• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر باراک حسین اوباما نے بدھ 13 جنوری کو اپنے دور صدارت میں’’اسٹیٹ آف یونین‘‘ کے آخری خطاب میں کہا ہے کہ ’’دہشت گرد تنظیمیں ’’داعش‘‘ اور ’’القاعدہ‘‘ ہمارے لئے براہ راست خطرہ ہیں۔ داعش کے لوگ جنونی اور انسانیت کے قاتل ہیں‘ انہیں تلاش کر کے ختم اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا ہوگا‘ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا محور داعش کے گرد ہونا چاہئے ‘ جس کیلئے کانگریس کو فوجی آپریشن کی منظوری دینا ہوگی‘ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کے داعش کے ٹھکانوں پر دس ہزار سے زائد حملے کئے ہیں جس کا مقصد داعش کی قیادت او ران کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا ہے۔ داعش کے بغیر بھی پاکستان‘ افغانستان‘ مشرق وسطیٰ‘ افریقہ‘ وسطی امریکہ میں عدم استحکام کئی دہائیوں تک رہے گا جبکہ ان خطوں میں بعض علاقے ان دہشت گردوں کیلئے محفوظ ٹھکانے ثابت ہو سکتے ہیں۔ آج کی دنیا میں تھوڑے سے دہشت گرد جنہیں انسانی قدروں کا کوئی پاس اور لحاظ نہیں وہ بہت بڑی تباہی برپا کر سکتے ہیں۔ ان دہشت گردوں کو تباہ کیا جائے گا اور انہیں جڑ سے ختم کر دیا جائے گا۔‘‘
یہ خطاب صدر کی روایتی تقریر نہیں بلکہ ایک سال بعد سبکدوش ہونے والا قائد اپنی قوم کوآگاہی دیتے ہوئے انتباہ کر رہا ہے‘ آنے والے خطرے کی نشاندہی‘ خطرناک علاقوں کا پتہ، خطرے کی مدت کا تعین کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ یہ عفریت جو پیدا ہو چکا ہے‘ مشرق سے مغرب تک اس کی چراگاہ ہے اور دس ہزار کی تعداد میں بمباری اس کا بال بیکا نہیں کر سکی تو آئندہ بھی صرف فضائی حملوں سے اس کا تدارک نہیں ہو سکے گا۔
صدر اوباما کا مذکورہ عفریت پیرس سے استنبول‘ جلال آباد‘ کوئٹہ ‘ اسلام آباد سے ایک ہی جست میں انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ پہنچ گیا۔ ایران اور سعودی عرب خطرہ جن کے آنگن میں اتر آیا ہے‘ وہ اس کا سامنا کرنے کی بجائے آپس میں دست و گریباں ہیں۔ خونی بلائوں سے بے پروا، آپس کے معمولی جھگڑوں میں ہمیں بھی فریق بننے کی دعوت دے رہے ہیں۔ آج کی دنیا ہمیشہ کے مقابلے میں بہت مختلف ہے‘ مختصر بھی‘ آ ج دنیا کے کسی کونے میں ہونے والا واقعہ ہر شخص کے ٹی وی لائونج میں برپا ہوتا ہے‘ اس سے براہ راست متاثر ہونے میں اتنی دیر لگتی ہے جتنا کہ ہاتھ کی انگلی سے ریموٹ کنٹرول کا بٹن دبانے میں۔ ان حالات میں ہم ایران اور سعودی عرب کے تنازعات کے اثرات سے کیونکر الگ اور غیرمتعلق ہو سکتے ہیں جبکہ یہ ہمارے لئے اپنے دائیں اور بائیں ہاتھ کی طرح ہمارے جسم کا حصہ ہیں۔ راہ چلتے ننگے پائوں میں کانٹا چبھ جائے تو کیا ہمارے ہاتھ ان کانٹوں کو نکالے بنا رہ سکتے ہیں؟ غیرجانبدار ہونا‘ بے حس اور غیرمتعلق ہونا نہیں ہے۔ ہمارے دو عزیز بھائی حالت غضب میں ایک دوسرے سے بھڑ جائیں‘ اس طرح کہ کسی ایک کی جان کو اندیشہ ہو‘ ہم دور بیٹھ کر خاموش تماشہ دیکھیں تو یہ بے حسی ہے‘ غیرجانبداری نہیں۔ اگر بلاتحقیق ان کی لڑائی میں شامل ہو کر ایک فریق کے سر پر ڈنڈا دے ماریں تو یہ جانبداری ہے اور ان کی لڑائی کو اپنے گلے کا ہار بنا لینا ہے لیکن دونوں کو لڑائی سے منع کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے اور اپنے ذاتی مفاد کا تحفظ بھی جبکہ لڑائی میں الجھنے والے ہمارے سگے بھائی جو ہماری خوشی غمی اور کمی بیشی میں ساجھے دار ہیں اور مددگار بھی۔ پاکستان کیلئے یہی حالت ایران اور سعودی عرب کے تنازع میں ہے۔ ایران ہمارا ہمسایہ ہے‘ انڈیا کے خلاف جنگوں میں ایران نے پاکستان کا ساتھ دیا‘ 1965ء کی جنگ میں ہمارے جنگی جہاز ایران کے ہوائی اڈوں میں محفوظ رہے‘ ہماری سفارتی مدد کی‘ مغربی سرحدوں کو محفوظ بنائے رکھا‘ اگرچہ یہ رضا شاہ پہلوی کا زمانہ تھا مگر یہ ایران ہی تھا‘ پاکستان کو الگ ملک تسلیم کرنے والا‘ اقوام متحدہ کی رکنیت کیلئے تعاون کرنے والا‘ ایران کے ساتھ تاریخ کے کسی حصے میں ہماری مخاصمت یا تنازع نہیں رہا۔ حتیٰ کہ قیام پاکستان سے پہلے بھی وہ یہاں کے مسلمانوں کیلئے برے وقت میں امید کی کرن تھا‘ پاکستان نے ایران کی مہربانیوں کو یاد رکھا اور وقت پڑنے پر اس کی مدد کی۔ انقلاب کے بعد جب ہر طرف سے ایران کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی تو پاکستان نے اس کیلئے اپنے دروازے کھلے رکھے‘ کھانے پینے کی اشیاء‘ ادویات فراہم کیں‘ تجارتی راہوں کو برقرار رکھا۔ عراق ‘ ایران جنگ میں پاکستان نے اپنے ’’مربی‘‘ امریکہ اور عرب دوستوں کے اصرار کے باجود ایران کی مخالفت کی ‘ نہ ہی اس کے خلاف عراق کا ساتھ دیا‘ سخت دبائو پڑنے کے باوجود ایران کی سرحد پر اپنے فوجی دستے نہیں بھیجے‘ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق ایران کو شدید تنہائی کی مشکلات کا سامنا تھا‘ عین ان لمحوں میں پاکستان نے ’’ایٹمی توانائی ‘‘ کے شعبے میں اس کی مدد کر کے بہت بڑا رسک لیا تھا مگر وہ یہ بھی کر گزرا۔ دو طرفہ دوستی اور برادرانہ محبت کے باوجود دونوں ممالک کے مابین بعض معاملات میں مسابقت پائی جاتی‘ مخالفت نہ سہی مگر مسابقت بھی تلخی کی ایک صورت ہے ‘افغانستان کی آزادی کے بعد وہاں پر قیام امن کے مسئلے کو ایران کی مداخلت نے بڑھا دیا تھا‘ شمالی اتحاد اور شیعہ ملیشیا کی غیرمشروط حمایت‘ سینٹرل ایشیا میں بھی یہ صورتحال درپیش رہی‘ چین کو گوادر کی بندرگاہ کی ترقی کیلئے مددگار بنایا تو ایران نے چہار بہار کی بندرگاہ انڈیا کے سپرد کر دی۔ حالانکہ چین کے ساتھ ایران کا تنازع ہے نہ پاکستان کے ساتھ‘ مگر دونوں کے دشمن کیلئے راستہ کھولنے کے باوجود پاکستان نے اعتراض کیا نہ چین نے برا مانا‘ حالانکہ انڈیا کو وسط ایشیا کیلئے ہر صورت پاکستان سے ہی راہداری چاہئے ہوگی‘ اس سے زیادہ آسان اور نفع بخش راستہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔اگرچہ ایران کے ساتھ ہمسائیگی‘ مذہبی‘ سیاسی اور ثقافتی ہم آہنگی پائی جاتی ہے لیکن سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ہمارے رشتے دو چند ہیں‘ ایک تو یہ کہ ان کے تعاون اور حمایت کا ہم نے کبھی بدلہ نہیں چکایا‘ دوسرے تمام مذہبی‘ ثقافتی‘ سیاسی اور سفارتی رشتوں کے ان کے ساتھ ہمارا ’’مالی اور اقتصادی‘‘ مفاد بھی وابستہ ہے‘ مسلسل اور ضروری بھی۔ ہمارے تیس لاکھ سے زیادہ محنت کش ان ملکوں میں ’’روزگار‘‘ کیلئے مقیم ہیں اور پاکستان میں زر مبادلہ حاصل کرنے کا سب سے بڑا اور قابل اعتماد ذریعہ ہیں۔ ہمیں اپنی ترقی بلکہ ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اس کی اشد ضرورت ہے اور اس کا متبادل بھی دستیاب نہیں۔ ایران کے برعکس ان ملکوں کے ساتھ ہماری کوئی مسابقت بھی نہیں‘ سیاسی‘ اقتصادی‘ تجارتی نہ سفارتی‘ ان سب شعبوں میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی۔ مستقبل کی عالمی سیاست میں اپنا کردار اد اکرنے کیلئے ہمیں ان ملکوں کی سیاسی اور سفارتی ضرورت درپیش رہے گی‘ یواین او میں سلامتی کونسل کی مستقل نشست حاصل کرنے کیلئے بھی۔عنقریب پاکستان دفاع کے شعبے میں کافی پیش رفت کر لے گا‘ تب ہمیں دفاعی سامان کی فروخت کیلئے منڈیوں کی تلاش ہوگی‘ مشرق وسطیٰ ہمارا قابل اعتماد خریدار ہو سکتا ہے‘ ہم دونوں میں کسی ایک کو بھی نہیں گنوا سکتے۔ عربوں کے ساتھ ہمارا مفاد دو چند ہے‘ ان میں سے کسی ایک کو کھونے یا گنوا دینے کے متحمل نہیں ہو سکتے‘ اس کا حل ہمارے لئے اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان کے تنازعات میں حصہ دار بننے کی بجائے ان کے تعاون سے مسلمان ملکوں میں ایک طاقت ور اتحادتشکیل دیں جو پہلے اس خطرے کا تدارک کرے جس کا ذکر صدر اوباما نے اپنے خطاب میں کیا‘ جو کرۂ ارض پر فساد کی علامت بن کر پہلے مشرق وسطیٰ او راب پوری دنیا کو روندنے نکل پڑا ہے۔
تازہ ترین