• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے دوست غازی صلاح الدین کا یہ گلہ بالکل بجا ہے کہ آج کل لوگ کتاب نہیں پڑھتے۔ اس حوالے سے یہ بھی بجا ہے کہ لوگ سنی سنائی یا پھر اپنی کورس کی چندکتابوں کےحوالے سے اپنی رائے بنالیتے ہیں اور پھر اس پر اس طرح سے ڈٹ جاتے ہیں کہ وہ اندھی عقیدت بن جاتی ہے۔
اورنگزیب کے حوالے سے بھی لوگ اپنی اپنی رائے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ انگریزی میڈیم کتب پڑھنےوالے اس کو ایک ظالم بادشاہ کے طور پر اور اردو میڈیم کتب پڑھنےوالوں کی اکثریت اسے ایک پرہیزگار اور متقی بادشاہ کے طور پر جانتی ہے۔ اورنگزیب کے حوالے سے حال ہی میں ایک اہم کتاب برطانوی مورخ آڈرے ٹرشکے کی The Life and Legacy of India's Most Controversial King سامنے آئی ہے جس میں اسے عام برطانوی اورہندو مورخوں کے برعکس ایک جدا انداز سے دکھایا گیا ہے۔ یہ کتاب پڑھی اس لئے جانی چاہئے تاکہ لوگ اس مغل بادشاہ کے بارے میں اور پھر ہندوستان میں مغل مسلمان بادشاہوں کے بارے میںاستدلالی انداز میںسوچ سکیں۔ اورنگ زیب عالمگیر بلاشبہ اپنے عہد کا انتہائی طاقتور اور امیر حکمران رہا ہے۔ اس کے پچاس سالہ دور حکومت (1658تا1707) نے جدید ہندوستان کے سیاسی ماحول پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں اور آج بھی پاکستان اور بھارت میں اس کی وراثت چاہے وہ حقیقی ہو یا تصوراتی، اپنا گہرا تاثر جمانے میں کامیاب رہی ہے۔ آڈرے ٹرشکے نے مغل شہنشاہ کے عام تاثر سے بالکل الگ ہو کر بابر کے اس سب سے زیادہ نفرت کے شکار جانشین کے متعلق ایک جدا زاویے سے بات کی ہے۔ اورنگ زیب کی شخصیت کو کھوجنے کے لئے آڈرے نے اس میں پائی جانے والی ظالمانہ اپرو چ کے ساتھ اس کے ان مہربان اوصاف کا بھی تذکرہ کیا ہے جو اس نے اپنی سیاسی ضرورتوں کے مطابق اپنائے۔ آڈرے نے اپنی کتاب کے حوالے سے بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس سے گفتگو کی جو پیش خدمت ہے۔ جب آڈرے سے سوال کیا گیا کہ کیا اورنگ زیب عالمگیر مذہبی طور پر ایک متعصب شخص تھا اور آپ نے کس طرح اپنی کتاب میں اس کی مذہبی پالیسیوں کا تجزیہ کیا ہے؟ تو اس کا جواب دیتے ہوئے آڈرے نے کہا کہ جدید تعریف کے مطابق اورنگ زیب نے مذہبی تعصب کے حوالے سے کچھ کردار ادا کیا ہے لیکن اس نے کچھ دوسرے انداز سے بھی اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے جس کو ہم اجاگر کریں گے جس میں کہیں ہمیں وہ روادار بھی دکھائی دیتا ہے۔
ہمیں اس پر حیرانی نہیں ہونی چاہئے کہ آج کل کے جدید تعصبانہ طریقے اس مغل بادشاہ کے بارے میں ہمیں تاریخی آگاہی فراہم کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ کتاب میں ہم نے بحث کی ہے کہ ہم اورنگ زیب کی دنیا کو نزدیک سے سمجھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اگر ہم اس میں موجود لگن کے مطابق اس کے اعمال اور پالیسیوں کا تجزیہ کریں جن سے اس نے پہلے سے سکھائی گئی اقدار کی بنیاد رکھی۔ جس میں پرہیز گاری ،انصاف اور مغل بادشاہت شامل ہیں، جن کی اورنگ زیب میں بظاہر موجود اقتدار کی ہوس کے دوران کمی رہی۔ دوسرے سوال میں پوچھا گیا کہ کیا آپ کچھ ایسی مثالوں سے واضح کر سکیں گے جب اورنگ زیب نے مذہبی طور پر متعصب شخص کے امیج سے ہٹ کر کام کیا ہو۔آڈرے کے مطابق اورنگ زیب نے اگر کچھ مندروں کو منہدم بھی کرایا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے بیشمار مندروں کا تحفظ بھی کیا جو کہ تباہ کئے جاسکتے تھے۔ اس نے دوران اقتدار کسی بھی دوسرے مغل بادشاہ کے مقابلے میں جن میں اکبر بھی شامل ہے ،انتظامی عہدوں پر بڑی تعداد میں ہندئووں کو تعینات کیا۔ بلکہ اورنگ زیب تو اپنی آخری سانس تک ہندو طبیبوں اور ماہر فلکیات سے کئی معاملوں میں کھل کر رائے بھی لیا کرتا تھا۔ ہاں اس نے کچھ مندر بھی گرائے، جزیہ ٹیکس کو بھی بحال کیا اور مرہٹوں کو مرکزی اور جنوبی ہندوستان میں کافی نقصان بھی پہنچایا۔ کسی بھی مورخ کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ اورنگ زیب عالمگیر کے تمام پہلوئوں سے واقفیت رکھے بجائے اس کے کہ وہ اس الجھے ہوئے بادشاہ کے چند مخصوص پہلوئوں کو ہی اجاگر کرتا رہے۔ ایک سوال میں آڈرے سے پوچھا گیا کہ نو آبادیاتی تاریخ نویسی نے اورنگ زیب کے امیج کو کیسے نقصان پہنچایا؟اس حوالے سے تاریخ سے کچھ مخصوص کیسز کا حوالہ تو فراہم کریں۔ آڈرے نے کہا کہ برطانوی مورخین ہندوستانی مسلمان بادشاہوں کی ناپسندیدہ عکاسی کرتے رہے ہیں اور اورنگ زیب کو تو انہوں نے خصوصاً ایک خوفناک حکمران کے طور پر پیش کیا ہے تاکہ برطانوی نوآبادیاتی نظام کو ان بادشاہوں کے دور کے مقابلے میں زیادہ روشن ثابت کیا جاسکے۔ اس بارے میں بہتر مثال ایلیٹ اور ڈائوسن جیسے مورخین کی کتاب The History of India as Told by Its Own Historians کی ہے۔ جس میں پہلے سے سکھائے اسلامی متن کے کچھ ٹکڑوں کو منتخب کیا جاتا ہے تاکہ ہندوستانی مسلم بادشاہوں کے ظلم و ستم کو اجاگر کیا جا سکے۔ ایلیٹ اور ڈائوسن دونوں نے اپنے اپنے دیباچوں میں اس حوالے سے خاصا کھل کر بیان کیا اور یہ دونوں اپنے مقاصد کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں رکھتے تھے۔ جلد کے پہلے دیباچے میں ایلیٹ نے برطانوی استعماری حکومت کی برتری ان مسلم بادشاہوں پر جتائی ہے جنہوں نے اپنے دور میں کیلی گلا کی طرح مظالم ڈھائے اور کئی دوسری برائیوں میں ملوث رہے۔ ڈائوسن کے دیباچے میں جو کہ دوسری جلد میں ہے اس میں کہا گیا کہ قارئین، مسلم بادشاہوں کے ظلم و ستم کے حوالے سے ترجمے کئے گئے ٹکڑے ’’مسلم مطلق العنانیت‘‘میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ آج بھی کئی لوگ استعماریت کے دور کے اس مسائل زدہ پروپیگنڈے کا حوالہ دیتے ہیں جو کہ برطانوی اور نوآبادیاتی ایجنڈے کے حق میں لکھا گیا۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ آج بھی اورنگ زیب کا امیج سیاسی فوائد کے حصول کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، آڈرے نے کہا کہ برٹش استعمار کو آج بھی بھارت میں کچھ حامی اور ہم خیال مل جاتے ہیں۔ لیکن ہندو قوم پرستوں نے جس طرح مغلیہ تاریخ کے استعماری دور کی عکاسی کی ہے بشمول اورنگ زیب عالمگیر کے، اس طرح وہ اینٹی مسلم جذبات کو بھارت میں بڑھاوا دیتے ہیں۔ ہندو قومیت کو دیکھتے ہوئے اس طرح کے استعماری خیالات کو اپنانا قطعی ایک حیران کن امر نہیں ہے۔ لیکن یہ سب بھارت کی بنیاد رکھنے والوں کے اس نصب العین کے لئے بہت ہی ضرررساں ہے جس کے تحت بھارت کو ایک سیکولر ریاست کے طور پر جانا جاتا ہے جس میں ہر مذہب کے افراد بستے ہیں۔ اکبر اور اورنگ زیب کے درمیان موازنے اور یہ کہ اکبر کو ایک اچھا مغل حکمران اور اورنگ زیب کو ایک خراب حکمران کے طور پر جانا جاتا ہے کے سوال پر آڈرے نے کہا کہ اکبر اور اورنگ زیب کے درمیان تقسیم اپنا وجود رکھتی ہے۔ میرے خیال میں کیونکہ بہت سے لوگ جب ہندو مسلم تاریخ کا تجزیہ کرتے ہیں تو وہ مسلم بادشاہوں کو اپنی بنائی گئی پرہیزگاری کی کسوٹی پر تولتے ہیں۔
یہاں پر آئیڈیا یہ ہے کہ اکبر ایک شاندار ہندوستانی شہنشاہ اس لئے تھا کیونکہ وہ ایک کٹر مسلمان نہیں تھا۔ جبکہ اورنگ زیب کی پرہیزگاری اور تقویٰ نے اس کی ہندوستان پر حکومت کرنے کی قابلیت کو معذور کیا تھا۔ میرے خیال میں یہ ماضی کے بارے میں سوچنے کا ایک غلط انداز ہے۔ آڈرے سے جب سوال یہ کیا گیا کہ اس ساری ریسرچ کے دوران آپ نے اورنگ زیب کی شخصیت میں سب سے زیادہ نمایاں چیز کیا دیکھی تو اس کے مطابق اورنگ زیب نے اپنے بیٹوں کے حوالے سے خاصے اندھے پن کا مظاہرہ کیا۔ خاص کر وہ یہ بالکل بھی نہیں دیکھ سکا کہ اپنے بیٹوں کو محدود کرکے جو کہ مغل شہزادے بھی تھے، اس نے نہ صرف ان کی پوزیشن کو خراب کیا بلکہ مغل سلطنت کو بھی کمزور کردیا۔ حیرت ہے کہ اورنگ زیب جیسا قابل حکمران بھی مغل سلطنت کے تناظر میں شہزادوں کے حوالے سے ایک مضبوط مقابلے کے رجحان کو کیوں بھانپ نہیں سکا ۔



.
تازہ ترین