• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ہمارے بہت ہی عزیز دوست مہتاب خان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا تو وہاں جانا ہوا۔ دو روز میں تعزیت کے لئے آنے والوں سے ملاقاتیں رہیں، سوئم میں تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ سارا اسلام آباد ہی امڈ آیا ہو۔ ہر قسم کے بیوروکریٹ، تاجر، صنعت کار، سیاست دان، حکمران ہر قسم کے لوگوں سے ملاقاتیں رہیں ہم نے موقع غنیمت جان کر مختلف لوگوں سے ملکی مسائل پر بات کی نوکر شاہی کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔ وہ لوگ بڑی نپی تلی بات کرتے ہیں۔ ایک صاحب سے جو غالباً کسی محکمے میں سیکرٹری تھے سے پانامہ کی صورت حال پر بات ہوئی انہوں نے بڑے دو ٹوک انداز میں کہا اس سلسلے میں کچھ نہیں ہوگا جیسا لوگوں کو نظر آ رہا ہے۔رہی کرپشن کی بات تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے غلام محمد گورنر جنرل تھے بیورو کریٹ تھے اس دور میں پانچ سو ہزار کی بد عنوانی ہوتی تھی تب سونا ساٹھ روپے تولہ تھا آٹا ایک روپے کا آٹھ سیر آتا تھا اب سونا ساٹھ ہزار روپے تولہ ہے آٹا پچاس پچپن روپے کلو ملتا ہے یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں بدلنے والا کچھ نہیں۔ ایک اور صاحب سے بات ہوئی تو ان کے خیال میں پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار اتنی مستعدی نظر آ رہی ہے امید ہے کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے۔ میاں صاحب دس سال یا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نا اہل ہونے جا رہے ہیں ایک اور اعلیٰ افسر سے ملاقات ہوئی تو وہ پہلے تو زور سے ہنسے پھر انہیں قرب و جوار میں بیٹھے لوگوں اور سوئم کی تقریب کا غالباً خیال آگیا تو انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا یہاں یہ موقع نہیں ہے کہ کسی حکومتی مسئلے پر بات کی جاسکے آپ نے بڑا ہی عجیب سوال کیا ہے کہ چین کا کیا کردار ہے پاکستانی مسائل سے متعلق کیا پانامہ لیکس کے مسئلے میں چین میاں صاحب کی کچھ مدد کرسکتا ہے جناب چین ہم پر کوئی احسان نہیں کر رہا وہ تو اپنے مفاد میں ہمارے یہاں تجارت کرنے آیا ہے سی پیک تو ایک راستہ ہے ابھی تو چین کا کارنامہ سی پیک کے حوالے سے زبان زد عام ہے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں جاری تمام اہم اور بڑے منصوبوں میں چین کا اشتراک ہے پاکستان میں جو یہ میٹرو بس سروس شروع کی جا رہی ہے اس کا تمام ڈھانچہ اور بسیں چین ہی فراہم کر رہا ہے وطن میں جتنے نئے بجلی گھروں کی بات ہو رہی ہے ان سب کے پیچھے چین کا سرمایہ اور تکنیکی مہارت ہے ہمارے حکمران اور سیاست دان تو اس میں مست و بے خود ہیں کہ سرمایہ آرہا ہے ترقی کی راہ ہموار ہو رہی ہے کچھ کا خیال ہے کہ لڈو ٹوٹے گا تو بھورے بھی جھڑیں گے۔ ہر طرح سے ہر کسی کا فائدہ ہی فائدہ ہے کچھ کے خیال میں سرمایہ آہی رہا ہے نہ ہمارا جا تو کچھ بھی نہیں رہا حالانکہ وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب جائے گا تو پھر سب کچھ ہی چلا جائے گا ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
