• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارا اصل مسئلہ دہشت گرد نہیں، ہماری دو رنگی ہے۔ ہم جو ہیں وہ مانتے نہیں، اور جو نہیں ہیں اس پر اصرار کرتے ہیں۔ ایسا اضطراری نہیں اختیاری ہے۔ اضطراری ہوتا، تو اس نفسیاتی عارضے کا علاج ہوہی جاتا، لیکن چونکہ اختیاری ہے، سو خواہ کتنے ہی آپریشن کئے جائیں، جڑ زمین سے باہر آنے سے رہی۔ مثلاً ہمارا وہ طبقہ جو مذہب پرست کہلاتا ہے، اجتماعات میںجدید تعلیم و دنیا سے بیزاری کا درس دیتا ہے( جو دین دار اصحاب ایسے نہیں ہیں، ظاہر ہے ہمارا اشارہ اُن کی طرف نہیں ) یہ حضرات سادہ لوح عوام کو دنیا و مافیہا سے بیگانہ بناتے ہیں لیکن خود ہر جدید نعمت سے نہ صرف یہ کہ فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ علاج کیلئے یہود و نصاریٰ کی ایجاد کردہ ادویات ہی استعمال میں لاتے ہیں ،یہاں تک کہ ’دین کے ان دشمنوں‘ کے ملکوںمیں علاج کیلئے جاتے ہیں بلکہ بچوں کو بھی جدید تعلیم سے ہی آراستہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاںدورنگی کا کیا عالم ہے آئیے جےیوآئی کے رہنما اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین محمد خان شیرانی کے 2مارچ کےبیا ن سے استفادہ کرتے ہیں ،آپ کا کہنا ہے ’’پاکستان میں اپنے مطلب کیلئے لوگ ڈرامے کرتے ہیں ، ضرورت پڑنے پر یہاں فتوے کیلئے علما اور لڑنے کیلئے طالبان (مجاہد) مل جاتے ہیں‘‘6مارچ کے اخبارات کےمطابق کوئٹہ میں علما کنونشن سے خطاب کرتے مولانا فضل الرحمان نےکہا ’’مدارس میں پڑھنے والوں کو دہشت گرد کہا جاتاہے ، گلہ تو ہمارا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے کندھے پر بندوق کس نے رکھی‘‘دونوں علما کے اقوال سے واضح ہے کہ یہ بندوق مدرسے نے نہیں دی کسی اور نے دی۔اب حق بات یہ ہےکہ یہ علما یہ بھی واضح کریں کہ یہ بندوق کس نے دی؟اور پھر اگر دی تو لینے والوں نے کیوں لی؟جیسا کہ شیرانی صاحب نے فرمایا کہ فتوے کیلئے علما مل جاتے ہیں!تو کیا قوم کی رہنمائی کیلئے ایسے فتویٰ فروشوں کی نشاندہی کی جائے گی!یہاں پر مولانا فضل الرحمٰن کی طرح ہم عوام کا بھی یہ گلہ ہے(اور گلہ اپنوں سے کیا جاتاہے)کہ جب فتویٰ دینے والے عناصر اور نام نہاد مجاہدین کیخلاف کارروائی کی جاتی ہے،تو پھر وہ کون لوگ ہیں جو سادہ لوح عوام کو سڑکوں پر یہ کہہ کرلے آتے ہیں کہ دیکھیں اس ملک میں اسلام پسندوں پر زمین تنگ کی جارہی ہے!بلکہ بسا اوقا ت تو ایسے استدلال مارکیٹ میںلائے جاتے ہیں کہ عوام عش عش کر اُٹھتے ہیں،جیسا کہ فاٹا کے پختونخوا میں انضمام کے تاریخی فیصلے پر ایک محترم مولانا صاحب کا یہ ارشاد ہے’’جو حکومت فاٹا کا مسلہ حل نہیں کرسکتی ، وہ کشمیر کا مسئلہ کیا حل کریگی‘‘!یعنی جب فاٹا کے عوام ، منتخب اراکین اسمبلی اور تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کے مشورے سے حکومت نے فاٹا کے دیرینہ مسئلہ کے حل کی جانب پیش رفت کرلی ہے ، تو گویاحضرت مولانا اسے حل نہیں مانتے ، بلکہ حل اُسے سمجھتے ہیں جو ان کے من میں ہے۔حالانکہ حقیقی تبصرہ تو یوں ہوتا کہ جس حکومت نے فاٹا کا مسئلہ حل کیا وہی حکومت کشمیر کا بھی مسئلہ حل کرسکتی ہے۔خیر اگر حکومت کی نااہلی کا یقین ہو ہی چلا ہے تو پھر ایسی حکومت میں بیٹھنا اور کشمیرکمیٹی کا تاج سر پر سجاناکیا ایک بے کار مشق نہیں!