• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور میں پی ایس ایل فائنل منعقد کرانے کے لئے پیدا کردہ خود ساختہ تنائو، اورممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی بھاری بھرکم تعیناتی (اور خدا کا شکر ہے کہ یہ مرحلہ بخیر وخوبی انجام پایا) پر کئی مہینے تک قومی سماعت کو اپنے بیانات سے محروم رکھنے کے بعد آخر کار وزیرِداخلہ، چوہدری نثار علی خان نے سول ملٹری تعلقات پرچپ کا روزہ توڑ ہی دیا۔ چوہدری صاحب نے سول ملٹری قیادت کے ایک صفحے پر ہونے کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے کچھ گمنام دشمنوں کی بات کی جو ملک کے اندر بھی ہیں اور باہر بھی، اور جو ملک کی پالیسی سازی کے دو اہم ترین عناصر کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ قومی زندگی کے اس پہلو پر وزیر داخلہ کے موجودہ بیان کا تازہ سیاق وسباق تو فی الحال دستیاب نہیں، اور نہ ہی کوئی ایسی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ موصوف نے اس موقع پر مبینہ عدم تفاوت کے خطرات کا ذکر کرنا کیوں مناسب سمجھا، سوائے اس کے کہ چونکہ سیاست اور خاندان کی وجہ سے اُن کا اپنا تعلق بھی فوج سے ہے، اس لئے اُنہیں ان ’’معاملات ‘‘ کا ماہر گردانا جائے۔ چنانچہ جب بھی اُن کا دل کرتا ہے، یا طبیعت مچلتی ہے، تو وہ اس موضوع ُپر اظہار ِ خیال کر ڈالتے ہیں۔ بایں ہمہ، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان کے معروضی حالات میں یہ موضوع ازکاررفتہ ہوچکا۔ یقینا ایسی بات نہیں،بلکہ یہ موضوع اس قدر مرکزی اہمیت کا حامل ہے کہ اسے بر سبیل ِ تذکرہ چھیڑکر ابہام پیدا کرنے کی بجائے اس پر سیر حاصل بحث کی جانی چاہئے کہ آخر اس ملک نے مستقبل قریب میں کن راہوں کا انتخاب کرنا ہے؟
پہلے کچھ مثبت اشاروں کی سمت نگاہ کرتے ہیں۔ حکومت اور جی ایچ کیو کے درمیان کشمکش، جس کا تاثر پایا جاتا تھا، میں بڑی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ سرکاری میٹنگز کے دوران نہ تو کوئی نیم انقلابی سوچ کارفرما دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی سستی پوائنٹ اسکورنگ کی نوبت آتی ہے۔ آئی ایس پی آر کا ٹوئٹر اکائونٹ پیشہ ورانہ تحمل اور وقار کا مظہر بن چکا ہے۔ اسی طرح آرمی چیف کی عظمت کے نقارے بھی حقائق کے پردہ ٔ سکوت میں آسودہ ہوچکے۔ وزیر ِاعظم کے کیمپ سے آنے والی خبریں یہ ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی قیمتی وقت او ر توانائی ہر آن فوجی مداخلت کے خدشے کی نذر کرنے سے اجتناب برتنا سیکھ رہے ہیں۔ نیز فوجی اور سویلین قیادت کے درمیان روابط پیشہ ور خطوط پر استوار ہیں، اور اس کے اثرات بھی ظاہر ہورہے ہیں۔ اس کا سب سے واضح اثر ملکی حالات کے پیش ِ نظر فوجی عدالتوں کی بحالی اور پنجاب میں رینجرز کو آپریشن کے دئیے گئے اختیارات سے عیاں ہے۔
