• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ نے اس سفارتخانے کو اپنی پبلک ریلیشننگ کیلئے وقف کر رکھا ہے ، سرکاری وسائل ،افرادی قوت اور توانائی جو پہلے ہی انتہائی قلیل ہیں، بے دردی سے ضائع ہو رہے ہیں۔ اس حساس اسٹیشن میں بھارتی سفارتخانہ کامیابیاں حاصل کر رہا ہے جبکہ ہمارے سفارتخانے میں سفارتکاری ایک ثانوی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہے۔اگر آپ جیسا سفارتکاریہ سب کچھ کر رہا ہے تو پھر باقی لوگ کیا کر رہے ہونگے؟ہمارے ملک کے ایک مایہ ناز سفارتکار جو ایک انتہائی اہم ملک کے سفیر تھے، اور آجکل ایک بہت بڑے سیاسی عہدے پر فائز ہیں، سے انکے ماتحت ایک جونیئر افسر نے سوال کیا۔وہ ہکا بکا رہ گئے۔انکے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ نہ ہی کبھی ان سے کسی ماتحت نے اس طرح کا سوال پوچھا تھا۔لیکن انکی شفقت اوربڑا پن تھاکہ وہ غصے میں آپے سے باہر ہوئے نہ انہوں نے ناگواری کا اظہار کیا۔ان کے تاثرات اور آنکھوں میں اعتراف کی جھلک تھی، جو جواب انہوں نے دینے کی کوشش کی اسکا لبِ لباب یہ تھا کہ یہ کام نوکری (یعنی کامیاب افسر بننے)کی مجبوری ہیں۔
وزارتِ خارجہ کے افسران کی ویلفیئر کے نام پر سی ڈی اے سے ایک انتہائی بیش قیمت پلاٹ لیکر آگے ایک پرائیویٹ پارٹی کو ’’عنایت ‘‘کرنے کا اسیکنڈل ہو، یا منظورِ نظر افسران کی ٹرانسفر پوسٹنگز کا اسکینڈل، محمد علی نیکوکارہ جیسے پولیس افسر کی سیاسی آقائوں کی منشا کے مطابق ’’انکوائری ‘‘ اور برطرفی کی سزا کا معاملہ ہو یاوزارتِ خارجہ میں جاری افراتفری پر آواز اٹھانے والے whisle blowersکو ٹارگٹ کرنے کا اسکینڈل، وزارت خارجہ کے ترجمان کی طرف سے سول سوسائٹی کے بارے میں متنازع اور غیر پیشہ ورانہ بیان کا معاملہ ہو ، جونیئر افسر کو سیکرٹری خارجہ بنائے جانے پر دیگر سینئر امیدواروں کا اخباری خبریں لگوانے کی حد تک ـ’’غم و غصہ‘‘ہویا،سب سے بڑی بات ،پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہو،بہت سے حوالوں سے ایک سیکرٹری خارجہ کا دور وزارتِ خارجہ کے بحران کا دور ثابت ہوا ۔
سفارتکاری کا شعبہ میرے دل کے بہت قریب ہے۔اگر میں نے اپنے لئے وکالت کا شعبہ نہ چنا ہوتا توآج بھی وزارت خارجہ میں جان مار رہا ہوتا۔سفارتکاری کے شوق کی خاطرمیں نے ڈی ایم جی اور پولیس جیسے گروپس کو پسِ پشت ڈالا ، وہ گروپس کہ جنگل کے قانون والے ہمارے معاشرے میں جو لٹھ اٹھائے پھرتے ہیں۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ہاں اقتدار، طاقت اور کرپشن کیلئے مشہور عہدوں کا ڈنڈا تو کیا ، اسکی چھال بھی کسی کے ہاتھ لگ جائے تو مرتے دم تک نہیں چھوڑتا۔میں نے وزارتِ خارجہ کی نوکری ضرور چھوڑی ہے ،سفارتکاری کے شعبے سے اپنا شغف نہیں چھوڑا ہے۔ رہی دوسری بات تو عرض کر دوں کہ سیکرٹری صاحب سے مجھے کوئی ذاتی پُرخا ش نہیں بلکہ کئی حوالوں سے میں ان کا مداح ہوں۔ وزارتِ خارجہ میں ان کے بارے میں اکثر مثبت باتیں سنیں، کئی دفعہ ان کے ساتھ پیشہ ورانہ ملاقات رہی اور انکی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے کینسر کے مرض کے باوجود سیکرٹری خارجہ جیسی اہم ذمہ داری جاری رکھی اور اس سے بھی بڑی بات کہ انہوں نے اپناکامیاب علاج پاکستان ہی میں ایک کینسر کے سرکاری اسپتال سے کروایا۔ان کے دور میں ٹرانسفر پالیسی میں درج کیٹیگری پالیسی پر عمل درآمد کے بارے میں بھی سننے کو ملا۔ لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو وزارتِ خارجہ کی جو حالتِ زار ہے اس پر بہت دکھ ہوتا ہے ۔ سفارتکاری کے علاوہ باقی ہر کام پراسکی توجہ ہے اور یہی حال بیرون ملک ہمارے سفارتخانوں کا ہے۔اگر ہمار ی خارجہ پالیسی ناکام ہے تویہ وزارتِ خارجہ کی ہی ناکامی ہے۔
