی جناب وزیراعظم آپ ہی کی اولین ذمہ داری ہے، کل قوم کے سامنے جواب دہی بھی آپ کی ہی ہوگی!

.
تازہ ترین