• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت نے نئے سال کے بجٹ کے حوالے سے کچھ نئے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے اقدامات کا آغاز کردیا ہے جس میں سرفہرست پہلی بار انعامی بانڈز میں کی جانے والی سرمایہ کاری کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے۔اس کے تحت وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے چند روز قبل پہلے مرحلہ میں 40ہزار روپے کے پریمیم بانڈز کے اجراء کے فیصلہ سے آگاہ کیا ہے۔ ’’دیر آئے درست آئے‘‘ پاکستان میں پانچ سو سے سات سوارب روپے کے کالے دھن میں سب سے قابل ذکر حصہ انعامی بانڈز کا ہے جس میں جو ہر قسم کے کاروبار سے لے کر ٹیکس ریٹرن تک میں ’’محفوظ ‘‘طریقے سے ٹیکس چھپانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ انعامی بانڈز کے اجراء کے وقت تو اس کا بنیادی مقصد قومی سطح پر بیوہ، پینشنرز ، ریٹائرڈ افراد اور عام افراد کے لئے ماہانہ کچھ نہ کچھ بچت کے حوالے سے حکومتی اقدامات ہوتے تھے۔ ان دنوں میں بچت کے قومی اداروں میں بھی شرح منافع 17فیصد سے زائد ہوتا تھا پھر اس منافع کو 1980کے آخری عرصہ اور1990کی دہائی کے وسط تک ہمارے بااثر طبقوں جن میں ممبران پارلیمنٹ کی اکثریت سے لے کر ہر بڑے اور چھوٹے کاروبار اداروں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس کے بعد عالمی اداروں اور خاص کر آئی ایم ایف کے دبائو پر بچت اسکیموں پر شرح منافع تقریباً نہ ہونے کے برابر (اوسط پانچ سے سات فیصد) کردیا گیا جس سے غریب، درمیانہ طبقہ اور بیوائیں اور پینشنرز بری طرح متاثر ہوئے اور دوسری طرف غیر متوقع طور پر انعامی بانڈز کی سیل کئی گنا بڑھ گئی۔ جس میں وفاقی حکومت اور سٹیٹ بنک کی نرم پالیسیوں کی وجہ سے جس کا بھی ہاتھ پڑا اس نے رشوت ، چوری اور لوٹ مار سمیت اپنی ہر قسم کی کمائی سے یہ بانڈز خرید نے شروع کردئیے اور دوسری طرف ٹیکس چوری سے بچنے کے لئے اربوں روپے کے اثاثے چھپاتے ہوئے بااثر طبقے اپنے اپنے ٹیکس گوشواروں میں بڑی آزادی سے ٹیکسوں کی اصل آمدن کو نہ صرف چھپاتے رہے بلکہ ایف بی آر کے حکام انہیں کئی کئی راستے بھی بتاتے رہے۔ اس عرصہ میں ایک وقت ایسا بھی آیا جس میں پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ سے باہر ہر بااختیار اور زیادہ مالی پوزیشن والے افراد نے انعامی بانڈز کی پوری پوری سیریز ہی خریدنی شروع کردی۔ اس لئے کہ ان بانڈز کی خریداری پر کوئی پوچھ گچھ نہ تھا۔ اب یقینی طور پر عالمی اداروں کے دبائو پر حکومت نے کالے دھن میں ا ضافہ کی حوصلہ شکنی ا ور ٹیکسوں کی آمدنی بڑھانے کے لئے پہلے مرحلہ میں 40ہزار روپے مالیت کے بانڈز پر پریمیم دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس لئے کہ سب سے زیادہ سرمایہ کاری بھی اس میں ہورہی تھی۔ بہتریہ ہے کہ باقی بانڈز کو بھی اس طرح کے پیکیج کے ساتھ لنک کردیا جائے لیکن اس سے پہلے کاروباری افراد کو اعتماد میں لیا جائے کہ وہ حکومت سے اس حوالے سے تعاون کریں اس کے ساتھ ساتھ کم از کم ایف بی ا ٓر کاروباری اور امیر طبقوں کی ٹیکس ریڑن میں انعامی بانڈز کی سرمایہ کاری ظاہر کرنے پر ان سے پوچھ گچھ کرسکتی ہے کہ یہ بانڈز کس سرمائے سے خریدے گئے تھے لیکن اس میں عام ٹیکس دہندگان کو پریشان نہ کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ وزیر خزانہ اس بات کو یقینی بنائیں گے تو اس اقدام کے مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ دوسرا حکومت کے لئے بھی یہ چیلنج سے کم نہیں ہے کہ اربوں روپے کا ٹیکس چھپانے والے اتنی آسانی سے پریمیم بانڈز کی خریداری کی طرف راغب ہو جائیں گے۔

.
تازہ ترین