• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جیو ٹی وی کا بیانیہ مستعار لینا ہے، ’’ 70سال پہلے قوم کو وطن کی تلاش تھی، آج وطن کو قوم کی تلاش ہے‘‘۔ اتوار 5مارچ، پورا پاکستان گونج اٹھا، 20کروڑ آوازیں کان پھاڑ رہی تھیں، لبیک اے وطن لبیک۔ وطن عزیز دو اطراف دشمنوں میں گھرا، دہشت گردی کے ماحول میں میچ کروانا یقیناً ’’پاگل پن‘‘ ہی تھا۔ اتوار کا میچ، واقعتاً ایک پاگل پن لیکن قومی جنون کے آگے ہیچ نظر آتاہے۔ لاہور کا میچ شہباز شریف اور نجم سیٹھی کا پاگل پن ثبت کرگیا۔ ایسا کام عقل مندکا نہیں، جنونی ہی کا ہے۔ حکیم الامت نے گڑگڑا کر ’’صاحب جنوں‘‘ ہونے کی دعائیں مانگیں۔ عقل، خرد، دانش کی تمام گتھیاں سلجھالیں، اپنے آپ کو منزل سے دور پایا؎
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے ’’صاحب جنوں‘‘ کر
منزل کا حصول جنوں ہی نے ممکن بنانا تھا۔ فارسی دان ڈاکٹر سلیم مظہر سے ’’صاحب جنوں‘‘ کی رمز جاننا چاہی، عاشق اقبال نے نکتہ پر دیوان حوالے کر دیا۔ کالم میں احاطہ ناممکن، دو اشعار چاروں طبق روشن رکھنے کیلئے کافی؎
در بود و نبود من اندیشہ گمان ہا داشت
از عشق ہوید اشد این نکتہ کہ ہستم من
پیرومرشد کیا کہہ گئے، ’’میرے ہونے، نہ ہونے میں‘‘ عقل متذبذب، جنون نے ہی واضح کیا کہ ’’میں ہوں‘‘۔ جنون نے ہی تو بتایا ’’قوم موجود ہے‘‘۔ آتش نمرود میں جنون ہی کودا، تدبیر تو بھسم رکھتی۔ بقول عظیم فلسفی، ’’عقل کی رسائی کی حد جہاں ختم ہوتی ہے وہاں سے جنوں کانکتہ آغاز ہوتا ہے‘‘؎
عشق کی ایک جست نے طے کردیا قصہ تمام
اس زمین وآسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
اللہ حق ہے، جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے، جسے چاہتا ہے ذلت، رسوائی کی عمیق گہرائیوں میں دھکیل دیتا ہے۔ سیاست کی دشوار گزار بھول بھلیوں میں ایسا مرحلہ تکلیف دہ جب مدافعت، وضاحت، توجیحات، توضیحات کے پرپیچ و پیچیدہ گورکھ دھندوں میں بھٹکنا مقدر بن جائے۔ بدقسمتی، عمران خان جب سے کوچہ سیاست میں، عذر، وضاحتوں کے گرداب میں گھرے نظر آئے۔ غیر ملکی کھلاڑیوں بارے تازہ بہ تازہ تضحیکی بیان، عذر گناہ کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ الجھتے جا رہے ہیں، کیا کیا جائے سیدھے طریقے سے معافی مانگنا، چھوٹے آدمی کا شیوہ نہیں۔
