• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ میں ناقص پانی کی فراہمی کی شکایات تسلسل سے آرہی ہیں۔ عدلیہ اس باب میں تواتر سے برہمی کا اظہار کرچکی ہے اس کے باوجود سندھ حکومت اور نہ ہی واٹر بورڈ کے حکام اس جانب توجہ دینے کو تیار ہیں۔ اس عدم توجہی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسئلہ روز بروز سنگین ہوتا چلا گیا۔ اس سنگینی کا اندازہ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کی جو پینے کے صاف پانی کے منصوبوں کی موجودہ صورتحال ان میں کرپشن، خوردبرد، منچھر جھیل میں آلودگی و دیگر درخواستوں کی سماعت کے دوران آبزرویشن سے لگایا جاسکتا ہے۔ جس میں فاضل عدالت نے قرار دیا کہ ایک شخص کی زندگی بچانے کے لئے 100افراد کا ٹرائل کریں گے، پیسے بنانے کے لئے نئے منصوبے بنائے جاتے ہیں پھر انہیں وقت پر مکمل نہیں کیا جاتا تو منصوبوں کی لاگت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ عدالت نے نان کیڈر ہونے کی بنا پر ایم ڈی واٹر بورڈ اور سیکرٹری محکمہ آبپاشی کو فوری طورپر ہٹا کر کیڈر پوسٹ کے افسران تعینات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ امر قابل افسوس ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے کہ سندھ کے شہریوں کو عرصہ دراز سے اسپتالوں اور کارخانوں کا فضلہ بھرا پانی فراہم کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے طبی سہولتوں سے محروم عوام مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔ محکمہ آبپاشی میں 13ہزار ملازمین بھرتی کئے گئے ہیں جن میں ایک بھی ماہر معاملات کو سمجھنے والا موجود نہیں ہے۔ عدالت میں یہ کیس گزشتہ 13سال سے چل رہا ہے پیشی کے موقع پر فنڈز کی کمی کا بہانا بنایا جاتا ہے۔ آلودگی سے پاک پانی کی فراہمی کی خراب صورتحال کا سامنا صرف صوبہ سندھ ہی کو نہیں بلکہ پورا ملک اس مشکل سے دوچار ہے جبکہ قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان میں تو بعض مقامات پر انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ماہرین سے رائے لی جائے اور پانی فراہم کرنے کے اداروں میں بدعنوانی اور منصوبے وقت پر مکمل نہ کرنے کے رجحان پر قابو پانے کے لئے صرف قانون سازی ہی نہ کی جائے بلکہ اس پر عمل بھی کرایا جائے۔

.
تازہ ترین