• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور میں پی ایس ایل فائنل کا پُرامن انعقاد درحقیقت پوری پاکستانی قوم کی کامیابی ہے۔سچی بات یہ ہے کہ کرکٹ جیت گئی ہے اور دہشتگردی کو شکست ہوئی ہے۔کہاجارہا تھا کہ پے در پے کئی دھماکوں کے بعد پاکستان سپر لیگ کافائنل لاہور میں ممکن نہ ہوسکے گا مگر پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے اسے ایک چیلنج کے طور پر قبول کیااور لاہور میں پی ایس ایل کافائنل کامیابی سے منعقد کرواکر دنیا پر ثابت کردیا ہے کہ پاکستانی ایک زندہ قوم ہے اور وہ کسی بھی چیلنج سے نمٹنا جانتے ہیں۔اگرچہ پشاور زلمی نے پی ایس ایل کافائنل اپنے نام کرلیا ہے اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو58رنز سے ناکامی کاسامنا کرپڑا لیکن یہ دراصل پاکستان اورپوری قوم کی فتح ہے۔اس سے اب پاکستان میں عالمی کرکٹ کی بحالی جلد دکھائی دے رہی ہے کیونکہ پی ایس ایل کی ٹیموں میں مختلف غیر ملکی کھلاڑی بھی شامل تھے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے خود لاہور میں بہترین سیکورٹی انتظامات دیکھے۔ویسٹ انڈیز کے سابق کپتان اور عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی دیوین رچرڈز نے بھی 5مارچ کو لاہور میں پی ایس ایل فائنل کے انتظامات کو مثالی اورتسلی بخش قراردیا۔5مارچ کو قذافی اسٹیڈیم لاہور کھچاکھچ بھراہواتھا۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور شیخ رشید احمد بھی میچ دیکھنے قذافی اسٹیڈیم آئے۔سینیٹر سراج الحق نے تو فائنل میچ عوام کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا۔انہوں نے500روپے کے عام ٹکٹ پر شائقین کے ساتھ میچ دیکھنے کو ترجیح دی۔یہ پاکستان کی تاریخ کاپہلا موقع ہے کہ کسی دینی وسیاسی جماعت کے سربراہ نے ملکی وقومی مفاد میں وی آئی پی پروٹوکول کوچھوڑ کرعام شائقین کے ساتھ بیٹھ کر کرکٹ میچ دیکھا۔بہر کیف سینیٹرسراج الحق نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ حقیقی عوامی رہنما ہیں اور ان کا دل پاکستان کے20کروڑ عوام کے ساتھ دھڑکتا ہے۔کرکٹ میچ کے اختتام کے بعد سراج الحق عوام میں گھل مل گئے۔اس موقع پر شاہد آفریدی اور دیگر کھلاڑیوں سے بھی وہ ملے۔چند سال قبل جب سراج الحق کے پی میں صوبائی سینئر وزیر تھے تو اُس وقت بھی وہ عام بس میں بیٹھ کر لاہور آئے تھے۔ان کے دورہ لاہور کوبھی بڑی پذیرائی ملی تھی۔آج سینیٹر سراج الحق امیر جماعت اسلامی ہیں لیکن انہوں نے عوام سے محبت کی اپنی روش کو برقرار رکھا ہے۔سراج الحق کا بطور سیاستدان اورپارٹی سربراہ طرزعمل قابل تحسین ہے۔اگر دیگر سیاستدان اور پارٹی سربراہ بھی وی آئی پی کلچر کو چھوڑ کر سادگی اختیار کریں تو پاکستان جنت بن سکتا ہے اور ہمارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔پی ایس ایل کے فائنل کالاہور میں بخیروخوبی ہوجاناایک خوش آئند امر ہے مگر اس کے باوجودیہ نہیں کہاجاسکتا کہ اب دہشتگردی مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے پی ایس ایل اور غیر ملکی کھلاڑیوں کے خلاف نازیبا بیانات سے بھی ملکی سیاست میں بدمزگی پیداہوئی ہے۔عمران خان کرکٹ کے قومی ہیروہیں ایسے بیانات ان کے ہرگزشایان شان نہیں ہیں۔لگتایہ ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے پربیان دینے سے پہلے سوچتے نہیں ہیں۔قومی سیاست میں ان کے تندوتیز لب ولہجے کو پہلے بھی عوامی طور پرپسند نہیں کیا گیا۔اب کرکٹ کے بارے میں بھی جذباتی بیانات کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جارہا۔پاکستان میں کرکٹ مقبول ترین کھیل ہے اور کرکٹ کے میچوں سے عوام کادیوانگی کی حد تک لگائو ہے۔پوری قوم پاکستان میں انٹرنیشنل کھلاڑیوں کے ساتھ پی ایس ایل کے فائنل کا انعقادچاہتی تھی لیکن دوسری طرف عمران خان نے کرکٹ کے کھیل کودانستہ سیاست کی نذرکرنے کی کوشش کی۔ہوناتویہ چاہئے تھا کہ عمران خان پی ایس ایل پربلاجوازتنقید اور ملکی وقومی مفاد میں سراج الحق کی طرح خود میچ دیکھنے قذافی اسٹیڈیم جاتے۔اگر عمران خان 5مارچ کو قذافی اسٹیڈیم میں موجود ہوتے تو پورامجمع اُن کے ساتھ ہوتا۔