یہ بھی پھل جھڑیاں ہیں کہ فاٹاپختونخوا انضمام امریکی سازش ہے۔سوال یہ ہے کہ فرنگی کی لکیر اور کالے قانون ایف سی آرکو ختم کرنا امریکی سازش ہے یا برقرار رکھنا امریکی سازش ہوسکتی ہے؟نکتہ یہاں یہ آپ کے فکر ونظر کے روبرو رکھنا ہے کہ جو عمل ہمارے بعض مذہبی رہنمائوں کے سیاسی عزائم سے ٹکرائے یہ اُسے خلاف اسلام قرار دینے میں سیکنڈ بھی نہیں لگاتے ، بالکل اسی طرح کہ جب جب کسی سیاستدان لٹیرے پر ہاتھ پڑتا ہے تو سیاسی جماعتیں چلا اُٹھتی ہیں کہ یہ جمہوری استحکام کو سبوتاژ کرنے کی مہم کا آغاز ہے۔
اس میں ہمارے لبرل بادشاہ پیش پیش ہوتے ہیں، (ہم بات نام نہادوں کی کررہے ہیں) مساوات ،طبقاتی تفریق سے بیزاری ، ملکی وسائل پر تمام شہریوں کا یکساں حق، الغرض بلاامتیاز، رنگ ونسل سب کے ساتھ یکساں سلوک، ان کا سلوگن ہے۔ دو رنگی مگر ملاحظہ فرمائیں کہ یہ فائیو اسٹار زہوٹلوں میں غریبوں کے حق میں اپنا حلقِ نازک جس عالم خشک کررہے ہوتے ہیں، پھر جب وہ انہی ہوٹلوں میں اپنا حلق تر کرنے پر آتے ہیں تو ایسے میں کیا اپنے اُن غریب ڈرائیوروں کو یاد کرتے ہیں جو ان کے انتظار میں کبھی ایک اور کبھی دوسرے فٹ پاتھ پر ڈیرہ جمائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ دور کیوں جائیں ان لبرل کا ذرا اپنے اُن ملازمین، جو ان کے گھروں یا دفاتر پر کام کرتے ہیں، سلوک کا تو مشاہدہ کریں تو صحیح معنوں میں روشن خیالی کی تشریح کھل کر سامنے آجائے گی۔ گزشتہ دنوں کراچی کے ایک بڑے ہوٹل میں ایسے ہی روشن خیالوںنے کراچی لٹریچر فیسٹیول کا اہتمام کیا ، یہ ادبی میلہ کم اور اشرافیہ کا شو زیادہ لگ رہا تھا۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ادب کا دیگر کے علاوہ برسوں سے موضوع غریب اور غریب الوطنی رہا ہے۔ وہ یوں بھی کہ آسودگی ہو تو پھر حروف اور ساز و آواز میں لے کیونکر آئے! لیکن یہ نعمتوں سے لبریز ادیبوں اور ان کے ایسے ہی مداحوں کا ’بیانیہ‘ ہی تھا۔ مداح بھی ایسے کہ جن کا ایسی دل پذیر تقریب میں جانا محض فیشن ہے ۔ راقم کے تجربے میں آیا کہ منتظمین ، مقررین و شائقین، بڑے بڑے محلات سے نکلے، بڑی بڑی گاڑیوں میں غریب بستیوں سے کنی کتراتے یہ بڑے ہوٹل میں آئے، بڑے بڑے لوگ آپس میں گھل مل گئے، رنگ و نور، حوربےمستور کا ایک ایسا جہاں تھاجس میں ایسے لوگ ڈھونڈنے پر بھی نہ ملے جن کی یہاں بات ہورہی تھی۔ ہاں وہ دور بہت دور فٹ پاتھ پر ایک گندے نالے کے قریب ٹولیوں میں بیٹھے منتظر تھے کہ فیسٹیول میں شریک آقا کا کب بلاوا آئے اور وہ انتظار کے اس عذاب سے امان پائیں!! اب ایسی محافل میں جیل و جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کرنےوالے فیض صاحب کا جب بار بار ذکر آئے تو رونا نہ آئے تو کیوں نہ آئے۔وجہ یہ ہے کہ اگر یہ برگر لبرل جیل چلے جائیںتو ان کا تمام سرخی پائوڈر پہلے ہی دن ان کےہاتھ میںآجائے!ایک ظلم یہ بھی ہوا کہ وہ رجعت پرست جو کل تک فیض صاحب کیخلاف فتوے کشید کرتے تھے، اب وہ بھی فیض صاحب سے فیض یاب ہوئے بغیر سانس نہیں لیتے۔ خلاصہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں قیادت و سیادت کے حوالے سے(معمولی استثنا کے) جس کے پاس جتنا اختیار ہے وہ اتنا ہی ریاکار ہے،کاش ہم دو نمبری کے حوالے سے جس قدر خود کفیل ہیں، اُسی طرح قول وفعل میں یکسانیت بھی کبھی ہمارا مقدر ٹھہرے،اے کاش.....



.
تازہ ترین