تاہم ناکامی کا سارا ملبہ صرف ایک شخص پر نہیں ڈالا جاسکتا۔نواز حکومت جو وزیر خارجہ لگانے سے ایسے گھبراتی ہے جیسے بچے جن بابا کے نام سے ڈرتے ہیں(اور دو ضعیف العمر بزرگوں کو جنکے آرام کرنے کی عمر ہے، وزارت پر مسلط کیا ہوا ہے)، دیگر طاقت ورادارے وزارتِ خارجہ کو اپنے ایک ماتحت ونگ کے طور پر چلانے پر بضد رہتے ہیں، سفارتکاروں کے انتخاب کیلئے سی ایس ایس کے مشترکہ امتحان کے طریقہ کارکی وجہ سے اکثر بچے کھچے لوگ سفارتکاری کے شعبے میں آتے ہیں ، اور کیڈر میں سفارتکاری سے زیادہ اشرافیہ سے تعلقات بنانے، فوائد حاصل کرنے، خوشامد کلچر، پوسٹنگ اور پروموشن کیلئے غیر مناسب حد تک ذاتی تابعداری اور اس طرح کی دیگر علتیںہیں، یہ ساری چیزیں مل کر کسی بھی سیکرٹری خارجہ کیلئے ناکامی کا سامان ہی پیدا کرتی ہیں۔کوئی بھی ادارہ جس میں پیشہ ورانہ محنت اور قابلیت کی بجائے سفارش، ذاتی تعلقات، بے چوںو چراں تابعداری، خوشامد،اپنے ساتھیوں کو دھکا دے کر پوسٹنگ اور پروموشن لینے جیسی خرافات زیادہ ثمرآور ثابت ہوں ، ناکامی اسکا مقدر ٹھہرے گی۔
چند روز پہلے وزارت خارجہ میں ٹرانسفر پالیسی کی خلاف ورزی کی خبریں سامنے آئیں۔ پڑھ کر یقینادکھ ہوا۔ پہلے بھی لکھا تھا کہ وزارت خارجہ کے انتظامی معاملات میں میرٹ نام کی چڑیا کو کوئی نہیں جانتا، ایسا میرٹ جسے معروضی کہا جا سکے۔سوچا شاید اب بہتری آگئی ہوگی لیکن تازہ خبروں سے پتہ چلا ڈھاک کے وہی تین پات۔ وزارتِ خارجہ کی نوکری میں ٹرانسفر پوسٹنگ پورے کیرئیر کیلئے انتہائی اہم ہوتی ہے ۔ موجودہ لاقانونیت کے ماحول میں ایک بُری پوسٹنگ سارا کیرئیر خراب اورایک اچھی پوسٹنگ سارا کیرئیر اچھا بنا سکتی ہے۔ ان پوسٹنگز میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتنا افریقہ کے جنگلوں اور واشنگٹن اور نیویارک جیسے عالمی پاور سینٹرز میں ہے ۔ یہ تاثر عام ہے کہ سب سے پُرکشش پوسٹیں وزیر خارجہ کی سفارش سے پُر ہوتی ہیں، پھر سیکرٹری خارجہ کے سفارشی لوگ اچھی پوسٹیں لیتے ہیں۔ باقی جو کچھ بچ جاتا ہے اس پر غیر سفارشی افسروں کیساتھ ’’میرٹ میرٹ‘‘ کھیلا جاتا ہے ۔اس نا انصافی کے جواز کیلئے وزارت خارجہ نے ایک اچھوتا سائنسی آلہ ایجاد کیا ہے جسے’’اچھی شہرت‘‘کہتے ہیں۔ اگر پوچھا جائے کہ فلاں افسر کیٹگری A کی پوسٹنگ کے بعد دوبارہ کیٹیگریAکی پوسٹنگ پر کیسے لگا دیا گیاجو کہ ٹرانسفر پالیسی کے خلاف ہے، جواب ’’اچھی شہرت‘‘۔ اگر پوچھا جائے کہ فلاں افسر کو ٹرانسفر پالیسی میں دی گئی مدت سے پہلے کیٹیگری A کی پوسٹنگ کیسے دے دی، جواب’’اچھی شہرت‘‘۔فلاں افسر تو جونیئر ہے اسکو سینئر افسروں کے اوپر کیوں لگا دیا گیا، جواب ’’اچھی شہرت‘‘۔ یہ جواب سن کر ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر وزارت میں ساری پُر کشش پوسٹیں واقعتاً ’’اچھی شہرت‘‘ والے افسروں کو ہی ملتی ہیں تو پھر ہماری خارجہ پالیسی کیوں ناکام ہے؟

.
تازہ ترین