• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ سال پاکستان کی ایکسپورٹس میں کمی سے ہماری ایکسپورٹس 25 ارب ڈالر سے گرکر بمشکل 20 ارب ڈالر رہ گئیں جس میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی ایکسپورٹس میں کمی نمایاں ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کا ملکی مجموعی ایکسپورٹس میں حصہ 55 فیصد ہے لیکن گزشتہ کئی سالوں سے ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹس تنزلی کا شکار ہے جو حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ یہ سیکٹر مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 38 فیصد ملازمتیں فراہم کرتا ہے اور ملکی جی ڈی پی میں اس کا حصہ 8 فیصد سے 9 فیصدہے۔ ملکی ایکسپورٹس بالخصوص ٹیکسٹائل ایکسپورٹس میں کمی پر وزیراعظم پاکستان نے وجوہات جاننے کیلئے گزشتہ سال ملک کے ممتاز ایکسپورٹرز کو اسلام آباد بلایا تھا جس میں، میں نے بھی ایک پریذنٹیشن دی تھی اور اپٹما نے بھی اعداد و شمار پیش کرکے وفاقی وزراء اور وزیراعظم کو بتایا تھا کہ ملک میں تیزی سے بڑھنے والی پیداواری لاگت نے ہماری ایکسپورٹس کو علاقائی حریفوں کے مقابلے میں غیر مقابلاتی بنادیا ہے۔ ایکسپورٹرز نے پاکستان اور بنگلہ دیش کی پیداواری لاگت کا موازنہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں بننے والے ایک گارمنٹس کی لاگت بنگلہ دیش کے مقابلے میں تقریباً دگنی ہے یعنی پاکستان میں ایک گارمنٹس پر خام مال کے علاوہ لاگت 2.7 ڈالر آتی ہے جبکہ بنگلہ دیش میں یہ صرف 1.5 ڈالر پڑتی ہے۔ اس پیداواری لاگت میں سے 60 فیصد اجرتیں اور 30 فیصد بجلی کی لاگت ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش میں مزدوروں کی کم از کم اجرت 68 ڈالر جبکہ پاکستان میں 135 ڈالر (14 ہزار روپے) ماہانہ ہے اور اس طرح پاکستان میں بنگلہ دیش کے مقابلے میں اجرتیں دگنی ہیں۔ اجرتوں کا براہ راست اثر اوورٹائم، بونس، EOBI، سوشل سیکورٹی اور دیگر الائونسز پر پڑتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں ایک مزدور پر اجرتوں کی مد میں تقریباً 222 ڈالر ماہانہ اخراجات آتے ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں یہ صرف 97 ڈالر ماہانہ ہیں۔ پاکستان کی مقابلاتی سکت برقرار رکھنے کیلئے وزیراعظم پاکستان نے گزشتہ سال بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین مفتاح اسماعیل کی رہائش گاہ پر ٹیکسٹائل کے ممتاز ایکسپورٹرز سے ساڑھے تین گھنٹے طویل ملاقات کی۔ وزیراعظم کے ہمراہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی تھے۔ اس موقع پر ایکسپورٹرز نے وزیراعظم کو پاکستان میں بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کے بارے میں بتاتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ وہ ترکی اور دیگر ممالک سے ذاتی طور پر بات کرکے پاکستان کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کریں تاکہ پاکستان رعایتی ٹیرف پر اپنی ٹیکسٹائل مصنوعات ان ممالک کو ایکسپورٹس کرسکے کیونکہ بنگلہ دیش LDC ہونے کی وجہ سے پوری دنیا کو بغیر ڈیوٹی اپنی مصنوعات ایکسپورٹ کررہا ہے جبکہ پاکستان کو ان ممالک کو اپنی مصنوعات ایکسپورٹس کرنے پر اضافی کسٹم ڈیوٹیاں ادا کرنا پڑتی ہیں جس کے باعث ہماری مصنوعات مہنگی ہوجاتی ہیں اور ہمارے آرڈرز بنگلہ دیش اور دیگر ممالک جن کی پیداواری لاگت ہم سے کم ہے، منتقل ہورہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں گیس سے بجلی پیدا کرنے کی لاگت 4 سینٹ فی کلو واٹ ہے جبکہ پاکستان میں یہ 9 سینٹ فی کلو واٹ ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں بجلی کی لاگت 11 سینٹ فی کلو واٹ جبکہ پاکستان میں 13 سینٹ فی کلو واٹ ہے۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل پروسیسنگ انڈسٹری جس میں اسٹیم نہایت اہمیت رکھتی ہے، کی فی ٹن لاگت 16.67 ڈالر فی گھنٹہ ہے جبکہ بنگلہ دیش میں یہ لاگت صرف 6.75 ڈالر فی گھنٹہ ہے، اس طرح پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری میں اسٹیم کی لاگت بنگلہ دیش کے مقابلے میں ڈھائی گنا ہے۔ پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر پر کئی بلاواسطہ ٹیکسز بھی عائد ہیں جن میں ورکرز ویلفیئر فنڈز (WWF)، WPPF، ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ سرچارج(EDS)، ٹرن اوور ٹیکس اور ایڈوانس ٹیکس شامل ہیں جو ٹیکسٹائل کی پیداواری لاگت کو بڑھادیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کے طویل عرصے سے ریفنڈ کی عدم ادائیگی بھی ٹیکسٹائل شعبے کے ورکنگ کیپٹل کو متاثر کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین کے 27 ممبر ممالک سے ڈیوٹی فری جی ایس پی پلس سہولت ملنے کے باوجود ہم یورپی یونین کو اپنی ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کرسکے۔
