• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے دوست اور ساتھی نجم سیٹھی کو تو ذاتی طور پر کوئی فرق نہیں پڑا ہوگا مگر انہیں اہم معلومات فراہم کرنے والی چڑیا سال2017کے مارچ کے پہلے اتوار کو پاکستان سپر لیگز کے لاہور مقابلے کے بعد ترقی کرکے عقاب بن گئی ہوگی، جبکہ میرا طوطا بتاتا ہے کہ لاہور مقابلے کے ذریعے کرکٹ کے کھیل کو پاکستان میں واپس لانے کے سلسلے میں پنجاب پولیس کے بعض اعلیٰ افسران کو بھی کریڈٹ ملنا چاہئے۔ میرے ساتھی اکثرشکایت کرتے ہیں کہ میں اپنے کالموں میں ان جرأت اور ہمت والے ملازمین کو خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش نہیں کرتا جو انتہائی مخدوش حالات میں بھی اپنی ہمت کا سینہ تانے رکھتے ہیں اور پنجابی زبان میں’’بلدی دے بوتھے‘‘کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کردیتے ہیں مگر میرے ساتھی یہ نہیں جانتے کہ دہشت گردی کی وارداتوں کے دوران جہاں کہیں پولیس یا فوج کے جوانوں کو پہرےپر کھڑے دیکھتا ہوں تو میرے دل سے دعا نکلتی ہے کہ خداوند کریم دشمن کی گولیوں کے اولین نشانے پر کھڑے ان جوانوں کی زندگی کی حفاظت فرمائیں۔میرے طوطے نے بتایا ہے کہ لاہور میں پاکستان سپر لیگ کے فائنل مقابلے کی تقریب منعقد کرانے پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت اجلاس میں بیشتر لوگ نفی کا اظہار کررہے تھے مگر پولیس کے تقریباً تمام افسروں کا فیصلہ اثبات میں تھا۔ انسپکٹر جنرل پولیس مشتاق سکھیرا ، سی سی پی او امین وینس، ایس ایس پی ایڈمن رانا ایاز سلیم، ڈی آئی جی آپریشن ڈاکٹر حیدر اشرف، ایڈیشنل آئی جی پنجاب عارف نواز اور ہوم سیکرٹری اعظم سلیمان بھی فائنل لاہور میں منعقد کرانے کے حق میں تھے۔ اکثریت نے اس میچ میں امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ داری سنبھالنے کے لئے اپنے آپ کو پیش بھی کیا۔ پولیس کے عام ملازمین نے بھی کرکٹ کھیلنے والے ملکوںکی توجہ حاصل کرنے والے اس مقابلے کی حمایت کی اور اس کوشش کو کامیاب بنانے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔پنجاب پولیس کے’’لوکل آئی‘‘ پلان یا منصوبے کے بارے میں میرے طوطے کا کہنا ہے کہ یہ سی سی پی او امین وینس اور ایس ایس پی رانا ایاز سلیم کا’’برین چائلڈ‘‘ ہے جو لوکل باڈیز کے سامنے پیش کیا گیا ہے، تاکہ عوام اور پولیس کے درمیان رابطہ مربوط اور مستحکم ہو۔ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ تمام پولیس فورس اس پلان یا منصوبے کی حمایت کرے گی، اسے کامیاب بنانے کی کوشش کرے گی۔ اس منصوبے کو کامیاب بنانے کا فائدہ خود پولیس فورس کو بھی ہوگا کہ اس کے ذریعے پولیس فورس کا عوام میں احترام اور اعتبار پیدا ہوگا اور پولیس کی یہ اشد ضرورت ہے کہ عوام میں ان کا اعتبار اور احترام پیدا ہو۔ کون نہیں جانتا کہ پولیس کو عوام کے اعتبار اور احترام کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں قانون اور پولیس کا رعب اور ڈر ہی نہیں اعتبار اور احترام بھی ہونا چاہئے۔ اعتبار، اعتماد اور احترام، رعب ، ڈر اور خوف سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ دراصل لوگوں کو یقین ہونا چاہئے کہ قانون ان کے جائز حقوق اور مفادات کی نگرانی کرتا ہے اور یہی بات قانون کا لوگوں کے دل میں احترام پیدا کرتی ہے۔خوف اور ڈر ایک عارضی کیفیت ہے مگر احترام اور اعتبار مسلسل اور متواتر تعلقات اور سلوک کے ذریعہ جنم لیتا ہے اور عارضی کیفیت کی بجائے مستقل طور پر قائم رہتا ہے ۔ عوام یا لوگوں کا پولیس پر اعتبار پولیس کے رویے اور کارکردگی سے قائم ہوتا ہے اور یہ اعتبار ہی ہے کہ وہ پولیس کے کردار کے ذریعے اعتماد میں تبدیل ہوجاتا ہے جیسے نجم سیٹھی کی چڑیا عقاب میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

.
تازہ ترین