پیرومرشد نے عرق ریزی کی۔ تقدیر امم کی چابی تدبیر بتائی۔ جنون کو دونوں کےتابع رکھا۔ کردار، اقدار، ادراک، استعداد کے حامل جنونی کو قیادت کا اہل بتایا۔ لیڈر کون ہے؟ قائد کے بنیادی اوصاف کیا ہونے چاہئیں؟ قوم کی اجتماعی امنگ، خواہش، شعور، ضمیر، نظریہ کا ترجمان ہو۔ قوم کے خوابوں کو تعبیر دے۔ بے شک الفاظ معمولی ہوں، عمل ٹھاٹھیں مارتا موجزن دریا، عزم وجنوں کوہ ہمالیہ پہاڑ جیسا۔ تھکے فنکاروں، بہروپیوں، سیاسی اناڑیوں سے لیڈر کی تعریف سنیں، ’’لیڈروہ ہوتا ہے، جو خود فیصلہ کرے اور لوگوں کو اس پر ابھارے، اپنے پیچھے چلائے‘‘۔ سیاسی بہروپیوں کی خدمت میں گزارش کہ فیصلے، نظریے پیغمبر، فلسفی مفکروں کی میراث، پیغمبروں کے علاوہ شاید ہی کوئی نظریہ دینے والا عملی رہنمائی کرتا نظر آیا ہو۔ نظریہ، شعور کے خواب قوم اپناتی ہے، لیڈر تعبیر میں ڈھالتے ہیں۔
اتوار کا دن، قوم کے شعور کا اظہار تھا۔ کئی سمجھنے میں ناکام۔ پاکستان نے جیتنا تھا، دہشت گردی نے ہارنا تھا۔ عمران خان کو یہی نکتہ سمجھنا تھاجو بات جناب سراج الحق، شیخ رشید سے لے کر ایک عام، معمولی تعلیم والا یا ان پڑھ پاکستانی جان گیا، عمران خان کی سمجھ سے کوسوں دور کیوں؟ دنیا گھومی، 7سمندر کھنگالے۔ اللہ گواہ، فی زمانہ، یوم اتوار جیسی قوم کہیں اور مشاہدے میں نہ آئی۔ 20کروڑ لوگوں کا ایسے اٹھ کھڑے ہونا، خیرہ کن، قومی رہنما ایسا قومی جنون سمجھنے سے قاصر کیوں؟ ’’اگر دھماکہ ہوگیا، تو بین الاقوامی کرکٹ اگلے دس سال نہیں ہوگی‘‘، یہ نہیں بتایا، دھماکوں کے ڈر سے میچ نہ کروایا جاتا تو پاکستان اور پاکستانی قوم آج کہاں کھڑی ہوتی؟ آج پاکستان کیسا ہوتا؟ مایوسی، تکلیف کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہی ہونا تھا۔ یہی نکتہ عمران خان نہ سمجھ پایا۔ غلطی تسلیم کیا کرتے، کھسیانا عمل جاری، بین الاقوامی کھلاڑیوں کے مقام اور حیثیت کا تعین کرنے کے لئے، نئی سے نئی دلیل ڈھونڈنے میں، باقی زندگی وقف کر چکے۔ نجانے دلائل، توجیحات، وضاحتوں نے کتنا دراز رہنا ہے۔ چُلو بھر پانی کی غیر موجودگی نے طوالت دے رکھی ہے؎
واعظ ثبوت لائے جو مئے کے جواز میں
اقبال کو یہ ضد کہ پینا بھی چھوڑ دے
سانحہ کہ عمران خان اور لواحقین نے اس قومی عید سعید کے مبارک موقع پر اپنے پراگندہ مال کی چھابڑی لگانے میں ہمت نہ ہاری۔ ’’گو نواز گو‘‘ کے سامنے ’’رو عمران رو‘‘ کے نعروں سے دل لبھانےکی خاطر قومی یکجہتی کو انتشار کا تڑکہ لگاتے، قوم پر رحم نہ آیا۔ قومی یکجہتی کو پراگندہ سیاست کی بھینٹ چڑھا گئے۔ ادھر میچ کی مبادیات طے ہوئیں۔ ٹکٹ کے حصول کے لیے عزت، غیرت، وقار برطرف و معطل نظر آئے۔ طے تھا، اسٹیڈیم میں 30ہزار بمشکل سما پائیں گے۔ کروڑوں کا ٹکٹ کی تگ ودو میں جت جانا، سمجھ سے بالاتر۔ آنگن، پائیں باغ، تنگ و تاریک گلیاں، کوچے، چوراہے، شاہرائیں، بازار، کیفے، ریسٹورنٹ، میدان، کونے کھدرے جشن کا سماں پیش کرگئے۔ شوق فراواں، جذبہ تابش آفتاب، ولولہ وجنون کھلتا کھولتا۔ کیا یہ کرکٹ میچ کے لئے تھا؟ ہرگز نہیں۔ قومی یکجہتی کا مظاہرہ ہی تو تھا۔
