• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز بیتے جناب حامد میر نے اپنے ایک کالم ’’ہم سب کی شان‘‘ میں بتایا کہ پرویز مشرف کے زمانے میں پاکستان اور بھارت کے مابین اعتماد اقدامات Confidence building measure کا سلسلہ شروع ہوا۔ تو صحافیوں، ادیبوں اور فن کاروں کو بھی ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے خصوصی وفود کے تبادلہ کا اہتمام ہوا۔ پاکستان سے جانے والے ایک ایسے ہی وفد میں اداکار شان بھی شامل تھے۔ فلم سازوں، ہدایت کاروں اور اداکاروں کا وفد ممبئی پہنچا تو لوک سبھا کے رکن فلمسٹار دھرمیندرا نے ان کے اعزاز میں اپنے گھرپر دعوت کا اہتمام کیا۔ جہاں انہوں نے پاک ہند دوستی کے حوالے سے اپنی ایک نظم بھی پڑھ کر سنائی۔ جس پر مہمانوں نے خوب داد دی۔ کھانا شروع ہوا تو سبھی میز کے گرد جمع ہو گئے۔ مگر ایک شخص اپنی جگہ سے نہیں اٹھا۔ میزبان نے اصرار کیا، تو بھی معذرت کر لی۔ تعارف پرپتہ چلا کہ موصوف فلمسٹار شان ہیں اور اس بات پر بھوک ہڑتال کئے بیٹھے ہیں کہ میزبان کے صاحبزادے سنی دیول نے اپنی فلموں میں پاکستان کو برا بھلا کہا ہے۔ میزبان نے فی الفور بیٹے کو طلب کیا اور باپ بیٹے نے مہمان اداکار سے معذرت کر لی۔ اگلے روز معروف فلمساز یش چوپڑہ کے ہاں استقبالیہ میں بھی موصوف الگ تھلگ بیزار سے بیٹھے تھے کہ میزبان نے از خود حال احوال پوچھا کہ نصیب دشمناں طبیعت تو ناساز نہیں۔ مہمان نے فرمایا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ دراصل مجھے آپ کے ساتھ کوئی کام نہیں۔ میں نے آپ کے ساتھ مل کر فلم بنانی ہے اور نہ ہی آپ کی فلموں میں کام کی خواہش رکھتا ہوں۔
شان کے بارے میں راقم کچھ زیادہ نہیں جانتا مگر بھارت کے مذکورہ دورے کے حوالے سے اتنا عرض ضرور کروں گا جس سے اختلاف کرنا سب کاحق ہے۔ موصوف اس وزٹ کا حصہ برضا و رغبت بنے تھے۔ کوئی انہیں زبردستی نہیں لے گیا تھا۔ اور جب آپ چلے گئے تو مہمان کے آداب کو بہرطور ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے تھا۔ اختلافی بات کرنے کا بھی سلیقہ ہوتا ہے۔ احتجاج کرنے اور میزبان کو احساس دلانے کے اور بھی طریقے ہو سکتے تھے۔ دھرمیندرا جی نے امن کی آشا میں نظم پڑھی تھی، تو آپ اپنی جوابی گفتگو میں بھارتیوں کی منافقت کا بھانڈا پھوڑ سکتے تھے کہ کہتے کچھ ہیں، کرتے کچھ ہیں۔ باپ محبت پیار کی بات کرتا ہے، اور بیٹا پاکستان کو گالی دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔یش چوپڑہ کے ہاں بھی موصوف کے رویے کو نرم سے نرم الفاظ میں بچکانہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ کم از کم مجھے شان جسے پڑھے لکھے اور نفیس شخص سے اس قسم کے طرز عمل کی توقع نہیں تھی۔ موصوف ایچی سن کے فارغ التحصیل ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ بھی گئے۔ وکیل بننا چاہتے تھے کہ تقدیر فیملی بزنس میں لے آئی۔ سنا ہے کہ 500کے لگ بھگ فلموں میں کام کیا ہے۔ ضرور کیا ہوگا؟ کیونکہ ہمارا فلمیں دیکھنے کا دور کب کا بیت چکا۔ ہمیں تو ان کے ماما پاپا کی فلمیں یاد ہیں۔ جو تعداد میں زیادہ نہیں تھیں۔ مگر کوالٹی کا وہ عالم کہ آج بھی ہماری نسل کو ازبر ہیں۔ ریاض شاہد کی تخلیقات ’’یہ امن، فرنگی اور زرقا‘‘ کو کون بھلا سکتا ہے؟ ان فلموں نے ایک زمانے کو متاثر ہی نہیں کیا، پاکستانی فلم انڈسٹری کی ساکھ بھی بنائی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہماری فلمیں برصغیر میں ہی نہیں، دنیا بھر میں بھارتی فلموں کو ٹف ٹائم دیا کرتی تھیں۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ برباد ہو گیا اور اس بربادی کو مہمیز دینے والے جب غیر نہیں خود اپنے تھے، تو بھارتی فلموں کو کیا دوش؟
