• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نظریاتی جہالت کی دہشت گردی کے بارے میں لطیفہ ہے کہ کسی صاحب کو سوشلسٹ ہونے کے جرم میں گرفتار کیا گیا اس نے بتایا کہ وہ تو اینٹی سوشلسٹ ہے۔ اسے بتایا گیا کہ وہ جیسا بھی ہے مگر ہے تو سوشلسٹ ہی نام نہاد سوشل میڈیا کے بارے میں پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار کے خیالات بھی بہت حد تک صحیح معلوم ہوتے ہیں کہ سوشل کی بجائے اینٹی سوشل ہو گیا ہے۔ ان کے الفاظ میں ’’سوشل میڈیا آزادی اظہار رائے نہیں بلکہ جھوٹ کی آزادی کے تحت کام کر رہا ہے‘‘ لیکن سوشل میڈیا والے اور جھوٹ کی آزادی پھیلانے کے ذمہ دار ادارے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کریں گے۔ وزارت داخلہ کو بھی اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا۔سوشل کو اینٹی سوشل بنانے کی ذمہ داری کا الزام خود سوشل میڈیا کے نام پر میڈیا کو اینٹی سوشل بنانے والوں پر عائد ہوتی ہے جس طرح جمہوریت کے لئے فرائض انجام دینے والے اینٹی جمہوریت حرکتوں یا کارگزاریوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور یوں خود اپنے خلاف کام کر رہے ہیں۔ اپنی بدنامی کے باعث بھی بن رہے ہوتے ہیں۔ یہ بھی انسان ہی کہلاتے ہیں جو غیر انسانی یا انسانیت کو بدنام کرنے والی حرکتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ عوام کے خلاف بھی عوام ہی برسرپیکار ہوتے ہیں مگر وہ سب انسان اور عوام کہلانے کے حق دار نہیں ہوتے۔دنیا کے سات آٹھ ارب لوگوں میں واضح بلکہ غالب اکثریت شریف انسانوں کی ہے جو امن و اخلاق کے معاشرے میں رہنا پسند کرتے ہیں جبکہ گڑبڑ، انتشار اور بدنظمی سے فائدہ اٹھانے والے عناصر کی تعداد شائد لاکھوں میں بھی نہیں ہے۔ ہزاروں تک ہی محدود ہو گی مگر سات آٹھ ارب انسان ان ہزاروں کی تعداد میں تخریب کاری اور بدنظمی پسند کرنے والوں کی سرکوبی نہیں کر سکتے۔ ان کا اکثریت میں ہونے کے باوجود کوئی غلبہ نہیں ہے کیوں کہ غلبہ اکثریت یا غالب اکثریت سے نہیں اختیارات سے حاصل ہوتا ہے اور امن پسند لوگوں کو اپنے ناجائز اختیارات اور تشدد پسند رویئے کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد تک محدود لوگ تنگ کر رہے ہیں ان کی مثبت کوششوں کو بھی منفی انداز میں بروئے کار لانے میں لگے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا کو اینٹی سوشل میڈیا میں بدل رہے ہیں اور امن پسند، قانون کی قدر کرنے والے ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔پاکستان میں کوئی ایسا سسٹم وجود میں آ جانا چاہئے جس میں پُر امن اور قانون کی عزت کرنے والے بے اختیار لوگوں کے پاس بھی کوئی اختیار آ جائے معاشرے سے اکثریتی ہونے کے باوجود لوگوں کی نفرت اور حقارت بھی امن کے دشمن عناصر کے لئے ایک خطرے اور نقصان کی صورت میں پیش آنی چاہئے۔ کسی بازار میں اگر کوئی شخص ہتھیار کے استعمال کی دھمکی دے کر راہ فرار اختیار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ بازار کے سارے لوگ بزدل اور ڈرپوک ہیں۔ ان بزدل اور ڈرپوک لوگوں کی طرف سے بھی تخریب پسندوں کو خطرہ اور اندیشہ لاحق ہونا چاہئے معاشرے کو اس قدر طاقتور اور موثر ہونا چاہئے کہ اس میں قانون توڑنے یا اداروں کو منفی طور پر استعمال کرنے والے کامیاب نہ ہو سکیں۔ اکثریت کی نفرت، غصہ یا عدم تعاون بھی طاقت کی صورت میں دکھائی دے کر قانون شکن اور تخریب پسند عناصر کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے اور یہ حوصلہ شکنی معاشرے کے اکثریتی عناصر کو طاقتور اور موثر بنا سکتی ہے۔ نظریاتی جہالت کا سدباب کر سکتی ہے اور اسے دہشت گرد بنانے سے روک سکتی ہے۔ سوشل میڈیا کو موثر طور پر سوشل میڈیا بنا سکتی ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام اور عام لوگوں میں ذمہ داری اور فرض شناسی کی طاقت اور ہنر پیدا کر کے معاشرے کا اہم حصہ اور شہریوں کا مددگار بن سکتی ہے۔ صرف سوشل میڈیا کو ہی عوام کی خدمت اور مدد کے لئے تیار کرنے کے علاوہ ابلاغ عامہ کے دیگر ذرائع کو بھی زیادہ سے زیادہ فرض شناس اور ذمہ دار بنانے کی کوشش کی جا سکتی ہے اس کوشش کو موثر بنانے کے لئے کسی قانون اور اختیار کی ضرورت نہیں ہو گی۔ معاشرے کے بڑے حصے کا آپس میں اتفاق اور اتحاد میں اِس کی سب سے بڑی طاقت بن سکتا ہے۔

.
تازہ ترین