چین بتدریج امریکہ کی جگہ لے رہا ہے امریکہ آہستہ آہستہ پسپا ہو رہا ہے امریکہ کے منصوبہ ساز فیل ہو رہے ہیں اب جبکہ امریکہ کو ایک نیا صدر مل چکا ہے جسے سیاست کی الف ب نہیں آتی وہ ہمارے وزیراعظم صاحب کی طرح کا ایک خالص تاجر ہے یہاں وزیراعظم صاحب پاکستان کو کسی شوگر مل یا اسٹیل مل کی طرح چلارہے ہیں ویسے ہی ٹرمپ امریکہ کے ساتھ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور آپ کچھ دن بعد دیکھئے گا کہ اسرائیلی کیسے امریکہ پر قابو پاتے ہیں خود ٹرمپ کو لانے والے یہودی ہیں کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے متعلق بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ وہ مذہباً یہودی ہے اب امریکہ کا دنیا پر اقتدار کا سورج ڈوبنے کو اور چین کا افق پر چھانے کو ہے ہاں اگر ہمارے ملک کو کوئی واقعی صحیح حکمران مل جائے ذوالفقار علی بھٹو جیسا تو شاید کچھ امید ہوسکتی ہے ہمیں کسی بہت خاص ذہین سیاست دان کی ضرورت ہے گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں آنے والے تمام ہی سیاست دان اور حکمران صرف حکومت میں اپنی تجارت کے فروغ کے لئے شامل ہوتے رہے ہیں پہلے سیاست دان، سیاست کرتے تھے اب تاجر سیاست کے نام پر تجارت کرتے ہیں اور تاجر کا پہلا مسئلہ اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے اور اپنے نفع کی تگ و دو کرنا ہے تو لوگ اس پر کرپشن و بدعنوانی کے الزامات عائد کرتے ہیں تاجر تو آخر تاجر ہوتا ہے سیاست دان بننے کے بعد بھی وہ اپنی تجارت سے منسلک رہتا ہے اس کے فروغ کے لئے ہی سر گرم عمل رہتا ہے۔ محفل میں موجود ایک اور صاحب فرمانے لگے عالمی سیاست میں تو یہی کچھ ہوتا ہے چھوٹے اور غیر ترقی یافتہ ممالک کسی نہ کسی کی سرپرستی میں رہ کر ہی محفوظ و مامون رہ سکتے ہیں اور چاہے چین ہو امریکہ ہو روس ہو یا یورپ انہوں نے نہ تو عالمی یتیم خانے کھول رکھے ہیں نہ ہی ان کے دل اتنے فیاض ہیں کہ بلا وجہ ہی ہر کسی کی مدد کرتے رہیں بھائی صاحب ہر کوئی تجارت کر رہا ہے وہ ہمیں امداد کے نام پر سود پر قرضے دیتے ہیں ہم سے تجارت کرتے ہیں اور اس کے حوالے سے ہم پر حکم چلاتے ہیں اور امداد کے دبائو میں نگرانی کرتے کراتے ہیں۔ کچھ ممالک اپنی نادانی سے حالات کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہوجاتے ہیں یا کسی بڑے ملک کی فوج کشی کا شکار ہو جاتے ہیں اب ہم نے محسوس کیا کہ بات کہیں سے کہیں نکل رہی ہے تو اپنے داہنے ہاتھ بیٹھے ایک صاحب کی طرف دیکھا جو اس ساری صورت حال کو بڑی خاموشی سے مسکراتے سگریٹ کا دھواں اڑاتے ہوئے سن رہے تھے ہم نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا آپ کا کیا خیال ہے ہمارے سیاست دان نا اہل ہیں یا سیاست سے نابلد ہیں یا صرف تاجر ہیں انہوں نے ایک طویل کش لے کر سگریٹ بجھایا اور کہنے لگے نہیں نہ ہمارے سیاست دان احمق ہیں نہ نا اہل ہیں بلکہ بڑے چالاک ہوشیار ہیں اپنا الو سیدھا کرنا خوب جانتے ہیں رہی بات چین کی تو چین بھی عالمی منڈی کا بڑا تاجر ہے وہ ہمارے ملک میں یوں ہی نہیں سرمایہ کاری کر رہا اس کے اپنے مفادات ہیں اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر قسم کی معدنیات اور وسائل سے خوب نوازا ہے۔ پاکستان تو تحفہ الٰہی ہے اس کی حفاظت اللہ تبارک و تعالیٰ کر رہا ہے ورنہ ہمارے اپنے لوگوں نے تو اسے نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر چھوڑی ہی نہیں لیکن یہ ملک ایک عظیم نعمت ہے ان شااللہ اسے کبھی کچھ نہیں ہوگا چاہے دس بڑے ممالک مل کر آجائیں جس کو راکھے سائیاں مار سکے نہ کوئی پاکستان ان شا اللہ قائم رہنے کے لئے ہی بنا ہے اور تمام لوٹ کھسوٹ کرپشن بد عنوانیوں کے باوجود آج بھی قائم اور ان شا اللہ تا قیامت قائم رہے گا۔

.
تازہ ترین