• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دیر آید درست آید حالانکہ دیر نہیں ہونی چاہئے تھی۔ 70 سال کی دیر کہ جس کے سبب قبائلی علاقے سماجی ترقی کے میدان میں اتنا کچھ بھی حاصل نہ کر سکے کہ جو پاکستان کے دیگر پسماندہ یا نیم پسماندہ علاقے اپنی جھولی میں ڈال پائے۔ نیم پسماندہ علاقوں سے میری مراد پاکستان کے شہری علاقے ہیں۔ صوبائی حکومت کی ذمہ داری قرارپانا اور صوبائی قانون ساز ادارے میں قبائلیوں کی نمائندگی یقیناً اس جانب مثبت قدم ہے کہ ان ترقی سے دور پاکستانی شہریوں کو قومی دھارے میں شامل ہونے سے انہیں اپنے مسائل سے چھٹکارا پانے کے لئے بہرحال ایک پلیٹ فارم تو حاصل ہو گا۔ موجودہ صورتحال تو ان کو قومی دھارے سے دور رکھنے کا ہی سبب بن رہی تھی۔ یہ کہنا کہ اس سے کچھ پیچیدگیاں پیدا ہونگی۔ اور ان گتھیوں کو سلجھانا مشکل ہو گا۔ اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ صورتحال جوں کی توں برقرار رہے۔ پھر اگر معاملات الجھے ہوئے نہ ہوتے تو اس احسن قدم میں اتنا وقت کیوں خرچ ہوتا۔ اور الجھے ہوئے معاملات کو سلجھانے کی غرض سے ہی قیادت کو مملکت کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی غرض سے چنا جاتا ہے اور یہ ان کی سیاسی مہارت اور دور اندیشی ہوتی ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا کیسے ہوتے ہیں۔ نہ کہ ذمہ داریوں سے کنارہ کش ہو جائیں اور جیسا ہے ویسا ہی چلنے دو کہ حکمت عملی اختیار کر لیں۔ معاملات کو حل کرنے کی غرض سے جہاں قبائلیوں کی بہتری کے لئے یہ فیصلہ وفاقی حکومت نے کیا ہے، اگر وہ گمشدہ پاکستانیوں اور زبردستی دور رکھے جانے والے پاکستانیوں کے معاملات بھی بطریق احسن حل کر دیں تو بے آواز ہم وطنوںکے مسائل حل ہو جائیں گے۔ میری مراد بنگلہ دیش میں محصور پاکستانی اور گلگت بلتستان کے بے آواز پاکستانی شہریوں سے ہے۔ اس حقیقت سے بہرحال انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گلگت بلتستان میں بسنے والے اتنے ہی پاکستانی ہیں کہ جتنا کوئی دوسرا پاکستانی ہو سکتا ہے۔ 1947ء سے پاکستان کی خاطر لڑنے ، مرنے پر یہ لوگ تیار ہیں حالانکہ بہت پر امن لوگ ہیں۔ مسئلہ کشمیر میں ایک اہم فریق صرف پاکستان کی محبت کے سبب بنے اور بلا شبہ جب کبھی کشمیر کو حق خود ارادیت حاصل ہوا تو اس عمل کا ایک اہم ترین حصہ ہوں گے۔ کشمیر میں بسنے والے لوگ اور کشمیری قیادت چاہے وہ مظفر آباد میں ہو یا سرینگر میں بجا طور پر گلگت بلتستان کو کشمیر کے قضیے کا ایک اہم جز تصور کرتی ہے۔ مگر اس سب کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک پاکستان کی سول انتظامیہ کے افسران گلگت بلتستان میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف قوانین وہاں پر رائج ہیں ۔ پاکستان کی مرکزی حکومت وہاں کے مختلف امور میں اپنی ذمہ داری ادا کرتی ہے اگر گلگت بلتستان کو پاکستان کے مختلف آئینی اداروں میں صوبہ قرار دیئے بغیر رکنیت دے دی جائے ۔ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ان کے منتخب کردہ نمائندے موجودہوں۔ صدر مملکت کے انتخاب میں وہ بھی اپنی رائے کا اظہار کریں تو نہ تو اس سے کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت پر کوئی اثر پڑتا ہے اور نہ ہی کشمیری قیادت اس پر ناراض ہوگی ۔ اس معاملے کو حل کرنے کی غرض سے اس کے بین الاقوامی پہلوئوں کو متاثر ہونے سے بچانے کے لئے آئین، قانون اور بین الاقوامی قوانین کے ماہرین کی کوئی کمی وطن عزیز میں نہیں ہے۔ گلگت بلتستان کی قیادت کئی مواقع پر اس خواہش کا اظہار کرتی رہی ہے۔ یقینا کچھ مسائل اور مشکلات منہ کھولے کھڑے ہونگے۔ مگر ان سب کا منہ بند کر ڈالنا ہی سیاست دان کی صلاحیت کا امتحان ہے کہ جیسے وہ قبائلی علاقوں کے معاملے میں کامیاب ہوئے ہیں اس میں بھی کامیاب ہوجائیں گے۔جہاں تک بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کا المیہ ہے یہ ایک مکمل داستان ہے وہ لوگ پاکستان کا انتخاب کر کے پاکستان کے شہری بنے تھے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے سبب وہ پاکستان کے دائرہ اقتدار کی بجائے بنگلہ دیش کے زیر اثر آ گئے۔ مگر پاکستان کے بدستور قانونی شہری رہے۔ نوازشریف کے ایک دور حکومت میں ان کی واپسی کے حوالے سے عملی اقدامات کئے گئے اور وہ پاکستان کی دھرتی میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ مگر اس عمل کے مکمل ہونے سے قبل ہی حکومت رخصت کر دی گئی۔ پاکستان میں اس دوران قانون میں کوئی تبدیلی نہ آئی مگر سابق آمر پرویز مشرف نے اپنے بیان میں ان گمشدہ پاکستانیوں سے اس بنیاد پر لا تعلقی ظاہر کی کہ پاکستان پہلے ہی بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ یعنی پاکستان لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو برداشت کر سکتا ہے۔ افغان مہاجرین وطن عزیز میں ٹھہر سکتے ہیں۔ مگر پاکستان کے قانونی شہری وطن واپسی پر قبول نہیں کئے جا سکتے۔ افسوس صد افسوس۔ 2سال قبل دفتر خارجہ نے عدالت عظمیٰ میں بھی اسی نوعیت کا جواب داخل کرایا۔ماضی میں بنگلہ دیش سے محصورین جن کی تعداد 3،4لاکھ سے زیادہ نہیں کی ایک معقول تعداد کو نواز شریف حکومت نے پاکستان لا بسایا۔ لہٰذا ان کے پاکستانی شہری ہونے پر کیا شبہ کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک اس خوف کی بات ہے کہ وہ سب سندھ جا بسیں گے اور وہاں کے سیاسی معاملات میں مزید تبدیلی رونما ہو جائے گی۔ تو ڈومیسائل یا ووٹ کی تبدیلی ممنوع قرار دے کر ان کو بسایا جا سکتا ہے۔ مسائل تو ہوتے ہی ہیں مگر اپنے شہریوں کو مسائل سے نکالنا ہی قیادت کی ذمہ داری ہے۔

.
تازہ ترین