اس سے پہلے نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ان دونوں مطالبا ت کو تسلیم کرنے کے مخالف تھے۔ تاہم اے پی ایس حملے کے بعد فوجی عدالتیں قائم کرنا پڑیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر وہ انتہائی اندوہناک حملہ نہ ہوتا تو وزیر ِاعظم کبھی بھی فوجی عدالتوں کے تصور پر لچک نہ دکھاتے، اور ان کے قیام کے سامنے بھی ویسی ہی مزاحمت کی جاتی جیسے پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کے مطالبے پر۔ لیکن اب پی ایم ایل (ن) کی وہی حکومت نہ صرف فوجی عدالتوں کی بحالی کی کوششوں میں پیش پیش ہے بلکہ پنجاب، جو شریف برادران کاسیاسی قلعہ ہے، میں رینجرز کو کارروائیاں کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی ہے۔ قدرے محتاط الفاظ میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر سابق دور کے شکوک اور شبہات دامن گیر رہتے تو عدم اعتماد کی فضا رویے کی تبدیلی کی گواہ نہ بنتی۔ چنانچہ یہ بات بلاتامل کہی جاسکتی ہے کہ آرمی چیف کے عہدے میں تبدیلی کے بعد سے ہوا کا رخ بدل چکا، اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے وہ کام بہت موثر طریقے ( اور قدرے خاموشی ) سے کرڈالے ہیں جو بازومروڑ کر میڈیا میں اچھالے گئے بیانیے کے دبائو میں لاتے ہوئے نہیں کیے جاسکے تھے۔ ملک کو اسلحے سے پاک کرنا، سرحدوں کی کڑی نگرانی، دفاع کے لئے نئی خریداری اور روایتی عسکری فورس میں اضافے اوردیگر کئی ایک امورپر سویلین حکومت پس وپیش سے کام لیتی رہی ہے، لیکن اب ان امور پر موثر فیصلے ہورہے ہیں۔ طرفین ماضی کی نسبت ایک دوسرے کو بخوبی سمجھتے ہیں، چنانچہ ان کی زیادہ تر فعالیت ایک ہی صفحے پر دکھائی دیتی ہے۔ مزید یہ کہ اختلاف ِرائے کو سوشل میڈیا کے پانی پت میں اتارنے کی بجائے خاموشی سے میز پر بیٹھ کر حل کیا جاتا ہے۔ اس سے دونوں اداروں کے درمیان اعتماد اور ہم آہنگی کی فضا برہم ہونے سے بچ جاتی ہے۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت کہ اس نسبتاً بہتر فعالیت کو اوج ِکمال کی منزل کا سنگ ِ میل قرار دیا جانا بصری وہمہ ہوگا۔ کچھ داخلی الجھائواپنی جگہ پر موجود ہیں جن کی وجہ سے فریقین کے درمیان مکمل ہم آہنگی کی راہ میں رکاوٹ کا تاثر ابھرتا ہے۔ خیر اگر یہ اچھی بات نہیں تو اس سے آسمان بھی نہیں گر پڑتا، کیوں کہ ہمارے ہاں معاملات انہی راہوں پر گامزن رہے ہیں، چنانچہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ بنیادی طور پر ہمارے ہاں یک طرفہ جھکائو رکھنے والے تعلقات کی تاریخ رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا سویلین معاملات پر اثر ورسوخ اتنا گہرا رہا ہے کہ سویلین بالا دستی کا تصور افسانوی حقیقت، چنانچہ ناقابل ِعمل دکھائی دیتا ہے۔ ہماری مختصر سی تاریخ میں فوجی مداخلت اور عملی شب خون کے باب کو تلاش کرنے کے لئے بہت زیادہ ورق گردانی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تاہم یہ بہرحال تاریخ ہے۔۔۔ عشرہ بھر قدیم ہی سہی، لیکن دہشت گردی کے خاتمے کے لئے لڑی جانے والی جنگ، جس کے خاتمے کے کوئی آثا ر دکھائی نہیں دیتے، بھی اسی تاریخ کی ایک جھلک لئے ہوئے ہے۔
