• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معاشرے کے کچھ طبقے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی زندگیاں فنون لطیفہ کی کسی ایسی شاخ کیلئے وقف کیے رکھتے ہیں،جو عوام کے لئے تفریح، خوشی اور ذہنی آسودگی کا باعث ہوتی ہے۔ یہ بھی عالمی طور پر مسلمہ حقیقت ہے کہ معاشروں کا حسن،انکے فنون لطیفہ میں ہوتا ہے۔مصوری ، مجسمہ سازی، موسیقی، خطاطی، فلم، ڈرامہ اور اسی طرح کے دوسرے فنون آپس میں مل کر ایک ثقافت کا رنگ اختیار کرتے اور تہذیب کے روپ میں ڈھلتے ہیں۔ قومیں اسی لئے اپنی تہذیب و ثقافت کا تحفظ کرتی ہیں کہ یہ انکی پہچان ہوتی ہیں۔ زندہ معاشرے اپنے فنون کو پرواز چڑھانے کیلئے مسلسل سرگرم عمل رہتے ہیں، ان کا محور فن کی نشوونما بھی ہوتا ہے اور فنکاروں کی پذیرائی بھی ۔
گزشتہ دنوں ایک اچھی خبر سننے میں آئی کہ وزیر اعظم نوازشریف نے فنکاروں کی فلاح و بہبود کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ جناب عرفان صدیقی کی سربراہی میں بننے والی اس کمیٹی میں پی ٹی وی کے چیئر مین عطا الحق قاسمی، پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس(PNCA) کے ڈائریکٹر جنرل جمال شاہ، معروف فلمی اداکارہ زیبا محمد علی، ڈرامہ کی سینئر اداکارہ لیلیٰ زبیری، مشہور فلم ڈائریکٹر سید نور، معروف آرٹسٹ سہیل احمد عزیزی، فلمی نقاد اعجاز گل، دنیائے موسیقی سے تعلق رکھنے والی دو شخصیات رئیس احمد خان اور پرویز حیدر کے علاوہ مختلف وزارتوں کے اعلیٰ افسران شامل ہیں۔ کمیٹی کا پہلا اجلاس لاہور میں منعقد ہو چکا ہے۔ کمیٹی کے سربراہ نے واضح کیا ہے کہ یہ کمیٹی صوبائی اور مرکزی سطح پر پہلے سے جاری اسکیموں کا جائزہ لے گی، انکی خامیاں دور کرے گی اور فنکاروں کی فلاح و بہبود کیلئے نظام وضع کرےگی ۔تاکہ انکی عزت نفس کا مکمل پاس و لحاظ کرتے ہوئے انکے مسائل کا حل نکالا جائے، انکی مشکلات دور کی جائیں اور انکی ضروریات پوری کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
یہ نہایت مثبت پیش رفت ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ہمارے فنکار خواہ انکا تعلق فنون لطیفہ کے کسی بھی شعبے سے ہو ،عالمی معیار کے حامل ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عمر کے ایک خاص حصے میں یہ فنکار طرح طرح کے مسائل و مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ عمر بھر اپنے فن سے لوگوں کی تفریح اور سکون قلب کا سامان مہیا کرنے والے ،مفلسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ آئے دن ایسی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں موسیقار ، گلوکار یا فنکار شدید نوعیت کی بیماری میں مبتلا ہے او ر اسکے پاس اپنے علاج کے وسائل نہیں۔ ایسا بھی اکثر سننے میں آتا ہے کہ بڑے بڑے نامور فنکار مالی مشکلات کاشکار ہیںاور انکے لئے گھر کے روزمرہ اخراجات کی کفالت بھی ممکن نہیں۔ اس میں معاشرے کا بھی یقینا ایک کردار ہونا چاہیے۔ ایسی تنظیمیں ضروری ہیں جو فن کی پرورش اور فنکاروں کی سر پرستی کو اپنا مشن بنائیں۔ دنیا میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ کارپوریٹ سیکٹر جس میں تاجر،فنکار، بزنس مین اور ایسی ہی دوسری شخصیات یا ادارے شامل ہیں، فنکاروں کی سرپرستی کو اپنی ذمہ داریوں کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت موجود نہیں۔ یہاں تک کہ فلم، ریڈیو، ٹی وی اور ایسے ہی دوسرے ادارے بھی اپنے فنکاروںکو بھول جاتے ہیں۔ کمیٹی کے سربراہ نے بتایا ہے کہ سفارشات مرتب کرنے کیلئے ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ عام لوگ بھی اپنی تجاویز سے آگاہ کریں گے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سفارشات کس حد تک فنکاروں کی مشکلات کا ازالہ کر سکیں گی۔ لیکن یقینی طور پر یہ ایک قابل تحسین اقدام ہے۔ جسکا فنکاروں کی بڑی تعداد نے خیر مقدم بھی کیا ہے۔
جس پہلو پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہے کسی بھی پالیسی پر عمل درآمد ۔ دیکھا گیا ہے کہ جب معاملات افسر شاہی کے ہاتھ چڑھتے ہیں تو غیر ضروری مشکلات اور تاخیری حربے کسی اچھی سے اچھی اسکیم کو بھی غیر موثر بنا دیتے ہیں۔یہ بھی پیش نظر رکھنا ہو گا کہ ا س وقت چاروں صوبوں میں فنکاروں کے لئے کسی نہ کسی طرح کی اسکیمیں موجود ہیں۔ دو اسکیمیں خود وفاقی حکومت بھی چلا رہی ہے۔ لیکن یہ نہایت ہی ناکافی ہیں۔ ایک وفاقی اسکیم کے تحت تو کسی غریب اور ضرورت مند فنکار کو صرف تین ہزار روپے ماہانہ امداد ملتی ہے، جو شرمناک حد تک کم ہے۔ اس امر کو بھی یقینی بنانا ہو گا کہ حقیقی ضرورت مند فنکاروں کو ضروری امداد بلا تاخیر فراہم کی جائے اور انکی عزت نفس کو بھی مجروح نہ ہونے دیا جائے۔ کیونکہ فنکار کا سب سے بڑا سرمایہ اسکی عزت نفس ہی ہوتی ہے۔
گزشتہ ماہ عرفان صدیقی صاحب ہی کی وزارت کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی اہل قلم کانفرنس میں وزیر اعظم نے شاعروں، ادیبوں اور صاحبان قلم کی فلاح و بہبود اور علمی و ادبی سرگرمیوں کے فروغ کیلئے 50 کروڑ روپے کی خطیر رقم کے انڈوومنٹ فنڈ کا اعلان کیا تھا۔ علمی و ادبی برادری نے اس اقدام کو بے حد سراہا تھا۔ وزیر اعظم نے صدیقی صاحب کو ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ فنکاروں کی فلاح و بہبود کے لئے بھی ایک جامع نظام وضع کریںاور اگر ضرورت ہوئی تو اسکے لئے پچا س کروڑ روپے مختص کر دئیے جائیں گے۔
اسکے فورا بعد وزیر اعظم نے باضابطہ طور پر یہ کمیٹی تشکیل دے دی۔ جو نہایت سرگرمی سے اپنا کام شروع کر چکی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ فنکاروں کو درپیش مسائل کا حقیقی ادراک کرنے کے لئے یہ کمیٹی بھرپور محنت کرےگی۔ اس نکتے کو بھی اہمیت دینا ہو گی کہ فنکاروں کو صرف مالی امداد دینا ہی کافی نہیں۔ انکے لئے اپنے فنون کی نشوونما کے مواقع پیدا کرنا بھی نہایت ضروری ہیں۔ اگر فن مرجھاتا چلا جائے گا تو فنکار کو ماہانہ وظیفوں کی بنیاد پر زندہ نہیں رکھا جا سکتا۔ اسی طرح حکومت کو توجہ دینا ہو گی کہ خود سرکاری اداروں مثلا ریڈیو اورٹی وی سے وابستہ فنکار کس حال میں ہیں۔اور کیا انہیں اپنی پرفارمنس کا معاوضہ بر وقت مل بھی رہا ہے یا نہیں۔ ہمارے ہاں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا جو مرض وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے اسکا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیںعلمی، ادبی، فنی اور ثقافتی سطح پر کوششیں کرنا ہونگی۔ وزیر اعظم نے اہل قلم کانفرنس میں اس مقصد کیلئے ضرب قلم کی ضرورت کا احساس دلایا تھا۔ ضرب قلم کیساتھ ضرب فن بھی شامل ہو جائے تو یقینا معاشرے کے منفی رجحانات کو مثبت اور تعمیری سوچ میں بدلا جا سکے گا۔

.
تازہ ترین