خود ہم نے اپنی فلم انڈسٹری اور فلم بینوں کے ساتھ کیا کیا؟ ماضی کی شاندار سماجی، اخلاقی اور سبق آموز فلموں کے ذریعے ان کی تربیت کرتے کرتے یک لخت پلٹا کھایا، اور جبر، جرائم اور بدمعاشی کو گلیمرائز کرنا شروع کر دیا۔ ہم گورنمنٹ کالج میں تھے تو مظہر شاہ کی فلمیں دیکھتے اور ان کے انداز میں بڑھک لگانے کی کوشش کیا کرتے تھے، مگر چھپ چھپا کر اور ساتھ ہی شرمسار بھی ہو جایا کرتے تھے کہ کسی نے سن لیا، تو کیا کہے گا؟ اور یہ حادثہ بھی بیت گیا۔ اقبال ہاسٹل کے وارڈن ڈاکٹر اجمل نے ہمارے ایک ہم جماعت کی ایک ایسی ہی حرکت پر وہ درگت بنائی تھی کہ بیچارہ ہفتوں منہ چھپاتا رہا۔ مگر پھر تو جبر، جرائم اور بدمعاشی کا گویا فلڈ گیٹ کھل گیا۔ سلطان راہی نے ڈانگ پر چڑھا گنڈاسا ایجاد کیا اور کشتوں کے پشتے لگانا شروع کر دیئے۔قتل و غارت، شور شرابہ اور بے حیائی فلموں کی پہچان ٹھہرا۔ گجر ایک اچھی بھلی شریف قوم ہے۔ ہمارے فلمسازوں نے انہیں کچھ اور ہی انداز میں پیش کرنا شروع کر دیا۔ اور سلطان راہی کو وحشی گجر، طیفا گجر، گجر بادشاہ اور نہ جانے کیا کیا کچھ بنا کر معاشرتی امن و شانتی اور ہم آہنگی کی چولیں ڈھیلی کر دیں۔سلطان راہی نے یہ سب کچھ کیاتو لوگ کہتے تھے کہ بیچارہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں اور جاہلوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ موصوف کا سفر حیات حادثاتی طور پر اختتام کو پہنچا تو اس کی جانشینی کے لئے جو اچھے حال حلیے اور کنبے قبیلے والا شخص سامنے آیاوہ شان تھا۔ جس پر جہالت کی پھبتی بھی نہیں کسی جا سکتی تھی، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا اور جس کی پشت پر ریاض شاہد اور نیلو جیسے قابل فخر والدین کا ورثہ تھا۔ مگر افسوس کہ میدان میں اترا، تو وہ بھی لڑکھڑا گیا۔ اور جبر، جرائم اور بدمعاشی کا حصار توڑنے کے بجائے، خود بھی اس کا حصہ بن کر رہ گیا۔ گجروں اورآرائیوں کی بے توقیری مسلسل ہوتی رہی اور موصوف کے کریڈٹ پر بھی بڈھا گجر، بدمعاش گجر، اشتہاری گجر اور ہمایوں گجر جیسی فلمیں ہیں جنہیں فلم کا نام دینا فائن آرٹ کے اس شعبہ کی توہین ہے۔
سماج میں جو بلند آہنگی آئی ہے، شور شرابہ بڑھا ہے،اپنی کہنے اور کسی کی نہ سننے کی جو ریت پڑی ہے اور بد زبانی کو عروج ملا ہے تو اس میں اس قماش کی فلموں کو بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جہالت اور امپریشن ایبل کا کمبی نیشن بہت تباہ کن ہوتا ہے۔ جرائم کو گلیمرائز کرنے والی ان فلموں نے ہمارے لاعلم ٹین ایجرز کو اس حد تک متاثر کیا کہ سوسائٹی کا تانا بانا ہی الجھ گیا۔ اور ہمیں یہ بھی یاد نہیںرہا کہ بیتے وقتوں میں ہم ایک شستہ اور نفیس قسم کی مخلوق ہوا کرتے تھے۔ بھارت بری فلمیں بنا رہا ہے۔ بنا رہا ہو گا، مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ بھارتی فلم دیکھتے وقت ہمارے اندر کا سفیر خود بخود ایکٹو ہو جاتا ہے اور قابل اعتراض مواد کو ہم خود سے الگ کر دیتے ہیں کہ گویا فلم کا حصہ ہی نہ ہو۔ اور پھر اگر وہ واقعی بری ہیں تو ہمارے سینمائوں میں کیوں دکھائی جاتی ہیں؟ جنہیں چند ماہ کی بندش کے بعد عدالت نے دوبارہ سے کھول دیا ہے۔ مین ا سٹریم انڈین موویز کو تو چھوڑیئے، ہماری جاں بلب انڈسٹری کا ان سے کیا مقابلہ؟ جس زمانے میں ہمارے پنجابی فلموں والےگجروں اور آرائیوں کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے ہوئے تھے۔ بھارتی پنجاب کے چند پڑھے لکھے نو جوانوں نے معمولی وسائل کے ساتھ شاہکار فلمیں پروڈیوس کیں۔ کبھی فراغت ہو تو صرف تین فلمیں ’’اساں نوں مان وطنان دا، مٹی واجاں مار دی، اور جی آیاں نوں‘‘ دیکھ لیں۔ ہمارے نامی گرامی اداکاروں اور فلمسازوں کو معلوم ہو جائے گا کہ موضوعاتی فلمیں کیسے بنائی جاتی ہیں۔ اور دھیمے سروں میں بڑی سےبڑی بات کیسے کہی جاتی ہے۔

.
تازہ ترین