اس طویل جنگ نے جہاں زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے، وہاں گورننس کوبھی اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔داخلی طور پر اور سرحدوں کے باہر اپنا وجود رکھنے والے دہشت گردی کے نیٹ ورک نے شہریوں اور معیشت کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ چنانچہ یہ بات سمجھنا آسان ہے کہ اس پس ِ منظر میں دہشت گردی کا براہ راست مقابلہ کرنے اور اُنہیں شکست دینے کی سکت رکھنے والی کسی بھی قوت کو دیگر اداروں پر بالا دستی حاصل ہوگی۔ چنانچہ اس صورت ِحال میں سویلین ادارے کمزور اور مسلح ادارے طاقتور ہوتے جاتے ہیں۔ فوجی عدالتوں کا قیام اس بات کا اعتراف ہے کہ معمول کا جوڈیشل سسٹم انسداد ِ دہشت گردی کی کوشش میں کام نہیں دے رہا تھا۔ پولیس کے اختیارات کے ساتھ صوبوں میں رینجرز کی تعیناتی پولیس کی ناقص کارکردگی کا شرمناک اعتراف ہے کہ یہ ادارہ دہشت گردی سے نمٹنے سے قاصر ہے۔
انتخابات اور مردم شماری کے عمل میں فعال عامل کا کردار ادا کرنے اور اب کرکٹ اسٹیڈیم کو محفوظ بنا کر بیرونی دنیا کو یہ پیغام دینے کہ پاکستان ایک پرسکون ملک ہے، جیسے تمام امور کی ذمہ داری فوج کے کندھوں پر ہے۔ اس کے علاوہ دفاعی اور خارجہ پالیسی سے سویلین حکومت دستبردار ہوکر اس پر اسٹیبلشمنٹ کا استحقاق تسلیم کرچکی۔ بے شک سویلینز کھلے عام اس بات کو تسلیم کرنے میں دقت محسو س کرتے ہیں کہ فوج کے ادارے کے سامنے اُن کا کردار ثانوی ہے، لیکن نجی گفتگومیں وہ یہ اعتراف کرلیتے ہیںکہ یہ انتظام ’’طمانیت بخش ‘‘ضرور ہے۔ ملک کی ایک بھی جماعت ایسی نہیں جو سول ملٹری عدم توازن کو دور کرنے کی پالیسی رکھتی ہو، اور نہ ہی کسی میںگورننس کا تمام بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے کی صلاحیت موجود ہے۔
نواز حکومت سویلین بالا دستی قائم کرنے کا عزم رکھتی ہے، لیکن عملی طور پر وہ جی ایچ کیو کی حمایت کے بغیر ایک قدم بھی نہیں چل سکتی۔ عوامی تاثر یہ ہے کہ تمام حکومتوں کو ایسا ہی کرنا پڑتا ہے کیونکہ ایک تو فوج بہت طاقتور اور منظم ادارہ ہے، اور دوسرے یہ کہ ناقص کارکردگی دکھانے والی حکومتیں اداروں کی اصلاح کی سکت نہیں رکھتیں۔ چنانچہ اُنہیں فوج پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شریف حکومت عملی طور پر جنرل باجوہ پر اتنا ہی انحصار کررہی ہے جتنا ماضی کی کوئی بھی حکومت کسی بھی آرمی چیف پر۔
پی پی پی کی قیادت بھی اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کی کوشش میں دکھائی دی تھی۔ اسی طرح پی ٹی آئی بھی افسران کو خوش کرنے اور اُن کی اشیر باد حاصل کرنے کی کوشش میں رہتی ہے۔ آنے والے کئی برسوں تک یہی ’’معمول‘‘ جاری رہے گاکیونکہ پاکستان کے گردونواح کی دنیا عدم استحکام سے دوچار ہے۔ فوج اور سویلینز کے ایک صفحے پر ہونے کا تصور انفرادی معاملات میں دکھائی دے سکتا ہے، لیکن مجموعی طور پر ہم نیم سویلین نظام رکھتے ہیں جس میں تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی صفحے پر ہیں۔



.
تازہ ترین