برادرم مجیب الرحمٰن شامی سے رہنمائی درکار، ’’1965کی جنگ کے بعد، کیا ایسا قومی جذبہ، ولولہ، جوش، جنون، پاگل پن اتوار کے میچ سےپہلے کبھی ملا؟‘‘۔ اس دن ملت کے مقدر کا ہر ستارہ دہشت گردوں کے خلاف جذبات کا اظہاری تھا۔ محترم وزیراعلیٰ پنجاب، جناب نجم سیٹھی صاحب قوم آپ کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ قومی جنون کو پہچان اور شناخت دی، پاگل پن اپنایا۔ ’’وطن کی ہوائیں تمہیں سلام پیش کرتی ہیں‘‘۔ اس سے بڑی کامیابی کیا ہوگی، آپ کے بدترین مخالفین لفظوں کے ہیر پھیر، دائو پیچ، زِیر زَبر لگاتے، تنگ دلی دکھاتے بھرپور مبارک سلامت بھیجنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔
عجیب منظر تھا، 30ہزار اندر، میرے جیسے کروڑوں گھروں میں بیٹھے، میچ سے چپک چکے تھے۔ معمولی واقعہ نہیں، امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق اپنے انتہائی مصروف اور قیمتی لمحات میچ کی نذرکرگئے۔ یقیناً 20 کروڑ لوگوں کے دل کی دھڑکن اور جذبات کو پہچان گئے۔ راز پالیا۔ دہشت گردوں کے خلاف قومی اتحاد کو خراج تحسین پیش کرنے گرائونڈ کے اندر ہمہ وقت موجود رہے۔ صد افسوس! قومی یکجہتی کے اس نقار خانے میں طوطی کی آواز، طوطی کی سیاسی پسماندگی، غلط سوچ کی مظہر، گونجنے میں بخل نہیں دکھایا۔ طوطی کے لواحقین نے افواہوں اور معاندانہ پراپیگنڈہ کا گھٹیا کاروبار، پورا ہفتہ سوشل میڈیا پر جاری رکھا، تکلیف دے گیا۔ ’’صرف پولیس اور افواج پاکستان کے لوگ میچ دیکھ پائیں گے، میچ دن کے اجالے میں چار بجے کروا دیا جائے گا۔ لاہور میں کرفیو لگا کر میچ کروایا جائے گا۔ دھماکہ ہوگیا تو دس سال بین الاقوامی کرکٹ نہیں ہوگی۔ کلب کرکٹرز آرہے ہیں‘‘۔ کل تو عمران خان نے انتہا کر دی ’’باہر سے پھٹیچر اور ریلو کٹے آئے تھے‘‘، غیر ملکی مہمانوں کی ایسی تضحیک، کیا ایسا شخص مہذب ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ 2012اولمپکس پر برطانوی اخبار گارڈین کی شہ سرخی ملاحظہ فرمائیں ’’لندن اولمپکس برطانوی تاریخ کی سب سے بڑی ملٹری اور سیکورٹی اہلکاروں کی موبلائزیشن دیکھے گا۔ لندن عملاً لاک ڈائون کردیا جائے گا۔ کرفیو جیسا ماحول ہوگا‘‘۔ کیا لاہور میں کرفیو تھا؟ کس کس ایشو پر شرم دلائی جائے۔
جو رہنما یہ نہ جان سکے کہ جنون، پاگل پن کی وجہ میچ نہیں بلکہ معاملہ خاص، کچھ اور تھا۔ یہی پیغام قوم نے دیا، میچ سے زیادہ قومی یکجہتی، نشان چھوڑ گئی۔ آج قوم ساتویں آسمان پر براجمان، ضرور میچ کی مرہون منت ہے، جبکہ مخالف پروپیگنڈہ کرنے والے اپنی ان دراز زبانوں سے زمینی مٹی چاٹنے پر مجبور۔



.
تازہ ترین