انہوں نے شائقین کرکٹ کو اپنے طرزعمل سے یقینا مایوس کیا ۔مسلم لیگ(ن) نے بھی پی ایس ایل فائنل کوسیاسی پوائنٹ اسکورنگ کاذریعہ بنائے رکھا۔وفاقی اور پنجاب حکومت کے وزراء نے دانشمندانہ رویہ اختیارکرنے کی بجائے اپنے سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیا۔ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔کیایہ ضروری ہے کہ وفاقی وزیر مملکت مریم اورنگزیب اور پنجاب کے وزیر قانون راناثناء اللہ جذباتی انداز میں جواباًبیان بازی کریں؟۔یہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت طرزعمل ہے۔اس سے قومی اتحاد اور یکجہتی کو نقصان پہنچتاہے۔وزیر اعظم نوازشریف اور وزیر اعلیٰ شہبازشریف کو اپنے وزراء کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کانوٹس لینا چاہئے۔پی ایس ایل فائنل کو متنازع بنانے کی بلاوجہ کوشش کی گئی حالانکہ وہ ایک قومی ایونٹ تھا اور اُس میں کئی غیر ملکی کھلاڑی بھی شریک تھے۔صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ کی عقل پر توماتم ہی کیاجاسکتا ہے کہ انہوں نے5مارچ کو فائنل میچ دیکھنے کے لیے جانے والے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق اور شیخ رشید کو بھی نہ بخشا۔ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ دونوں سیاسی رہنماوہاں شرارت کے لیے گئے تھے۔کوئی بھی صاحب شعور آدمی ملکی قیادت کے بارے میں ایسامنفی بیان کبھی نہیں دے گا۔ایسے وزراء کو توصوبائی کابینہ میں ہونا ہی نہیں چاہئے جو حکومت پنجاب کی بدنامی کاباعث بنیں۔
پی ایس ایل فائنل توکامیابی سے ہوچکا ہے مگرآپریشن ردالفسادابھی جاری ہے۔بڑے پیمانے پر ملک کے مختلف حصوں سے اب تک بیرونی دہشتگردوں کو گرفتار کیاجاچکا ہے۔اگرچہ دہشتگردی کے واقعات اس وقت پاکستان میں تسلسل سے نہیں ہورہے مگر ابھی بھی اِکّا دُکّاکارروائیاں ہورہی ہیں۔پاک افغان سرحد پرحالیہ دہشتگردی کے واقعہ میں پانچ فوجی جوانوں نے جام شہادت نوش کیا جب کہ اس کارروائی میں15دہشتگرد بھی مارے گئے۔گزشتہ ہفتے اتوار اور پیر کی درمیانی شب بیرونی دہشتگردعناصر نے سرحدپار سے پاکستان کی چوکیوں کونشانہ بنایا۔حکومت پاکستان نے اس سلسلہ میں افغان حکام سے سخت احتجاج کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پاک افغان سرحد2500کلومیٹر طویل ہے۔اس وقت پاکستان کی ایک لاکھ فوج مغربی سرحد پر تعینات ہے۔ہمارااصل دشمن بھارت اس صورتحال پر شادیانے بجارہا ہے کہ اُس نے ہمیں مشرقی سرحد سے ہٹاکر مغربی سرحد کی طرف دھکیل دیا ہے۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ پاک افغان طویل سرحدپر ہم کب تک اپنی فوج کے بڑے حصے کولگائے رکھیں گے؟۔پاک افغان بارڈرکومستقل بند رکھنا بھی مسئلے کاحل نہیں ہے۔گزشتہ کئی دنوں سے پاک افغان بارڈرطورخم بند رہنے کے بعد دوروزکے لیے کھول دیاگیا۔یہ ایک اچھا اقدام ہے۔اس سے پاک افغان حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی بڑھے گی۔افغانستان ہمارابرادر اسلامی ملک ہے۔ماضی میں ہمیں کبھی بھی پاک افغان سرحد پر مسئلہ نہیں رہا۔یہ ہماراہمیشہ محفوظ حصہ رہا ہے۔ہمیںافغان حکومت کو یہ باور کرانا چاہئے کہ وہ افغانستان میں بھارت کی خفیہ ایجنسی’’را‘‘کے نیٹ ورک کوختم کرے۔افغان حکومت کو پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے اوربیرونی دہشتگردعناصرکے خلاف مشترکہ کارروائی کرنی چاہئے۔یہی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو بھی یہ بات ضرور پیش نظررکھنی چاہئے کہ افغانستان کے طالبان(حقانی گروپ)سے اپنے تعلقات ہرگز خراب نہ کیے جائیں۔افغان طالبان سے مذاکرات میں ہمیشہ پاکستان کامرکزی رول رہا ہے۔امریکہ بھی پاکستان کے ذریعے ہی طالبان قیادت سے مذاکرات کاخواہشمند ہے کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کوتسلیم کیے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا۔حکومت پاکستان کو افغان حکام کے ساتھ مشترکہ طور پر افغانستان میں امن کے قیام اور بھارتی مداخلت کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔

.
تازہ ترین