گزشتہ سال زراعت کے شعبے میں منفی گروتھ دیکھی گئی اور کاٹن کی پیداوار 14 ملین بیلز سے کم ہوکر 9.5 ملین بیلز رہی جبکہ بھارت نے جدید بیجوں کے استعمال سے اپنی کاٹن کی پیداوار 18 ملین بیلز سے بڑھاکر 36ملین بیلز سالانہ کرلی ہے اور آج بھارت دنیا میں کاٹن ایکسپورٹ کرنے والا اہم ملک بن چکا ہے۔ ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ کو فروغ دینے کیلئے ملک میں دو پانچ سالہ ٹیکسٹائل پالیسیوں کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے وزارت خزانہ سے وقت پر فنڈز جاری نہ کئے جانے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جاسکے۔ ہمارے مقابلاتی حریف بنگلہ دیش اور بھارت میں ہر ماہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی ان کے وزیر ٹیکسٹائل کے ساتھ میٹنگز ہوتی ہیں جبکہ پاکستان میں گزشتہ دو سالوں سے ٹیکسٹائل کا کوئی وفاقی وزیر ہی نہیں جس سے ملکی معیشت کے سب سے بڑے سیکٹر ٹیکسٹائل کیلئے حکومتی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اسی سلسلے میں ممتاز ایکسپورٹرز شاہد سورتی اور طارق رفیع نے ٹی ڈیپ کے سی ای او ایس ایم منیر اور مجھ سے کراچی میں ملاقات کی جس میں انہوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش میں مزدور کی اجرتوں، بجلی اور گیس کے نرخوںاور مقابلاتی حریفوں کی اپنے ایکسپورٹرز کو دی جانے والی حکومتی مراعات کے حوالے سے ایک موازنہ پیش کیا جس کے مطابق ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات دیگر مقابلاتی حریفوں سے تقریباً 8 سے 10 فیصد مہنگی ہیں۔ ملکی ایکسپورٹ کی مقابلاتی سکت بڑھانے کیلئے حکومت نے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز اور فیڈریشن کی سفارشات کے مطابق 17 جنوری 2017ء سے ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹ پر بالخصوص دھاگے پر 5 فیصد ، کپڑے پر 6 فیصد، گارمنٹس اور ہوم ٹیکسٹائل پر 7 فیصد ریبیٹ دینے کا اعلان کیا ہے لیکن اس ریبیٹ کو آئندہ مالی سال (جولائی 2017ء سے جون 2018ء ) حاصل کرنے کیلئے ایکسپورٹرز کو اپنی موجودہ ایکسپورٹس میں 10 فیصد اضافہ کرنا ہوگا جس سے ملکی ایکسپورٹس میں دو سے ڈھائی ارب ڈالر کا اضافہ متوقع ہے۔
انرجی کا بحران، خطے میں بجلی اور گیس کے مہنگے نرخ، امن و امان کی موجودہ صورتحال اور صنعتوں کے مالی نقصانات وہ عوامل ہیں جس نے مقامی سرمایہ کاروں اور نئی نسل جو بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے وطن واپس لوٹے ہیں، کو ٹیکسٹائل صنعتوں میں سرمایہ کاری کے بجائے ریٹیل بزنس کی طرف راغب کیا ہے اور بے شمار ٹیکسٹائل ٹائیکون ونڈ انرجی، رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ، اسٹاک مارکیٹ، شاپنگ مالز اور ریٹیل اسٹورز جیسے بزنس میں نئی سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل کی پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت کے بحران پر گورنر اسٹیٹ بینک اور بینکوں کے صدور سے اپنی میٹنگ کا ذکر کیا تھا جس میں پاکستان کے تمام بڑے بینکوں کا تقریباً 25 فیصد نادہندگی ٹیکسٹائل سیکٹر میں ہے۔ میرا نئی نسل کے نوجوانوں سے اس موضوع پر تبادلہ خیال ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ وہ روایتی بزنس میں دلچسپی رکھنے کے بجائے محفوظ سرمایہ کاری اور زیادہ منافع پر یقین رکھتے ہیں۔ میرا حکومت اور پالیسی میکرز کو مشورہ ہے کہ وہ دنیا کے چوتھے بڑے کاٹن پیدا کرنے والے ملک پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو غیر مقابلاتی بنانے والے عوامل کو ہنگامی بنیادوں پر ختم کریں تاکہ ملکی معیشت میں سب سے زیادہ ملازمتیں پیدا کرنے والے ٹیکسٹائل سیکٹر میں سرمایہ کاری کا رجحان دوبارہ پیدا ہوسکے نہیں تو ہمارا ملک مستقبل میں ایک ٹریڈنگ اسٹیٹ بن جائے گا۔

.
تازہ ترین