• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
والد نے ان کا نک نیم ڈھلی رکھ چھوڑا تھا، اس لئے کہ وہ ابتدائے عمر سے ہی ڈھیلا ڈھالا دکھائی دیتا، اس میں ہوشیاری اور چالاکی تو دور کی بات بیداری بھی پوری نہ تھی نیم خوابیدہ کچھ کھویا کھویا بلکہ سویا سا معلوم ہوتا، اس کی زبان میں تھوڑی سی لکنت بھی تھی، ان کے دونوں بڑے بھائی اقبال فیروز اور اعجاز فیروز اپنے دور کے مانے ہوئے مقرر تھے، اقبال فیروز شورش کاشمیری کے دوست تھے، غالباً ان کے ساتھ چٹان میں کام بھی کرتے رہے، شورش ان کی بڑی تعریف کیا کرتے۔ والد کو اپنے چھوٹے بیٹے افتخار فیروز سے تقریری مقابلے اور مباحثے میں کامیابی کی زیادہ امید نہ تھی، ایک تو وہ خاموش اور ڈھیلا سا دکھائی دیتا پھر زبان میں لکنت کے سبب والد کو یہ خیال رہا ہوگا کہ تقریری مقابلے میں زبان کے اٹک جانے سے ننھا بچہ اپنے ہم جولیوں کی ہوٹنگ کی تاب نہ لاسکے گا، شاید ایسا کوئی واقعہ اسے ہمیشہ کے لئے احساس کمتری کا شکار بنا دے یہی وجہ تھی پرائمری اسکول کی چوتھی جماعت میں افتخار نے والد صاحب سے تقریر لکھ دینے کی استدعا کی تو ان کی طرف سے حوصلہ افزا جواب نہیں ملا۔ اب معلوم نہیں اس نے بڑے بھائیوں میں سے کس سے تقریر لکھوائی یا کسی استاد نے لکھ کر دی، ایک دن وہ اسکول سے واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں چھوٹا سا کپ تھا، جو اس نے تقریری مقابلے میں اول آنے پر انعام میں جیتا تھا، شرماتے ہوئے اس نے یہ کپ والد صاحب کو دکھایا، جب انہیں بتایا کہ وہ مقابلے میں پہلے نمبر پر آیا ہے تو انہوں نے حیرت کے ساتھ خوشی کا اظہار کیا یہ اس کی زندگی کا پہلا مقابلہ تھا جو کسی حوصلہ افزائی کے بغیر ہی وہ جیت لایا تھا، اس کے بعد اس نے مڑ کے نہیں دیکھا، اسکول، کالج، یونیورسٹی، جس مباحثے میں شریک ہوا کوئی اس کا ثانی نہ تھا۔ اس زمانے میں مباحثے اور تقریری مقابلے تعلیم کے بعد سب سے بڑی ایکٹویٹی (سرگرمی) ہوا کرتے جو مقامی اسکول، کالج، یونیورسٹی سے ضلع، پھر ڈویژن، صوبے، پھر قومی سطح پر منعقد ہوتے۔ بعض اوقات یہ مقابلے بین الاقوامی سطح پر بھی ہوا کرتے، ایسے ہی ایک مقابلے کے لئے جو ملائیشیا میں ہوا تھا، میرے خالہ زاد بھائی ہارون الرشید بھی منتخب ہوئے تھے حالانکہ وہ ابھی ہائی اسکول کے طالب علم تھے۔ ہم تین دوست رحیم یار خان سے میٹرک کے بعد کالج میں پڑھنے کے لئے لائل پور آئے تھے، ایک شفیق انور جو آجکل پنجاب میں صوبائی وزیر ہیں، دوسرے لیاقت علی جو ترک وطن کر کے ان دنوں امریکہ کے لاہور یعنی نیویارک میں ہوا کرتے ہیں۔ ان دنوں لائل پور کے مقررین کی ملک بھر میں دھوم تھی، نہ صرف فن تقریر میں انہیں کمال حاصل تھا، ان میں جگت بازی، شرارت کے ساتھ تھوڑا تلنگا پن بھی پایا جاتا تھا۔ نعمت اللہ خاں، عاشق کنگ، ظفر اقبال، جمیل گل، شیخ سلیم، خالد سعید ان کے علاوہ بھی ایک سے بڑھ کر ایک گورنمنٹ کالج دھوبی گھاٹ، میونسپل کالج، اسلامیہ کالج کے علاوہ زرعی یونیورسٹی لائل پور بھی اس میدان میں بڑی زرخیز تھی۔ سدا بہار حفیظ خاں کے والد اسی یونیورسٹی میں ایک شعبہ کےہیڈ تھے۔ یہی حفیظ خاں بعد میں پنجاب یونیورسٹی کے صدر بنے اور جاوید ہاشمی ان کے ساتھ سیکرٹری جنرل بنے تھے، اگلے سال وہ صدر منتخب ہو ئے۔
یہ افتخار فیروز ہی تھے جنہوں نے جاوید ہاشمی کے لئے ’’ایک بہادر آدمی، ہاشمی ہاشمی‘‘ کا نعرہ ایجاد کیا، جو پچاس برس ہونے کو آئے آج بھی پہلے دن کی طرح تازہ ہے، لائل پور اور لاہور کے علاوہ شہر بہ شہر بڑے نامی مقرر تھے، شیخوپورہ میں تنویر عباس تابش، منٹگمری میں اکرم شیخ، عبداللطیف چشتی، کراچی یونیورسٹی کا بھی اس میدان میں بڑا نام تھا، پشاور اور کوئٹہ یونیورسٹیاں تلفظ میں نقص کی وجہ سے زیادہ کامیاب نہ ہو پاتیں لیکن سب مقررین میں افتحار فیروز کا منفرد اعزاز تھا، وہ مقرر سے بڑھ کے اعلیٰ پائے کے خطیب تھے، تب زندہ اور موجود لوگوں میں شورش کاشمیری کے علاوہ افتخار فیروز سے بڑھ کے کوئی نہ تھا، وہ شورش کو اپنا استاد مانتے اور انہی کے پیرائے میں خطاب کرتے۔ برصغیر میں خطابت کی بڑی اعلیٰ روایات ہیں، بہادر یار جنگ، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان، دائود غزنوی، ابوبکر غزنوی۔ ابوبکر غزنوی اور شورش کاشمیری سے تو ہمیں بھی نیاز حاصل رہا، سید عطااللہ شاہ بخاری اور ان کی مجلس احرار نے اس فن کو درجہ کمال عطا کیا۔ اس قافلہ کے آخری سالار افتخار فیروز ہی تھے وہی اس فن کے خاتم ہوئے۔ کوئی ان کا مقابل پیدا نہ ہوا اس فن کے باقی بچ رہنے کی کوئی امید نظر آتی ہے۔ کالج اور یونیورسٹی کی دنیا میں ان کی شہرت ایسی تھی کہ کوئی بھی طالب علم ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا، چنانچہ لائل پور میں ہم نو وارد دوست بھی ان کی شہرت و مقبولیت سے غائبانہ متاثر تھے، انہی دنوں کچہری بازار میں شیخ اسحقٰ کی کتابوں کی دوکان پر زرعی یونیورسٹی کے پروفیسر الطاف الرحمٰن برق نے افتخار فیروز سے متعارف کروایا، وہ شرمیلی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوری توجہ اور تپاک سے ملے۔ نام سے تو ہم مرعوب تھے ہی لیکن ابتدائی ملاقات میں کوئی غیر معمولی بات نظر نہیں آئی لیکن چند دنوں بعد ان کا جوہر کھلا جب لائل پور ٹائون ہال میںمایہ ناز قانون دان، ممتاز دانشور، سابق وزیر قانون ایس ایم ظفر طلبہ کی عدالت میں پیش ہوئے، اس مقدمہ میں افتخار فیروز وکیل استغاثہ تھے۔ طلبہ کی اس عدالت میں ابلاغ کی خوبیوں، حسن بیاں اور خطابت کے عظیم الشان فن کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا، یہ ایک منفرد اور متاثر کن تجربہ تھا، دیگر مقررین افتخار کی خطابت کے مقابل بے زبان اور گونگے نظر آتے، وہ ایسی زبان میں مخاطب ہوتا کہ شاید بہرے بھی اس کو پوری طرح سن سکتے ہوں اور مجنون بھی اس کی کاٹ اور اثر سے متاثر ہوئے بن نہ رہ سکتے، تب وہ ’’سبعہ معلقہ‘’‘ کے عرب شاعروں کا رہنما دکھائی پڑتا تھا۔ اسٹیج پر کھڑے افتخار فیروز کی صلاحیتوں کی کوئی انتہا نہ تھی۔ اس دن کی بحث اس کے کامیاب وکیل بننے کی بے پناہ لیاقت کو ظاہر کرتی تھی۔ پھر معلوم نہیں ہمارے ساتھ وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد بھی اس میدان سے گریزاں کیوں رہا۔ اس کے گریز نے قوم کو ایک کامیاب وکیل، منصف مزاج جج اور عوام کو عظیم قائد اور مقبول رہنما سے محروم کردیا۔
بی اے کے بعد پنجاب یونیورسٹی گئے تو ابتدا میں قیام ہوسٹل نمبر آٹھ میں جاوید ہاشمی کے کمرے میں تھا چند دنوں کے بعد جب ہوسٹل نمبر ایک کے کمرہ 311 میں اٹھ آئے تو افتخار فیروز کا قیام بھی اسی ہوسٹل میں تھا۔ ہر صبح پہلی آواز جو کان میں پڑتی وہ نمک ملے نیم گرم پانی سے افتخار فیروز کے پرشور غرارے کی ہوتی۔ وہ بڑی باقاعدگی سے باآواز بلند غرارے کیا کرتے جو ہوسٹل کے آخری کمرے تک ان کی موجودگی کی اطلاع دیا کرتے۔
لائل پور کے دو باسیوں کی ملاقات محبت کے ساتھ گہری دوستی میں بدل گئی۔ یونیورسٹی کے بعد اِدھر اُدھر گھومتے رہنے کی وجہ سے ملاقاتوں میں باقاعدگی اور تسلسل نہ رہا بقول عبدالحمید عدم ؎
ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی
یہ بے ترتیب یارانے حسین معلوم ہوتے ہیں
یہ بے ترتیب یارانے ہمیشہ قائم رہے۔
حسن نثار کو لائل پور سے عشق ہے، لائل پور کو حسن نثار پر فخر، افتخار فیروز اور حسن نثار دونوں دوست لائل پور کے مایہ ناز فرزند ہیں، جنہوں نے اس شہر کی عزت اور انفرادیت کو اور بھی گہرا کر دیا۔ حسن نثار کا وہ کالم سچ ہونے کے باوجود گہرے صدمے کا باعث ہوا جس میں افتخار فیروز کے امریکہ میں انتقال کر جانے کا ذکر تھا۔ ؎
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے؟
زمیں کھا گئی، آسماں کیسے کیسے!
کریں کیا؟ زمین بولتی ہے نہ آسمان سنتا ہے
تاہم ہماری محبت تا بہ ابد قائم رہے گی، آج ہم اپنے دوست کو پہلے سے سوا یاد کرتے ہیں۔ ہر صبح کی مناجات اور دعائوں میں۔

.
تازہ ترین